Tuesday, July 03, 2012

 

کشمیری پرامن تحریک سے مایوس ہو رہے ہیں، یاسین ملک


جون پچیس، دو ہزار بارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار اکیانوے

کشمیری پرامن تحریک سے مایوس ہو رہے ہیں، یاسین ملک

لنکن نے جمہوریت کی تعریف میں کہا تھا کہ جہموریت عوام سے، عوام کے لیے، اور عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ اگر جمہوریت اتنا ہی اچھا نظام حکومت ہے تو ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بعض گروہ ایک جمہوری ملک سے آزادی چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب آسان ہے۔ نسلی، لسانی، مذہبی گروہ کسی جمہوری ملک سے آزادی اس وقت چاہتے ہیں جب وہ جمہوری ملک ان پہ زبردستی تھونپا گیا ہوتا ہے، جب جغرافیاءی خطے زبردستی ایک ایسی سیاسی اکاءی میں شامل کیے گءے ہوتے ہیں جس نے راتوں رات نوآبادیاتی نظام سے جمہوری نظام کا سفر طے کیا ہو اور اس سفر میں لوگوں کی راءے شامل نہ کی گءی ہو۔ انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے پینسٹھ سال بعد بھی ہمارا خطہ، جنوبی ایشیا، ان سیاسی اکاءیوں کی تلاش میں ہے جو ہمارے لوگوں کی خواہشات کے حساب سے ہوں اور انہیں مطمءن رکھ سکیں۔ وادی کشمیر بھی ایسی ہی ایک جگہ ہے جہاں کے لوگ موجودہ سیاسی نظام سے آزادی چاہتے ہیں۔ سنہ اڑتالیس سے آج تک کشمیر میں آزادی کی تحریک مختلف مراحل سے گزری ہے مگر کشمیریوں میں آزادی کی خواہش کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ مغربی دنیا میں بسنے والے کشمیری لیڈر سمجھتے ہیں کہ مغرب بالعموم اور امریکہ بالخصوص کشمیر کی آزادی کے لیے فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔ امریکہ میں بسنے والے ڈاکٹر غلام نبی فاءی بھی ان ہی لوگوں میں شامل ہیں۔ مگر امریکہ میں رہتے ہوءے کشمیر کی آزادی کے لیے کام کرنے میں کءی مساءل ہیں، اور خاص طور پہ اس وقت جب یہ کارکن مسلمان ہیں۔ نوگیارہ کے واقعے کے بعد امریکہ کی ہوا بدل گءی ہے۔ اب یہاں مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ امریکہ میں ایسے کالے قوانین بناءے گءے ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قریبا مادر پدر آزادی دیتےہیں کہ وہ جسے امریکہ کا دشمن سمجھیں اس کی جاسوسی کریں اور جس طرح چاہیں اپنے جال میں پھنسا لیں۔ نتیجتا ہم دیکھتے ہیں کہ ایف بی آءی کے اہل کار سادہ کپڑوں میں مساجد میں حاضریاں لگاتے ہیں، وہاں لوگوں کو جہاد کے لیے اکساتے ہیں، اور جو بے وقوف ان کے جال میں پھنس جاءیں ان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے منصوبے بناتے ہیں، انہیں مصنوعی ہتھیار اور بم فراہم کرتے ہیں، اور آخر میں ان کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر لیتے ہیں۔ جو 'وطن دشمن' آسانی سے جال میں نہیں آتے ان کی ذاتی زندگیوں اور مالیاتی لین دین کا باریکی سے معاءنہ کیا جاتا ہے۔ کم قابل نفرت وطن دشمنوں کو ٹیکس چوری کے الزام میں دھر لیا جاتا ہے؛ زیادہ قابل نفرت دشمنوں پہ، یعنی لمبی داڑھیوں والوں پہ، رنڈی بازی اور بچوں کی فحش تصاویر رکھنے کے الزامات لگاءے جاتے ہیں۔ قصہ مختصر، کشمیری حریت پسند ڈاکٹر غلام نبی فاءی کو ٹیکس چوری کے مقدمے میں پھنسا لیا گیا ہے۔ وہ جون چھبیس سے دو سال کی قید شروع کریں گے۔ سان فرانسسکو بے ایریا کے معروف پاکستانی راہ نما ڈاکٹر آغا سعید اور ان کے ساتھیوں نے جون اکیس کے روز چاندنی ریستوراں، نو ارک میں ایک کانفرینس کا اہتمام کیا تاکہ غلام نبی فاءی قید شروع کرنے سے پہلے عوام سے خطاب کر سکیں۔ اس کانفرینس کا موضوع تھا، کشمیروں کا حق خود ارادیت: امریکی پالیسی سازوں کو یاد دہانی۔ اس تقریب میں نامور دانشوروں نے حاضرین سے خطاب کیا۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قاءد یاسین ملک نے اسکاءپ کے ذریعے تقریر کی اور لوگوں کو بتایا کہ سنہ اٹھاسی میں ہتھیار اٹھانے والے کشمیری حریت پسندوں نے سنہ چورانوے میں اس یقین دہانی پہ اپنی تحریک کو عدم تشدد کو رخ دیا تھا کہ دنیا کشمیر کا مسءلہ جلد حل کرانے میں کشمیریوں کا ساتھ دے گی۔ یاسین ملک نے کہا کہ ان کو اس طرح کی یقین دہانی خود امریکی سفیر نے کی تھی۔  یاسین ملک نے کہا انہوں نے پندرہ لاکھ کشمیریوں کے دستخط کے ساتھ وزیر اعظم من موہن سنگھ اور اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف کو درخواست پیش کی کہ دونوں ممالک کشمیر پہ بات کریں، کشمیریوں کو مذاکرات کا حصہ بناءیں، اور کشمیر کا مسءلہ جلد سے جلد حل کریں، مگر اس کارواءی کا کوءی نتیجہ نہں نکلا۔ یاسین ملک کا کہنا تھا کہ سنہ چورانوے سے آج تک کشمیری حریت پسند مستقل ایک پرامن جدوجہد میں مصروف ہیں اور لاکھوں لوگ سری نگر کی سڑکوں پہ احتجاج کرتے رہے ہیں مگر دنیا والے ان کی طرف کوءی توجہ نہیں کر رہے، اور کشمیری اپنی پرامن تحریک سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔  یاسین ملک نے سوال کیا کہ کیا کشمیری یہ سمجھیں کہ صرف پرتشدد کارواءیاں ہی دنیا والوں کی توجہ کسی مسءلے کی طرف مبذول کرانے کا کارآمد نسخہ ہیں۔
یاسین ملک کی تقریر آپ یہاں سن سکتے ہیں:

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?