Tuesday, May 08, 2012
لیاری
مءی چھ، دو ہزار بارہ
سنہ ۱۹۹۸ میں جب ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد
جنوبی ایشیا میں جنگ کے بادل چھانے لگے تو میں اندر سے ٹوٹ گیا۔ ان دھماکوں کے دو ہفتے بعد پاکستان نے ایٹمی
دھماکے کر دیے۔ آزادی اور حب الوطنی کے الفاظ مجھے کھوکھلے لگنے لگا۔ کیا ہم نے
نوآبادیاتی نظام سے اسی لیے چھٹکارا حاصل کیا تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں؟ کیا ہم نے برطانوی راج سے اسی لیے آزادی حاصل
کی تھی کہ اپنے علاقے کے لوگوں کے بنیادی مساءل نظرانداز کرتے ہوءے اپنے قیمتی
وساءل جھوٹی وطن پرستی کے مقابلے میں جھونک دیں؟ کیا ایک دوسرے سے ہمارے باہمی
خطرات غربت و افلاس کے خطرات سے بڑھ کر ہیں؟
دونوں ملکوں کے ایٹمی دھماکوں کے بعد دنیا بھر کی امن پسند تحریکیں فعال ہو
گءیں کہ ان دو غریب ترین ممالک کے جذباتی لوگوں کو سمجھاءیں کہ ایٹمی اسلحے کی دوڑ
اس علاقے کے مفاد میں نہیں ہے۔ جاپان ضد نیوکلءیر تحریکوں میں آگے آگے ہے۔ جاپان
وہ واحد ملک ہے جس نے ایٹمی ہتھیار کے مہلک اثرات براہ راست دیکھے اور جھیلے ہیں۔
جاپان سے تعلق رکھنے والے ضد نیوکلءیر مفکر دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف
آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک جاپانی ادارے نے پاءلر، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر
ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، نامی فلاحی ادارے سے رابطہ کیا اور پاکستانی ایٹمی دھماکوں
کے کچھ ہی عرصے بعد ایک جاپانی وفد کراچی پہنچا تاکہ پاءلر کی مدد سے ایک عوامی
رابطہ مہم شروع کی جاءے اور عوام میں یہ شعور اجاگر کیا جاءے کہ ہتھیاروں کی دوڑ
محض تباہی کا راستہ ہے؛ وطن سے محبت ایٹمی دھماکوں پہ ناچنے کا نام نہیں، بلکہ حب
الوطنی اپنے ہم وطنوں کے دیرینہ مساءل حل کرکے ثابت کی جاتی ہے۔ اس مہم کا ایک جلسہ لیاری میں ہوا۔ میں کراچی
میں پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑھا ہوں مگر ضدنیوکلءیر مہم کا وہ جلسہ پہلا موقع تھا
جب میں کراچی کے اس قدیم ترین علاقے میں گیا۔ میں غالبا پاءلر کے ڈاءریکٹر کرامت
علی صاحب کے ساتھ لیاری گیا تھا۔ جلسہ بہت منظم اور کامیاب تھا اور میں رات گءے
خوش خوش گھر لوٹا۔ اس واقعے کے بعد لیاری
کا میرا دوسرا چکر اس سال کے شروع میں لگا۔ لیاری کا وہ علاقہ جو گارڈن سے لگتا ہے
عثمان آباد کہلاتا ہے؛ وہیں گلوبل ساءنس نامی رسالے کا دفتر ہے۔ میں گلوبل ساءنس
کے مدیر اور نامور پاکستانی ساءنسی صحافی علیم احمد صاحب سے ملنے ان کے دفتر گیا
تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے کے باوجود لیاری سے میری واقفیت
واجبی ہے۔ چنانچہ پچھلے چھ آٹھ ماہ سے بالعموم اور پچھلے آٹھ دس دن سے بالخصوص جب
لیاری مستقل پاکستان کی خبروں کی زینت رہا تو مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میں لیاری
کے بارے میں کس قدر کم جانتا ہوں۔ مگر لیاری کے بارے میں بہت کم جاننے کے باوجود
میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک کے درمیان جھوٹی وطن
پرستی کے کھوکھلے اور مکار مقابلے کی طرح کراچی کے اندر بھی لسانی گروہوں کے حوالے
سے ایک کھوکھلی اور مکار جنگ موجود ہے۔ ایک ایسی مکار جنگ جس میں اس بنیادی امر سے
پہلوتہی کی جاتی ہے کہ غربت و افلاس کا کوءی مذہب نہیں ہوتا، کوءی زبان نہیں ہوتی۔
ہر تحریک، ہر جماعت، ہر ادارہ جس کا دعوی ہے کہ وہ کسی مخصوص گروہ کے لوگوں کے
حقوق کا علمبردار ہے اسے چاہیے کہ وہ دوسروں سے لڑنے کے بجاءے اپنے گروہ کے حالات
سدھارنے پہ توجہ دے۔
سندھ کے سینءیر وزیر ذوالفقار مرزا کے استعفی کے بعد
لیاری سے تعلق رکھنے والا ایک خاص گروہ محسوس کرتا ہے کہ حکومت میں اس کا دوست
کوءی نہیں ہے۔ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ پہلے پیپلز امن کمیٹی کے نام سے
جانے جاتے تھے اور پھر اس کمیٹی پہ حکومتی پابندی کے بعد اب یہ ایک نءے نام سے
سامنے آءے ہیں۔ اس گروہ کے مرکزی راہ نما عذیر بلوچ نے اعلان کیا ہے کہ آءندہ
لیاری کے لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے اور ان لوگوں کو اپنا نماءندہ بناءیں
گے جو اسی علاقے میں رہتے ہوں اور اس وجہ سے اس علاقے کے مساءل سے بخوبی واقف ہوں۔
اگر لیاری آپریشن کا کوءی خوش آءند پہلو ہے تو یہی ہے کہ لیاری کے لوگوں کو یہ
احساس ہوا ہے کہ جمہوریت گروہی وفاداری کے جھوٹے مظاہرے کا نام نہیں ہے بلکہ اپنی
حالت بدلنے کا ایک قیمتی موقع ہوتا ہے۔ جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ حکومت جمہور کی
بنے نہ کہ ان لوگوں کی جو جمہور سے بہت دور کہیں اور رہتے ہوں اور محض ووٹ لینے کے
لیے کسی خاص علاقے میں پہنچ کر اس علاقے کے لوگوں سے اپنا لسانی یا کسی اور طرح کا
تعلق جتا کر ان لوگوں کا ووٹ حاصل کر لیں۔ کاش لیاری کے لوگ یہ بات بھی جان لیں کہ
وہ متحد ہو کر اپنے مساءل حل کرنے کا سامان بھی بہت حد تک خود ہی کر سکتے ہیں۔ وہ
متحد ہو کر یہ صورت پیدا کر سکتے ہیں کہ ان کا علاقہ امن کا گہوارا بن جاءے اور
وہاں سے جراءم پیشہ لوگوں کا قلع قمع ہوجاءے۔
Labels: Lyari, Lyari Operation, People's Aman Committee, PILER, Uzair Baloch