Tuesday, July 03, 2012
ارسلان گیٹ، فیملی گیٹ، میڈیا گیٹ: حقاءق کی تلاش
جون اٹھارہ، دو ہزار بارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
ارسلان گیٹ، فیملی گیٹ، میڈیا گیٹ:
حقاءق کی تلاش
چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار پہ
الزام ہے کہ اس نے ٹھیکیدار ملک ریاض کو بلیک میل کر کے رقم اینٹھی کہ ارسلان
عدالت عظمی میں زیر سماعت بحریہ ٹاءون کے مقدمات کے فیصلے ملک ریاض کے حق میں کروا
دے گا۔ واضح رہے کہ کسی طور پہ بھی یہ بات سامنے نہیں آءی ہے کہ چیف جسٹس افتخار
چوہدری نے ملک ریاض سے خود رقم کا مطالبہ
کیا ہو، یا یہ کہ کبھی کسی مقدمے کا فیصلہ واقعی غیرقانونی طور پہ ملک ریاض کے
ادارے بحریہ ٹاءون کے حق میں ہوگیا ہو۔ مگر معترضین کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس صاحب
تو از خود نوٹس لینے کے ماہر ہیں؛ آخر انہوں نے اپنے بیٹے کے پرتعیش طور طریقوں کا
از خود نوٹس کیوں نہیں لیا؟ آخر انہوں نے
ارسلان سے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ 'بیٹا، ابھی کل تک تو تم معمولی سرکاری نوکری
کے حصول کے لیے ایڑیاں رگڑ رہے تھے، اب تم اچانک یہ کونسا کاروبار کرنے لگے جس میں
تم پہ پیسوں کی بارش شروع ہوگءی ہے اور تم فرنچ ریویارا پہ چھٹیان مناتے ہو؟'
معترضین کا کہنا ہے کہ اگر چیف جسٹس ازخود اپنے بیٹے سے یہ بازپرس کرتے تو معاملے
کی تہہ تک پہنچ جاتے کہ ارسلان افتخار دو نمبر کا کام کررہا ہے۔ وہ ملک ریاض سے یہ
کہہ کر رقم ہتھیا رہا ہے کہ اپنے باپ سے کہہ کر ملک ریاض کے خلاف مقدمات کے فیصلے ملک
ریاض کے حق میں کروا دے گا۔ معترضین کے یہ اعتراضات دل کو لگتے ہیں مگر ابھی ہمیں
ارسلان افتخار کے منہ سے پوری کہانی سننی ہے۔ پھر یہ بھی سوچنا ہے کہ ایک نہایت
مصروف باپ اتنا وقت کہاں سے نکالے کہ اپنے بالغ لڑکے سے معلوم کرے کہ وہ کیا کرتا
پھر رہا ہے اور کس کاروبار میں شامل ہے۔ اور اونچے عہدوں پہ فاءز لوگوں کے خاندان
والوں کو رام کرنے کا یہ معاملہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔ عموما لوگ اگر مشہور
ہستیوں تک خود نہیں پہنچ پاتے تو ان مشہور لوگوں کے لواحقین تک پہنچ کر ہی خوش ہو
جاتے ہیں۔ آپ کو یقینا ایسے لوگ ملے ہوں گے جو فخر سے آپ کو بتاتے ہیں کہ ان کا
بچہ فلاں مشہور شخص کے بچے کے ساتھ پڑھ رہا ہے، یا فلاں مشہور خاتون کی بہن سے ان
کا روز کا ملنا جلنا ہے۔ جب لوگ اہم شخصیات کے لواحقین تک پہنچ جاتے ہیں تو ان میں
سے دو نمبری لوگ ان لواحقین کے ذریعے اہم شخصیات کے فیصلوں پہ اثرانداز ہونے کی
کوشش کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے مشہور لوگوں کے لواحقین حیران پریشان ہی رہتے ہیں
کہ ان سے میل ملاپ کےلیے بے تاب لوگ واقعی ان ہی سے ملنا چاہتے ہیں یا ان سے مل کر
ان مشہور لوگوں تک پہنچنا چاہتے ہیں جن کے لواحقین میں وہ شامل ہیں۔ قصہ مختصر یہ
کہ ایسا ممکن ہے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا ماتھا یہ دیکھ کر ٹھنکا ہو کہ ان کے
لڑکے کے مالی حالات اچانک بدل گءے ہیں مگر پھر باپ کی شفقت بات کی تہہ تک پہنچنے
کی خواہش پہ غالب آگءی ہو؛ افتخار چوہدری نے محض اس اطمینان میں عافیت جانی ہو کہ
ارسلان کہیں نہ کہیں کام سے لگ گیا ہے؛ انہوں نے سوچا ہو کہ ارسلان عاقل بالغ ہے،
اپنا اچھا برا خود سمجھتا ہے، جو بھی کررہا ہے سوچ سمجھ کر ہی کررہا ہوگا۔ پھر یہ
بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ جب ملک ریاض نے پہلی دفعہ ارسلان کو ایک موٹی سی رقم
دی مگر عدالت عظمی کا مقدمہ اس کے حق میں ہوتا نظر نہیں آیا تو اس نے ارسلان کو
کیوں نہیں چلتا کیا کہ، 'ارسلان، تم مجھے یونہی بے وقوف بنا رہے ہو۔ مجھ سے پیسے
اینٹھ رہے ہو مگر اپنے باپ افتخار چوہدری سے بات کر کے میرا کام نہیں کروا رہے۔'
یا شاید واقعی یہ مکالمہ ہوا ہو مگر ارسلان نے ملک ریاض سے صبر کرنے کا کہا ہو اور
ساتھ ہی ایک دو کروڑ کا مطالبہ اور کر دیا ہو۔ مگر جب مستقل ملک ریاض کی بات نہیں
بنی تو کسی نہ کسی موقع پہ تو ملک ریاض کو چاہیے تھا کہ وہ رقم کی اداءیگی روک
دیتا۔ پھر یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ آخر زیر سماعت مقدمات میں زمینوں کی قیمت کیا
ہوگی جس کے لیے ملک ریاض نے پینتیس کروڑ کی رقم ادا کرنا مناسب خیال کیا۔
اور دنیا ٹی وی سے خفیہ طور پہ نکلنے والی ایک ویڈیو
کے بعد یہ مقدمہ میڈیا گیٹ بھی بن گیا ہے۔ دنیا ٹی وی کے اس ویڈیو کو دیکھنے سے یہ
بات سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستانی میڈیا سنسی خیز مگر نوراکشتی انٹرویو کے ذریعے
اشتہارات حاصل کر کے خوب کماءی کرتا ہے۔ کہ پاکستانی میڈیا کا مقصد عوام کو ملکی
حالات سے باخبر رکھنا یا ان کے مساءل کے حل کی طرف لے کر جانا نہیں ہے بلکہ اس میڈیا میں شامل زیادہ تر لوگ زرد صحافت کے
علمبردار ہیں جن کا واحد مقصد سنسنی خیز خبروں، تجزیوں، اور انٹرویو کے ذریعے
زیادہ سے زیادہ پیسے بنانا ہے۔ Labels: Arsalan Gate, Bahria Town, Chief Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry, Malik Riaz Hussain, Media Gate