Wednesday, January 16, 2013

 

سال کا آخری کالم




دسمبر اکتیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اٹھارہ


 سال کا آخری کالم


دل تو یہ ہے کہ سنہ دو ہزار بارہ کا یہ آخری کالم ہلکا پھلکا ہو مگر کیا کیجیے کہ یہ سال جاتے جاتے بہت سے دکھ دے گیا ہے۔ ایک تو دہلی میں میڈیکل کالج میں پڑھنے والی لڑکی کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کا دلخراش واقعہ ہے۔ فوری سزا تو یقینا ان لوگوں کو ملنی چاہیے جو اس زیادتی میں ملوث تھے، مگر الزام معاشرتی رویوں پہ بھی ہے۔ آج کی مربوط دنیا میں جب کبھی ایک جگہ رہنے والے لوگوں کے رویے عورت کے بارے میں اس قدر مختلف ہوں گے، وہاں اس نوعیت کے واقعات ضرور ہوں گے۔  پھر کچھ ذاتی غم ہیں۔ خاندان میں یکے بعد دیگرے ہونے والی چند اموات کے بعد خاندان کے وہ بزرگ جو ستر اور اسی کی پیٹے میں ہیں، اب زندگی سے مایوس نظر آتے ہیں۔ کوءی بقیہ زندگی کے چار سال گن رہا ہے اور کوءی محض دو۔ ان لوگوں سے میری جرح رہتی ہے کہ موت تو کاءنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے، وہ تو آنی ہی آنی ہے، اس کے انتظار میں دن گننے کا کیا فاءدہ؟  موت جب آنا ہوگی آ جاءے گی۔ اس کے انتظار میں مر مر کر جینے کی کیا تک ہے؟ موت کی حقیقت تسلیم کرنے کے بعد دل کھول کر جیو اور ہر دن یوں گزارو کہ جیسے وہ زندگی کا آخری روز ہو۔ اگر مجھے اپنی موت سے پہلے کہیں ٹہر کر زندگی گزارنے کا موقع ملا تو کوشش کروں گا کہ ایک 'تہوار موت' کی روایت ڈالوں۔ وہ ایسا تہوار ہو جس پہ خاندان والے ایک جگہ جمع ہوں اور ہر جمع ہونے والے شخص کی موت کا تصور کریں۔ ہر چاہنے والے کی موت کا افسوس اس کی زندگی میں ہی کر لیں اور چشم تصور سے خیال کریں کہ جس کی موت کا خیال کیا جارہا ہے اس شخص کی اہمیت آپ کی زندگی میں کس قدر زیادہ ہے۔
یہ کالم کراچی سے لکھا جارہا ہے۔ ویت نام کے سفر کے آخر میں خلیج ہا لونگ جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ جگہ اپنے عجیب و غریب جغرافیے کی وجہ سے مشہور ہے۔ اونٹ کے کوہان جیسے بڑے بڑے پہاڑ سمندر میں جا بجا کھڑے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ابھی کچھ دیر پہلے ایک دیو ہیکل عفریت سمندر میں کودا ہے اور اس کی پیٹھ کے کب پانی سے باہر نظر آرہے ہیں۔ دراصل یہ پہاڑ کروڑوں سال پرانے ہیں۔ اس قدر پرانے کہ اس وقت یہاں سمندر بھی نہ تھا۔ ان پہاڑوں کے وجود میں آنے کے بہت بعد یہ سمندر وجود میں آیا اور پھر سمندر سے شروع ہونے والی زندگی کا وجود تو اور بھی تازہ واقعہ ہے۔ اور اس تازہ واقعے میں انسان کی آمد تو بالکل ہی نءی بات ہے۔ کاٹ با نامی جزیرے پہ قیام کے دوران دونوں دن ہم کشتی کراءے پہ لے کر خلیج ہالونگ کی سیر کو نکلے اور ان بلا نما پہاڑوں کے درمیان کشتی پہ چلتے رہے۔ ان پہاڑوں کی ڈھیر ساری تصاویر بھی لیں۔ موقع ملا تو ان تصاویر کو کراچی فوٹو بلاگ پہ پیش کروں گا۔
کالم کو ہلکے پھلکے واقعے کے ساتھ ختم کرنے کے لیے آپ کو ساءیگون سے
نیا تران کے سفر کا حال سناتا ہوں۔ وہ ایک لمبا سفر تھا جو ایک ایسی بس میں کیا گیا جسے ویت نام میں سیاحوں کی سہولت کے لیے سلیپنگ بس کہا جاتا ہے۔ شکر ہے کہ بس یا اس کو چلانے والا ڈراءیور نہیں سوجاتا بلکہ اس بس میں سیٹیں اس طرح کی ہوتی ہیں کہ آپ آرام سے پاءوں پھیلا کر لیٹ سکتے ہیں۔ بس ساءیگون سے چلی اور پھر چلتی ہی رہی۔ پھر بس میں گانے بجنے لگے۔ وہ گانے ایسے تھے جن میں ویت نام کا نام بار بار آتا تھا۔ یقینا وہ ملی نغمے ہوں گے جن میں ویت نام کی بڑاءی بیان کی جارہی تھی۔ بتایا جا رہا تھا کہ ویت نام کس قدر عظیم ملک ہے۔ ویت نام ایک مضبوط قلعہ ہے جس نے بڑی بڑی طاقتوں کے چھکے چھڑا دیے۔ جیسے لوگ ویت نام میں رہتے ہیں ایسے دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ ویت نام کے لوگ بہت محنتی اور عقل مند ہیں اور مشکل سے مشکل حالات میں اپنی راہ نکال لیتے ہیں۔ ہم اپنی نشست پہ لیٹے لیٹے ویت نام کی یہ بڑاءیاں سنتے رہے اور سوچتے رہے کہ ویت نام کے لوگوں کے مقابلے میں ہم کس قدر نالاءق ہیں۔ یکدم بس میں چلنے والی موسیقی بدلی اور ایک مانوس دھن فضا میں بلند ہوءی۔ اور پھر 'ہوٹل کیلی فورنیا' لگ گیا۔
آن اے ڈارک ڈیسرٹ ہاءی وے؛ کول ونڈ ان ماءی ہءیر۔
ہم نے دل ہی دل میں سوچا، "بیٹا، ویت نام، اب آءے نہ لاءن پہ۔"


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?