Tuesday, January 22, 2013
علماءے دین کیا کہتے ہیں؟
جنوری اکیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو اکیس
علماءے دین کیا
کہتے ہیں؟
کچھ دیر پہلے سان ہوزے سٹی ہال سے
پلٹا ہوں جہاں مارٹن لوتھر کنگ کے دن یعنی آج پیر، جنوری اکیس کے روز ڈیڑھ سو سے
زاءد لوگ جمع ہوءے اور پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ہلاک ہونے والوں کو بالعموم
اور جنوری دس کے روز کوءٹہ کے دھماکوں میں سو سے زاءد مارے جانے والوں کو بالخصوص
یاد کیا گیا۔ پاکستان میں مذہبی منافرت کا
دیو جس تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے ، یہ بات ہر شخص کے لیے تشویشناک ہے۔ نہ جانے کون آپ کو آپ کے مذہبی نظریات کی بنیاد
پہ مار دے۔ کس کو خیال ہوجاءے کہ آپ نے اپنے اعمال سے اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس
پہنچاءی ہے اور اس لیے آپ کا قتل عین ثواب ہے۔ مذہبی شدت پسندی میں وہ گروہ سب سے
آگے ہے جسے وہابی کہا جاتا ہے۔ اس گروہ کے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ سب سے صحیح
مسلمان ہیں اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اپنے مسلمان ہونے کا دعوی
کرنے والوں میں کون واقعی مسلمان ہے اور کون نہیں۔ شدت پسندی کی اس مہم کے باوجود
ہمیں وہابی علماءے دین کے خیالات صریحا سننے کو نہیں ملتے۔ پاکستانی میڈیا ان
علماءے دین کو ٹی وی پہ بٹھا کر ان سے یہ کیوں نہیں معلوم کرتا کہ ان علما کی راءے
میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں کون صحیح مسلمان ہے اور کون غلط۔ اور یہ کہ ان
علما کی راءے میں جو لوگ اسلام کی راہ سے بھٹکے ہوءے ہیں کیا ایسے گمراہ لوگوں کو
پیار و محبت سے، سمجھا بجھا کر سیدھے راستے پہ لانا چاہیے یا چپکے سے وار کر کے
انہیں قتل کردینا چاہیے۔ کیا قیامت کے لیے بھی کچھ بھی چھوڑ دینا چاہیے یا ان راست
مسلمانوں کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ آج ہی اپنی مرضی سے سزا اور جزا کے سارے
معاملات طے نمٹا لیں۔
آءیے کوءی دوسرا موضوع چھیڑیں۔ میں
آپ کو ایک اچھی خبر سناءوں۔ پاکستان کے
حالیہ سفر میں مجھے ٹرین سے سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ مجھے بالاءے سندھ، میرپور
ماتھیلو جانا تھا اور وہاں جانے کے لیے سب س موثر سواری ٹرین ہی تھی۔ خیبر میل
کراچی کے کینٹ اسٹیشن سے رات دس بجے چلتی ہے اور صبح قریبا پونے ساتے بجے
میرپورماتھیلو پہنچا دیتی ہے۔ خیبر میل میں بیٹھنے سے پہلے بہت سے دوستوں نے مجھے
ٹرین کا سفر کرنے سے منع کیا۔ کچھ کا خیال تھا کہ ٹرین محفوظ سواری نہیں ہے، میں
ٹرین میں لٹ جاءوں گا؛ کچھ اور کہنا تھا کہ ٹرین عموما بہت لیٹ ہوجاتی ہیں اور میں
اس سفر کی طوالت سے تنگ آجاءوں گا۔ پانچ جنوری کے روز میں ان ہی خدشات کے ساتھ
خیبر میل میں سوار ہوا تھا۔ میں عموما اپنے سامان میں کمپیوٹر لے کر چلتا ہوں مگر
اس سفر میں کمپیوٹر میرے ساتھ نہ تھا کیونکہ میں لٹنے کے لیے ذہنی طور پہ تیار
تھا۔ چشم تصور سے میں نے سوچا تھا کہ رات کے اگلے پہر میرے کوپے پہ ایک دستک ہوگی۔
میں پوچھوں گا، 'کون'۔ جواب آءے گا، 'ٹکٹ چیک کرواءیں'۔ میں جیسے ہی کوپے کا
دروازہ کھولا گا وہاں ایک شخص پستول ہاتھ میں لیا کھڑا ہوگا۔ یا پھر یوں ہوگا کہ
میں چلتی گاڑی میں بیت الخلا کے لیے جاءوں گا اور واپس پلٹوں گا تو اپنے سامان کو
غاءب پاءوں گا۔ جب صبح خیبر میل نے مقررہ وقت سے محض چالیس منٹ لیٹ مجھے میرپور
ماتھیلو مکمل خیریت کے ساتھ پہنچا دیا تو میری خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ مجھے یقین
ہوگیا کہ ڈھیر ساری مشکلات کے باوجود پاکستان میں بہت سی چیزیں صحیح کام کررہی
ہیں۔