Tuesday, January 29, 2013

 

سفر پاکستان سے چند مشاہدات



جنوری اٹھاءیس، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو باءیس

  
 سفرپاکستان سے چند مشاہدات


بہت پہلے کسی جگہ لکھا تھا کہ اگر جہانگردی کا شوق ہو تو آپ کی عمر تو پوری ہو سکتی ہے، آپ سے دنیا پوری نہیں ہوسکتی۔ آپ کبھی یہ دعوی نہ کرپاءیں گے کہ آپ نے دنیا دیکھ لی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قریبا پانچ سال میں ہر جگہ بدل کرایک نیا روپ دھار لیتی ہے۔ چنانچہ ایک ملک کو دیکھ کر جب آپ آگے بڑھ جاءیں گے تو پانچ سال میں وہ ملک پھر سے ایک نیا ملک بن جاءے گا۔  میں تقریبا ہر سال ہی پاکستان جاتا ہوں مگر کراچی میں پلنے بڑھنے کے باوجود اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ آج کا کراچی وہ کراچی نہیں ہے جو میرے ماضی کا تھا۔ آج کا کراچی دنیا کی خطرناک ترین جگہوں میں سے ایک ہے جہاں اسلحے کی فراوانی ہے اور ہر بے روزگار کے پاس ایسے مواقع موجود ہیں کہ وہ باآسانی اسلحہ حاصل کرے اور اپنے روزگار کا انتظام خود کر لے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں کراچی جاتا ہوں تو گھر میں مقید ہو کر رہتا ہوں مگر ایسا ضرور ہے کہ باہر نکلتے ہوءے کءی بار سوچتا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ باہر جانے کی ضرورت کم سے کم پڑے اور اگر باہر جانا ہو بھی تو ایک محفوظ جگہ سے نکل کر جلد از جلد دوسری محفوظ جگہ پہنچ جاءوں۔ یعنی میری یہ آزادی کہ کھل کر آوارہ گردی کروں اور رات گءے تک سڑکیں ناپتا رہوں، اب ماضی کا حصہ بن گءی ہے۔ مگر پورا پاکستان کراچی جیسا خطرناک نہیں ہے۔ پچھلے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ خیبر میل سے میرپور ماتھیلو گیا تھا۔ میرپور ماتھیلو میں اپنے جگری دوست غلام نبی کے گھر ٹہرا تھا۔ وہ فوجی کھاد فیکٹری میں کام کرتے ہیں اور اسی کی ٹاءون شپ میں رہتے ہیں۔ فیکٹری کی وہ ٹاءون شپ پاکستان کا بہترین رہاءشی علاقہ ہے۔ وہاں پانی اور بجلی ہمہ وقت موجود ہے اور ٹاءون شپ کے اندر آپ کو کسی قسم کا ڈر نہیں ہے۔ غلام نبی نے مجھے اپنی گاڑی میں صادق آباد کے بس اڈے پہ چھوڑ دیا تھا۔ اس سفر میں ہم نے سندھ اور پنجاب کی سرحد پار کی اور اس خطرناک راستے سے گزرے جو راہ زنوں میں مقبول ہے۔ میں صادق آباد سے ڈے وو کی بس سے بذریعہ بہاولپور ملتان پہنچا۔ ملتان میں ایک ہوٹل میں رات گزاری اور اندازہ ہوا کہ گرد، گدا، گرما، گورستان کا شہر جنوری کے مہینے میں انتہاءی سرد بھی ہوسکتا ہے۔ ہوٹل کے کمرے میں مجھے بجلی کا ایک ہیٹر دیا گیا تھا مگر اس رات درجہ حرارت نقطہ انجماد کو چھو رہا تھا اور میں ساری رات سردی سے ٹھٹھرتا رہا۔  ملتان پہنچ کر اپنا سامان ہوٹل کے کمرے میں ڈھیر کرنے کے بعد میں دو کیمرے لے کر اندرون شہر گیا تھا۔ وہاں گھنٹہ گھر کی تصاویر کھینچیں اور پھر رکن الدین عالم کے مزار پہ گیا۔ اس زیارت سے نکلنے کے بعد میں نے ایک رکشہ لیا اور رکشے والے سے کہا کہ وہ مجھے کھانے کے لیے کسی اچھی جگہ لے جاءے۔ اس نے مجھے ٹیسٹی ریستوران پہنچا دیا۔ ٹیسٹی کا بالاءی ہال، جو یقینا آرام دہ ہوگا، آل و عیال والوں کے لیے مخصوص تھا۔ چھڑے حضرات نیچے سردی میں کھانا کھا رہے تھے۔ مجھے بھی وہیں بیٹھنا پڑا۔ یوں تو ٹیسٹی کے پاس انواع واقسام کے کھانے تھے مگر بدون گوشت طعام کا انتخاب محدود تھے۔ میں نے شاہی دال نان کے ساتھ کھاءی اور ساتھ چاءے پی۔ ٹیسٹی ریستوراں پہنچنے سے پہلے میں نے رکشے والے سے پوچھا تھا کہ آیا ملتان میں اس طرح رات کے وقت آوارہ گردی کرنے میں کوءی خطرہ تو نہیں ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ملتان میں اس قسم کی کوءی لوٹ مار نہیں ہے جیسی کراچی میں ہے۔ اگلے روز ملتان سے لاہور جانا تھا مگر میں نے بارہ بجے والی جس بس کا ٹکٹ لیا تھا وہ میرے بس اڈے پہنچنے سے بہت پہلے نکل چکی تھی۔ یہ قصہ یوں ہے کہ صبح ناشتہ کمرے میں کرنے کے بعد میں ایک دفعہ پھر سیر کے لیے نکلا۔ ملتان کی مرکزی لاءبریری گھنٹہ گھر کی عمارت میں منتقل ہوچکی ہے۔ پہلے اس لاءبریری کو اچھی طرح دیکھا۔ وہاں قطار در قطار اسلامی کتب تھیں۔ اسلام کا سیکشن ختم ہوا تو اقبالیات کا سیکشن شروع ہوگیا اور بس کہانی ختم۔ منتظم سے پوچھا کہ آیا شہر کے اس سب سے بڑے کتب خانے میں اسلام اور اقبالیات کے علاوہ بھی کتابیں ہیں۔ کوءی طبیعیات، کوءی کیمیا، کوءی ارضیات پہ کتاب ہو تو دکھاءو۔ اس نے بتایا کہ ایسی کتابیں مقبول نہیں ہیں۔ اسلام اور اقبال ہی کی مانگ ہے۔ دنیا کے جھمیلوں والی وہ فضول کتابیں کتب خانے کے پچھلے بند کمروں میں موجود تھیں۔ گھنٹہ گھر سے نکلنے کے بعد باغ قاسم کی طرف چلا۔ پہاڑی پہ واقع رکن الدین عالم اور دوسرے مزاروں کو باہر سے دیکھا، ساتھ ہی ملبے کے اس ڈھیر کو بھی دیکھا کہتے ہیں کہ جہاں کبھی ایک خوب صورت ہندو مندر ہوا کرتا تھا۔ وہاں سے نیچے اترا اور پیدل چلتا ہوا شمس تبریزی سبزواری کے مزار پہ پہنچ گیا۔ اس مزار پہ مجھے ایک قوال مل گیا۔ مجھے اس کی آواز پسند آءی چنانچہ میں نے اس کی ویڈیو بنانا شروع کی۔ پھر کیا تھا وہ اور جذباتی ہو گیا اور اس نے مجھے ایک کے بعد ایک مقبول عام قوالی سناءی۔ اب جو گھڑی دیکھی تو گیارہ سے اوپر کا وقت تھا۔ شمس تبریزی سے نکلنے کے بعد ایک رکشہ پکڑا اور ہوٹل کی طرف چلا۔ مگر ملتان چھوڑنے سے پہلے ملتان کی سوغات یعنی سوہن حلوہ خریدنا بھی ضروری تھا۔ سوہن حلوہ خرید کر ہوٹل پہنچا، کمرے سے سامان اٹھایا اور ڈے وو بس اڈے کی طرف چلا۔ مگر کچہری روڈ سے بس اڈے تک پہنچتے پہنچتے سوا بارہ ہوگءے۔ شمس تبریزی کے مزار والے قوال نے میری بس نکلوا دی تھی۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?