Monday, June 11, 2012

 

فیملی گیٹ: الزامات کیا ہیں؟




جون گیارہ، دو ہزار بارہ


فیملی گیٹ: الزامات کیا ہیں؟

یہ بات پہلے بھی کہی جا چکی ہے کہ آج کا پاکستانی میڈیا نہ صرف یہ کہ آزاد ہے بلکہ مادر پدر آزاد ہے۔ جس کی مرضی ٹی وی پہ آکر جو چاہے کہے۔ بلا ثبوت باتیں کرے اور جتنی بےتکی بات کہے اتنی ہی زیادہ داد پاءے۔ آج کل پاکستانی میڈیا کو بحث کرنے کے لیے 'فیملی گیٹ' نامی 'اسکینڈل' مل گیا ہے اور اس موضوع پہ مختلف ٹی وی اینکر خوب اچھل کود کر رہے ہیں۔ ہر وقت اس 'اسکینڈل' پہ راءے زنی ہوتی ہے اور مستقل بال کی کھال نکالی جارہی ہے۔ اس 'اسکینڈل' کے کھوکھلے پن سے متعلق اس مبصر کی راءے جاننے سے پہلے اس 'اسکینڈل' سے متعلق 'سازش' کے متعلق جان لیجیے۔ پاکستانی میڈیا پہ آنے والے مختلف مایہ ناز اینکر کی راءے میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف یہ 'سازش' اس وقت شروع ہوءی جب چیف جسٹس نے بلوچستان کے معاملے میں ٹانگ اڑاءی اور لاپتہ ہوجانے والے لوگوں کو سرکاری طور پہ بازیاب کرانے کی کوشش کی۔ پاکستانی میڈیا کی راءے میں یہ پہلا موقع تھا جب اور لوگوں کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس نے پاکستانی فوج سے بھی ٹکر لی۔ پاکستانی فوج کو اپنے معاملات میں چیف جسٹس کی مداخلت بری لگی چنانچہ فوج نے چیف جسٹس کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اس طرح سبق سکھایا جا سکتا تھا کہ ان کو کسی مالی اسکینڈل میں ملوث کیا جاءے اور دنیا کے سامنے ظاہر کیا جاءے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری جو بظاہر بہت پاک صاف دھلے منجھے نظر آتے ہیں، اندر سے لالچی اور بدکردار ہیں اور پیسے لے کر مقدمات کے فیصلے کرتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کی راءے میں سازش یہ تیار کی گءی کہ مشہور ٹھیکیدار ملک ریاض حسین کے ذریعے چیف جسٹس کے لڑکے ارسلان افتخار کو دام میں لیا جاءے۔ ملک ریاض حسین نے ارسلان افتخار کو بظاہر کاروباری معاملات میں اپنے ساتھ ملایا اور ارسلان پہ التفات کی بارش شروع کر دی۔ ملک ریاض حسین نے ارسلان اور اس کے اہل خانہ کو بیرونی ممالک کے دورے کرواءے اور ان دوروں پہ کروڑوں روپے خرچ کیے۔ ارسلان پہ روپے پیسے کی یہ بارش کرنے کے ساتھ ساتھ غالبا، اور یہاں غالبا کا استعمال بہت ضروری ہے کیونکہ یہ تفصیلات واضح نہیں ہیں، غالبا ملک ریاض نے ارسلان پہ زور ڈالا کہ وہ عدالت عظمی میں ملک ریاض کے زیر سماعت مقدمات کے فیصلوں کے سلسلے میں اپنے والد سے بات کرے۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق ارسلان پہ دھڑلے سے پیسے خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ ہر ہر قدم پہ ارسلان کی ویڈیو بھی بناءی گءی اور خرچ کی جانے والی تمام رقوم کا دستاویزی ثبوت بھی رکھا گیا۔ اب یہ موقع آگیا تھا کہ یہ تمام ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا جاءے اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اس مالی 'اسکینڈل' میں ملوث کیا جاءے تاکہ چیف جسٹس کو اپنی 'اوقات' کا اندازہ ہو اور وہ پاکستانی فوج سے ٹکر نہ لیں۔  مگر اس سے پہلے کہ یہ 'اسکینڈل' ڈراماءی طور پہ سامنے آتا پاکستانی میڈیا کو اس کی بھنک پڑ گءی اور اس 'سازش' کے متعلق چہ موگوءیاں شروع ہوگءیں۔ چنانچہ چیف جسٹس نے اس کھسر پھسر کا نوٹس لیتے ہوءے از خود اس 'کیس' کی عدالتی سماعت شروع کروا دی۔ اب تک آپ نے جو کچھ بھی پڑھا وہ پاکستانی میڈیا پہ آنے والے مایہ ناز مبصرین کی راءے ہے۔ اب خادم کا خیال سنیے۔ یہ کس 'سازش'، کس مقدمے کے متعلق اتنا شور ہے جس میں الزامات واضح نہیں ہیں؟  کوءی بھی مقدمہ ایک الزام کے بغیر بالکل بے معنی ہے۔ بات ایک الزام سے شروع ہونی چاہیے اور الزام بالکل واضح ہونا چاہیے۔ مثلا، الزام اس نوعیت کا ہو سکتا ہے کہ فلاں تاریخ کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اتنے کروڑ روپے دیے گءے کہ وہ فلاں مقدمے کا فیصلہ فلاں فریق کے حق میں کردیں۔ اور اس الزام کے ثبوت کے طور پہ فلاں فلاں گواہ عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار ہیں اور فلاں کاغذات یہ ثابت کرتے ہیں کہ رقم کا اس طرح تبادلہ ہوا، اور عدالتی ریکارڈ یہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ رقم کے اس تبادلے کے فورا بعد عدالت نے اپنا فیصلہ فریق کے حق میں دے دیا۔ مگر افسوس کہ ایسا کوءی واضح الزام اس 'اسکینڈل' میں موجود نہیں ہے۔ کسی واضح الزام کی غیرموجودگی کے باوجود پاکستانی میڈیا کا ہر مبصر اس 'اسکینڈل' پہ صبح سے شام تک اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ اس حالت میں کہ ملک میں امن عامہ کی صورتحال دگرگوں ہو، بے روزگاری عام ہو، بجلی اور پانی نایاب ہوں، میڈیا کا چوبیس گھنٹے 'فیملی گیٹ' جیسی بے تکی باتوں سے لوگوں کا وقت ضاءع کرنا مجرمانہ فعل نہیں تو کیا ہے؟  اس مبصر کی راءے میں ملک ریاض حسین ایک شاطر کاروباری شخص ہے جو اپنے کاروبار میں وسعت کے لیے بااثر لوگوں کو ساتھ ملانے کا گر جانتا ہے۔ ملک ریاض حسین کے ادارے بحریہ ٹاءون نے ایک عرصے سے ریٹاءرڈ فوجی جرنیلوں کو ملازمت دینے کا کام شروع کیا ہے۔ سرگوشیاں یہ ہیں کہ ان ہی فوجی جرنیلوں کی مدد سے جرنل پرویز مشرف کے دور میں بحریہ ٹاءون نے 'ہذا من فضل ربی' دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی۔ جب 'آزاد عدلیہ' بحریہ ٹاون کے راستے میں حاءل ہوءی تو ملک ریاض حسین نے 'عدالت' کو بھی اپنے کاروبار میں ساتھ ملانے کا منصوبہ بنایا۔ اور اسی سلسلے میں ارسلان افتخار کو 'کاروبار' میں شامل کیا گیا اور اس کی خوب خاطر مدارات کی گءی۔ مگر یہ بات یہیں ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اتنی بات تو درکنار کہ چیف جسٹس نے کسی مقدمے کے 'اچھے فیصلے' کے لیے ملک ریاض حسین سے رقم لی ہو، یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ کبھی ارسلان نے زیرسماعت مقدمات کے سلسلے میں اپنے والد پہ اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہو۔ ایسے واضح الزامات کی غیرموجودگی میں صبح و شام اس 'سازش' کا ڈھول پیٹنا انتہاءی مکروہ عمل ہے۔ ہمارے 'آزاد میڈیا' کو چاہیے کہ وہ ملک ریاض حسین کی کاروباری فتوحات سے متعلق سرگوشیوں پہ دھیان دے۔ یہ کھوج لگاءے کہ آیا بحریہ ٹاءون کا سرکاری زمین خریدنے کا عمل شفاف رہا ہے۔ اگر بحریہ ٹاءون نے ہمیشہ شفاف کاروبار کیا ہے اور زمین کے تمام معاملات قانوی طور پہ کیے ہیں تو ہمارا 'آزاد میڈیا' اس ایماندار کاروباری شخص کو اس کے حال پہ چھوڑ کر ملک کو درپیش اصل مساءل کی طرف توجہ دے۔

Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?