Tuesday, July 03, 2012

 

لشکر جھنگوی کے قاءد ملک اسحق سے چند گزارشات



جولاءی دو، دو ہزار بارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم


لشکر جھنگوی کے قاءد ملک اسحق سے چند گزارشات



پاکستان میں ہزارہ پہ بالخصوص اور اہل تشیع پہ بالعموم حملے جاری ہیں۔ شاید ہی کوءی دن جاتا ہو جب اس طرح کے قاتلانہ حملے میں دو چار لوگ نہ مارے جاتے ہوں۔ عقل حیران ہے کہ ان حملوں کے پیچھے کون ہے۔ آپ کو یقینا ایسے سیدھے سچے پاکستانی ملیں گے جو آپ کو بتاءیں گے ایسے حملے پاکستان کے خلاف سازش ہیں؛ ان حملوں کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے۔ یہ لوگ آپ کو بتاءیں گے کہ کوءی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے خلاف اس طرح کے حملے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔  اب ذرا درج ذیل لنک سے ملحق ویڈیو کو دیکھیے۔ اس ویڈیو میں دکھاءے جانے والے لوگ ہمارے ہی پاکستانی بھاءی ہیں۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر آپ کو معلوم ہوگا کہ شیعوں پہ حملے کرنے کے لیے لوگ کہاں تیار ہوتے ہیں۔ شیعوں کو مارنے والے ان جلسوں میں تیار کیے جاتے ہیں جہاں تقریروں کے ذریعے جلسے کے شرکا کو نفرت سے بھر دیا جاتا ہے۔ غم و غصے  سے بھرے ہوءے یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ایک مخصوص گروہ انسانیت کے درجے سے گرا ہوا ہے اور اس گروہ کے لوگوں کو مارنا عین ثواب ہے۔
درج بالا لنک سے ملقح یہ ویڈیو سپاہ صحابہ کے ایک جلسے کی ہے جو خانیوال سے کچھ فاصلے پہ واقع کبیروالا نامی قصبے میں ہوا۔ اس ویڈیو میں سپاہ صحابہ کے قاءد ملک اسحق کی تقریر ملاحظہ فرماءیے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملک اسحق کی تقریر لوگوں میں جوش و غصہ بھر رہی ہے اور جلسے کے شرکا کچھ کچھ دیر بعد 'کافر، کافر، شیعہ کافر' کے نعرے لگا رہے ہیں۔ سپاہ صحابہ کالعدم تنظیم ہے اور ملک اسحق کو پاکستانی میڈیا سامنے نہیں لاتا۔ مگر یہ پاکستان کی اصل حقیقت ہے اور اس موضوع پہ بات کرنا بہت ضروری ہے۔ ان باتوں کو نظر انداز کرنا یا ان پہ چپ سادھنا ہمیں مزید تباہی کی طرف لے جاءے گا۔  ممکن ہے کہ آپ کو سپاہ صحابہ کے قاءدین کے خیالات سے اختلاف ہو مگر کیا کیجیے کہ یہ ہمارے ہی لوگ ہیں۔ ضروری ہے کہ اہم انہیں سمجھیں اور ان سے بات چیت کریں۔
اور اب چند گزارشات براہ راست ملک اسحق کی خدمت میں۔
سب سے پہلے تو یہ بات طے ہوجاءے کہ ملک اسحق سمیت  ہم  سب لوگ کس قسم کے معاشرے میں رہنا چاہتے ہیں۔  کیا ہم ایسے معاشرے میں رہنا چاہتے ہیں جہاں لوگوں کے گروہ اپنے اپنے خیالات اور عقاءد کے حساب سے جسے چاہیں واجب القتل سمجھیں اور جا کر اسے مار آءیں؟ کیا ملک اسحق اور سپاہ صحابہ کے قاءدین اور کارکنان ایسے معاشرے میں رہنا چاہتے ہیں جہاں کوءی چپکے سے آکر ان پہ وار کرے، انہیں مار ڈالے اور پھر دنیا کو بتاءے کہ جس شخص کو مارا گیا اس کا قصور کیا تھا؟ یقینا کوءی بھی صحیح الدماغ شخص ایسے معاشرے میں نہیں رہنا چاہے گا۔  ہم ایسے معاشرے میں رہنا چاہیں گے جہاں اگر کسی کو ہم سے شکایت ہو تو ہمیں بتایا جاءے کہ وہ شکایت کیا ہے اور پھر عدالت میں ہمیں اپنی صفاءی پیش کرنے کی سہولت دی جاءے۔
اب آءیے ملک اسحق کی تقریر کی طرف۔ اس تقریر سے واضح ہے کہ ملک اسحق کو اہل تشیع سے بہت سی شکایات ہیں۔ یہ کہنا کہ سنی اور شیعہ فقہ میں کوءی فرق نہیں ہے، صحیح بات نہ ہوگی۔ جو لوگ اسلام کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ آج اسلام میں جو دو بڑے مکتبہ فکر یعنی اہل سنت اور اہل تشیع ہیں، وہ نبی کی وراثت کے معاملے پہ جدا ہوءے ہیں۔ مختصر الفاظ میں جھگڑا یہ ہے کہ نبی کی وفات کے بعد نءی ابھرنے والی مملکت کا وارث کون تھا؟  حضرت ابوبکر صدیق، جو کہ خلافت پہ معمور ہوءے یا نبی پاک کے بھتیجے اور داماد حضرت علی، جنہیں اہل تشیع روایات کے حساب سے، ولی مقرر کیا جا چکا تھا؟ یقینا اہل تشیع میں ایسے لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ حضرت علی کو خلافت میں چوتھے نمبر پہ رکھ کر ان کا حق مارا گیا، مگر سارے شیعہ اس طرح ہرگز نہیں سوچتے۔ صاف سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ  اگر حضرت علی حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت سے واقعی نالاں ہوتے اور سمجھتے کہ ان کا حق مارا جا رہا ہے تو وہ خلیفہ وقت کے خلاف ایسی ہی بغاوت کرتے جیسی اڑتالیس سال بعد ان کے لڑکے حضرت حسین نے یزید کے خلاف کی تھی۔
آج دنیا بھر کے مسلمان، چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی، ایک ہی قرآن استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ قرآن ہے جو حضرت عثمان بن عفان کے دور خلافت میں نزولی ترتیب کے بجاءے اس ترتیب میں لایا گیا جو آج تک محفوظ ہے۔ اگر اہل تشیع حضرت عثمان بن عفان سے یوں ہی بیر رکھتے تو حضرت عثمان بن عفان کی قرآن کی ترتیب کو کیوں مانتے؟  قصہ مختصر یہ کہ اہل تشیع کی اکثریت تینوں خلفا کو نبی پاک کے اصحاب جانتے ہوءے ان کی عزت کرتی ہے اور امامت کو خلافت سے مختلف معاملہ سمجھتی ہے۔
اور آخری اہم بات یہ ہے کہ ملک اسحق یہ واضح کریں کہ اس جلسے میں شرکا کو دکھاءے جانے والے خاکے کہاں سے حاصل کیے گءے؟  کیا یہ بات منطق سے بعید ہے کہ جو گمراہ شخص ایسے بے ہودہ خاکے بنا رہا ہے اسے لوگوں کے جذبات بھڑکانے کے الزام میں عدالت میں کھڑا کیا جاءے ناکہ ایک بڑے گروہ کو کسی ایک شخص کی کارواءی کا ذمہ دار ٹہرا کر پورے گروہ کے خلاف کارواءی کی جاءے؟
ملک اسحق اور ان کے ساتھی ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے لڑا کر وہ اسلام کی کونسی خدمت کر رہے ہیں؟ کیا دنیا والوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا یہی طریقہ ہے؟  جب دنیا والے دیکھیں گے کہ یہ مسلمان تو ایک دوسرے کی ہی گردنیں کاٹتے رہتے ہیں تو کیا وہ اسلام سے متنفر نہ ہو جاءیں گے؟  کیا دنیا والوں کو اسلام سے متنفر کرانے کا راستہ آخرت میں نجات کا سبب بن سکتا ہے؟

Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?