Wednesday, January 16, 2013
لانگ مارچ اور دھرنے
جنوری تیرہ، دو ہزار بارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو بیس
لانگ مارچ اور
دھرنے
میں اس وقت سینٹا کلارا میں ہوں۔
کراچی سے زندہ بچ کر آ گیا ہوں۔ مجھے اس بات پہ خوش ہونا چاہیے کہ میرے پاکستان میں
رہتے ہوءے جن تین سو کے لگ بھگ لوگوں کو ہلاک کیا گیا، میں ان لوگوں میں شامل نہیں
تھا۔ بلکہ میں تو اتنا خوش قسمت ہوں کہ ان انیس دنوں میں نہ تو کبھی لٹا، نہ میرا
موباءل چھینا گیا، نہ مجھے بندوق کے زور پہ زدوکوب کیا گیا، اور نہ ہی میں نے کسی
زوردار دھماکے میں لوگوں کے چیتھڑے اڑتے دیکھے۔ گو کہ ایک بس میں رکھا بم اس جگہ
سے چند سو گز کے فاصلے پہ پھٹا جہاں میرا قیام تھا، مگر اس وقت میں جاءے وقوع سے
بہت دور تھا اور اس دہشت گردی کی اطلاع مجھے دوسروں سے ہوءی۔ قصہ مختصر یہ کہ میں اس پاکستان سے بچ کر نکل
آیا جس سے وہاں مستقل رہنے والوں کا سامنا روز پڑتا ہے۔ اور یہی وہ عذاب پاکستان
ہے جس سے تنگ آکر ایک طرف تو لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا جارہا ہے اور
دوسری طرف کراچی کی مصروف سڑکوں پہ دھرنا جاری ہے۔ عوام اپنی حکومت سے تنگ ہیں۔ وہ
تبدیلی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ایک اچھی حکومت میسر آجاءے جو انصاف سے
حکومت کرے، ایسا دور آءے جب ہر کام قانون کے مطابق ہو، اور طاقتور کمزور کو طاقت
کے زور پہ نہ دبا دے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی اچھی منتظم، ایمان دار، منصف حکومت ہمیں
کیسے میسر آءے گی۔ ہم تو ہم پہلے ہی حکومت سازی کے جدید ترین اور مستند ترین نظام
یعنی جمہوریت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ جمہوریت اس لیے حکومت سازی کا ایک کامیاب
طریقہ ہے کہ اس میں کچھ کچھ عرصے بعد حکمراں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اور انتخابات کا
ہر دور احتساب کا دور ہوتا ہے۔ برے حکمرانوں کو ووٹ کے زور پہ نکال باہر کیا جاتا
ہے اور نءے لوگوں کو آزمانے کے لیے آگے لایا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت ایک
جمہوری حکومت ہے۔ یہ حکومت عوام کے اعتماد سے برسر اقتدار آءی ہے۔ پاکستان کا
انتظامی ڈھانچہ ایک عرصے سے انحطاط کا شکار ہے۔ ہر دفعہ جب ایک نءی حکومت آتی ہے
تو خیال ہوتا ہے کہ جانے والی پرانی حکومت اس نءی حکومت سے تو اچھی تھی۔ پچھلے
پانچ سالوں سے موجود پاکستانی حکومت ایک نااہل حکومت ہے کہ اس نے انحطاط پذیر
معاشرے کا رخ نہ بدلا اور محض اپنا وقت پورا کیا ہے مگر کیا یہ بات باعث اطمینان
نہیں کہ چند ہی ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ پاکستانی عوام اپنے ووٹ کے ذریعے
ان نااہل لوگوں کو ضرور نکال باہر کریں گے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا طاہر
القادری کے لانگ مارچ سے اور شہر شہر دھرنوں سے کیا حاصل ہوگا۔ اگر جمہوری نظام کو
نقصان پہنچاءے بغیر ایسا ہو کہ موجودہ حکمراں حرکت میں آجاءیں تو کیا ہی اچھا ہو۔
مگر لگتا ہے کہ ایسا نہ ہوگا۔ لانگ مارچ اور دھرنوں سے محض افراتفری میں اضافہ
ہوگا۔
کراچی میں قیام کے دوران میری کوشش
ہوتی تھی کہ میں ایک عمارت سے نکل کر دوسری میں گھس جاءوں اورباہر کم سے کم نکلوں۔
ایسی احتیاط کے باوجود حکیم محمود احمد برکاتی کی نماز جنازہ میں شرکت ضروری تھے
کہ وہ میرے بزرگ تھے اور مجھ سے بہت شفقت
سے پیش آتے تھے۔ اس نماز جنازہ میں جماعت اسلامی کے اہم راہ نما شریک ہوءے تھے اور
میں نماز جنازہ پہ فاءرنگ یا بم دھماکے کے اندیشے دل میں لے کر وہاں گیا تھا۔ مگر
شکر ہے کہ عافیت رہی۔ حکیم محمود احمد برکاتی بہت بڑے عالم تھے۔ ایک عالم کی موت
ایک دنیا کی موت ہوتی ہے۔ پھر اس چھیاسی سالہ بزرگ کو اس کے مطب میں گھس کر کیوں
مارا گیا؟ بتایا جاتا ہے کہ محمود برکاتی
کے صاحبزادے مجاہد برکاتی جماعت اسلامی میں بہت متحرک ہیں اور جماعت اسلامی کی طرف
سے مختلف علاقوں کی ووٹر لسٹیں جانچنے کا کام کر رہے تھے۔ جس مطب میں بڑے برکاتی
صاحب کو مارا گیا وہاں باری لگا کر باپ اور بیٹا دونوں بیٹھا کرتے تھے۔ جس روز
محمود برکاتی صاحب کو مارا گیا اس روز مجاہد برکاتی کو مطب میں بیٹھنا تھا۔ خیال
ہے کہ مارنے والے مجاہد برکاتی کی جگہ ان کے والد کو قتل کر کے چلے گءے۔ پاکستان
میں کون کس کو مار رہا ہے، اس سلسلے میں ایک نقطہ نظر تو سرکاری ہے۔ اخبارات میں
اور ٹی وی پہ مستقل نامعلوم حملہ آوروں کا حوالہ آتا ہے۔ دوسرا نقطہ نظر غیرسرکاری
ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو پاکستان کے لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں کرتے ہیں۔ میں
نے یہی سرگوشیاں ہر قتل، ہر دھماکے سے متعلق، پاکستان میں سنی ہیں۔ یہ سرگوشیاں
کہتی ہیں کہ حکیم محمود احمد برکاتی ایم کیو ایم کا نشانہ بنے جسے یہ بات بری لگی
کہ کوءی اس کے علاقے میں ووٹر لسٹوں کو جانچے پرکھے۔ اور اسی طرح کی سرگوشیاں کوءٹہ
کے حالیہ بم دھماکوں کے متعلق ہیں۔ میڈیا مستقل بتا رہا ہے کہ یہ دھماکے نامعلوم
افراد نے کیے مگر سرگوشیوں میں کہا جارہا ہے کہ یہ دھماکے لشکر جھنگوی کا کارنامہ
ہیں جس کے راہ نما مستقل یہ دعوی کرتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان کو شیعہ کافروں سے
پاک کر دیں گے۔ سرگوشیوں میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ پاکستان کی پولیس ان
قاتلوں کا سامنا کرنے سے گھبراتی ہے اور پاکستانی فوج ان کے خلاف کارواءی یہ سوچ
کر نہیں کرتی کہ یہ عسکری گروہ پاکستانی فوج کا سرمایہ ہیں اور اس علاقے سے امریکہ
کی روانگی کے بعد یہ گروہ پاکستانی فوج کے کام آءیں گے۔