Tuesday, May 08, 2012

 

بات منٹو کی اور وادی سندھ تہذیب کی



اپریل انتیس، دو ہزار بارہ



تخلیق کار حساس ہوتا ہے۔ آرٹ اپنے حالات پہ تبصرہ کرنے کا ہی دوسرا نام ہے۔ شاعر، لکھنے والا، بت تراش، مصور، یہ سب لوگ اپنے آس پاس کے حالات سے متاثر ہو کر تخلیق کا کام کرتے ہیں، اور اپنے آرٹ کے ذریعے کبھی مروجہ سوچ کے حساب سے اور کبھی مروجہ سوچ سے بغاوت کرتے ہءوے اپنے محسوسات دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ بے انتہا ذہین لوگ فکر کے اس مقام پہ کام کرتے ہیں جہاں خرد اور جنوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں، اور اسی لیے ان میں سے بہت سے لوگوں کو دنیا پاگل خیال کرتی ہے۔
سعادت حسن منٹو بھی ایسا ہی ایک حساس آدمی تھا۔ سنہ سینتالیس کی قتل و غارت گری نے اس حساس لکھاری کو جنون کے قریب تر دھکیل دیا۔ منٹو کے اندر نہ جانے کون کون سے دیو پل رہے تھے جن سے وہ لڑتا رہا اور اس لڑاءی میں اپنی مدد کے لیے اس نے ایسی دوا کا سہارا لیا جو باآسانی دستیاب تو تھی مگر اس کے لیے نسخہ شفا نہ تھی۔ کثرت مے نوشی نے اس کے جسم کو تباہ کردیا اور وہ بیالیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ مجھے یہ خیال ہے کہ لوگ جب مرتے ہیں تو ان کی عمر ٹہر جاتی ہے۔ سنہ پچپن میں جب منٹو مرا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بیالیس سال کا رہ گیا اور اسی لیے منٹو کے متعلق بات  کرتے ہوءے میں اس وقت منٹو کو سن میں اپنے سے کم عمر خیال کررہا ہوں۔ کثرت شراب نوشی نے صرف منٹو ہی کو نہیں مارا بلکہ اور بھی آرٹسٹوں کو مستقل مارتی رہی ہے۔ ابھی چند دن پہلے مشہور امریکی مصور تھامس کنکیڈ کی ہلاکت بھی بلا نوشی کے ہاتھوں ہوءی۔ کنکیڈ کا انتقال یہیں سان فرانسسکو بے ایریا کے علاقے میں ہوا۔ منٹو کی طرح کنکیڈ کو بھی ناقدین نے اپنے طنز و تمسخر کا نشانہ بنایا تھا۔ اور تاریخ میں ایسا بارہا ہوا ہے کہ حساس لوگوں کو ان کے احساس نے اس جگہ پہنچا دیا جہاں انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنی جلد موت کا انتظام کر لیا۔ ایسے ہی لوگوں میں ونسنٹ فان غوغ کی مثال بھی دی جا سکتی ہے۔  تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آرٹسٹ کو اپنے آپ سے کیسے بچایا جاءے۔ یا یہ یوں ہے کہ اگر تخلیق کاروں کے لیے کوءی ایسا فلاحی ادارہ بن جاءے جو آرٹسٹ کو اس کی مضر عادات سے بچاءے اور اس کے نفسیاتی علاج کے سلسلے میں اسے پروزیک یا دوسری مسکن ادویات پہ ڈالے تو کیا آرٹسٹ ذہنی طور پہ بدل جاءے گا اور شاہکار آرٹ نہ تخلیق کر پاءے گا؟ گویا، کیا یہ یوں ہے کہ تخلیق کار کے لیے بہترین آرٹ تخلیق کرنے کی شرط ہی یہ ہے کہ وہ اپنی آگ میں جلتا رہے اور جلد اس دنیا سے گزر جاءے؟ یہ سارے خیالات میرے ذہن میں سنیچر کے روز اس محفل میں آءے جس کا اہتمام بے ایریا کی مایہ ناز شخصیت ڈاکٹر آغا سعید کی تنظیم پی اے ڈی ایف، پاکستان امیرکن ڈیموکریٹک فورم، نے چاندنی ریستوراں، نو ارک میں کیا تھا۔ اس تقریب میں محترمہ صباحت رفیق شیروانی، ڈاکٹر اشرف چوہدری، ڈاکٹر عبدالجبار، اور ڈاکٹر میلنی ٹنیلین نے اپنے مقالے پیش کیے۔ اس جلسے کی کارواءی کی آڈیو جلد ہی آرکاءیو ڈاٹ آرگ نامی ویب ساءٹ پہ ڈالوں گا اور ربط کراچی فوٹو بلاگ پہ پیش کروں گا۔
آج یعنی اتوار، اپریل انتیس کے روز انڈیا کیمونٹی سینٹر، مل پیٹس میں انڈس ہیریٹیج ڈے نامی ایک پروگرام  منعقد ہوا۔ اس جلسے کا اہتمام سنہ سینتالیس تقسیم آرکاءیو، پاکستان امریکن کلچرل سینٹر، اور انڈیا کمیونٹی سینٹر نے کیا تھا۔ جلسے کی خاص بات جامعہ وسکانسن، میڈیسن کے پروفیسر مارک کنویر [کی نویر یا کناءر] کی تقریر تھی۔ پروفیسر کنویر وادی سندھ تہذیب کے عالمی ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے ہڑپہ اور موءنجودڑو پہ بہت کام کیا ہے۔ تقریب میں پروفیسر کنویر کی تقریر سے پہلے معروف فلم ساز ثاقب موصوف کی دستاویزی فلم 'ان سرچ آف ملوہا' دکھاءی گءی۔ واضح رہے کہ ہڑپہ اور موءنجودڑو میں کھداءی سے جو اشیا برآمد ہوءی ہیں ان سے تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ ان تاریخی شہروں کا دور عروج قریبا تین ہزار قبل از مسیح تھا۔ اس قدیم  وقت میں بھی وادی سندھ تہذیب کے شہروں کا تجارتی تعلق دوسرے علاقوں سے تھا اور باہر کی دنیا کے لیے وادی سندھ تہذیب ملوہا کے نام سے جانی جاتی تھی۔ پروفیسر کنویر کی تقریر موثر تصاویر کے ساتھ تھی۔ اپنی تقریر میں پروفیسر کنویر نے کہا کہ پرانے ماہرین آثار قدیمہ کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ ہڑپہ اور موءنجودڑو کے لوگ اچانک ہی کہیں غاءب ہو گءے یا شمال مغرب سے آنے والے آریا کے حملوں میں مارے گءے۔ کنویر کا کہنا تھا کہ وادی سندھ تہذیب کے شہر دریا کا رخ بدلنے کی وجہ سے سینکڑوں سالوں کے دورانیے میں رفتہ رفتہ خالی ہوءے اور ان شہروں کو چھوڑنے والے لوگ آس پاس کے علاقوں میں منتقل ہوگے۔ چنانچہ، کنویر کی راءے میں، جنوبی ایشیا کے لوگ پچھلے پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصے سے اس علاقے میں رہ رہے ہیں اور باہر سے آنے والے لوگ ان لوگوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ پروفیسر کنویر کا کہنا تھا کہ وادی سندھ تہذیب میں چوڑیاں سماجی عہدے کی نشاندہی کرتی تھیں اور امارت کی نشانی کا یہ طریقہ آج بھی راءج ہے۔ کنویر نے کہا کہ یوگا کے آسن بھی وادی سندھ تہذیب ہی سے شروع ہوءے۔ اس عمدہ تقریب کی تصاویر اور پروفیسر کنویر کی تقریر کے 
لیے کراچی فوٹو بلاگ کا معاءنہ کیجیے۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?