Tuesday, May 08, 2012

 

ذکر شہدا کا اور گیندے کے پھولوں کا



اپریل باءیس، دو ہزار بارہ


  
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ آخر عقیلہ اسماعیل نے سقوط مشرقی پاکستان پہ اس قدر اہم کتاب انگریزی میں کیوں لکھی۔ بات ہو رہی ہے  'آف مارٹرز اینڈ میری گولڈز' کی جو سقوط ڈھاکہ کے موضوع پہ عقیلہ اسماعیل کا انگریزی ناول ہے ؛ انگریزی عنوان کا آزاد  اردو ترجمہ 'ذکر شہدا کا اور گیندے کے پھولوں کا' کے طور پہ کیا جا سکتا ہے۔  شاید عقیلہ اسماعیل نے یہ کتاب انگریزی میں اس لیے لکھی تاکہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ممالک کے لوگ اسے پڑھ سکیں۔ مگر یہ کتاب اتنی اہم ہے کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کتاب کا ترجمہ جلد از جلد اردو اور بنگلہ میں کیا جاءے اور اس کی پہنچ دور تک بڑھاءی جاءے۔ ذکر شہدا کا اور گیندے کے پھولوں کا ایک ناول کے طور پہ لکھی گءی ہے مگر چند صفحات پڑھ کر ہی قاری کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب دراصل آپ بیتی ہے۔ کسی مصنف کا قلم کتنا ہی رواں کیوں نہ ہو واقعات کو ایسی تفصیل سے اس وقت تک نہیں بیان کیا جاسکتا، جس تفصیل سے اس کتاب میں بیان کیے گءے ہیں، کہ جب تک کہ وہ خود مصنف پہ  نہ گزرے ہوں۔  بنگلہ دیش بننے کے بعد جب عقیلہ اسماعیل اپنے اہل خانہ کے ساتھ کراچی منتقل ہوءیں تو انجینءیرنگ پڑھنے کے بعد وہ جامعہ این ای ڈی میں پڑھاتی رہیں۔ مگر لگتا ہے کہ اس درمیان وہ اندر ہی اندر ایک کرب میں مبتلا رہیں اور اس موقع کی تلاش میں رہیں جب وہ اپنی بیتی، اپنے اندر کا سچ دنیا کے سامنے پیش کریں۔ تدریس سے ریٹاءرمنٹ کے بعد عقیلہ اسماعیل کو ایسا کرنے کا موقع مل گیا اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں 'ذکر شہدا کا اور گیندے کے پھولوں کا' پڑھنے کو ملی۔  سانحہ مشرقی پاکستان پہ بنگلہ میں بہت سی کتابیں لکھی گءی ہیں اور اردو میں بھی چند کتابیں موجود ہیں۔ پاکستان میں جو کتابیں سقوط ڈھاکہ پہ لکھی گءیں ان میں سے بیشتر اس سانحے کے سیاسی پہلوءوں کا معاءنہ کرتی ہیں۔ سقوط پاکستان کا جب ذکر آتا ہے لوگ سیاسی باتیں کرتے ہیں، بھٹو کو کیا کرنا چاہیے تھا، یحیی خان نے کیا کیا، شیخ مجیب رحمن نے ایسا کیوں کیا۔ مگر اس درمیان میں عام لوگوں پہ کیا گزری،  کوءی اس بارے میں بات نہیں کرتا۔  عقیلہ اسماعیل کی کتاب ایک عام لڑکی کی کہانی ہے۔ ایک لڑکی جس نے ڈھاکہ میں ہوش سنبھالا ہے مگر جس کے خاندان والے اردو بولتے ہیں۔ اور اردو بولنے کی وجہ سے بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت یہ لوگ خود بخود دشمن گردانے جاتے ہیں۔  بنگالی سپاہی جب چاہتے ہیں ان کے گھروں میں گھس آتے ہیں؛ جس کو چاہتے ہیں زدوکوب کرتے ہیں اور جس پہ پاکستانی فوج کے ساتھ ملے ہونے کا شک ہو جاءے اسے جان سے بھی مار ڈالتے ہیں۔ عقیلہ اسماعیل بلاتعصب واقعات کا جاءزہ لینا جانتی ہیں اور اسی لیے جہاں وہ بنگالیوں کی اردو بولنے والوں پہ ظلم کی داستان سناتی ہیں، وہیں پاکستانی فوج کی درندگی کا تذکرہ بھی کرتی ہیں۔ اور یوں قاری کے سامنے سانحہ مشرقی پاکستان کی ایک مکمل تصویر ابھر کر آتی ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ انسان لاجواب حیوانیت اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جنگ انسان کو واقعی درندہ بنا دیتی ہے۔  آزادی کے خوب صورت نعرے کے تناظر میں قاری یہ بھی سوچنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ سنہ سینتالیس میں انگریز کے جانے کے بعد جنوبی ایشیا کے لوگ مستقل اچھی اور منصف حکومت کی تلاش میں ہیں اور نہ جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ  ہر دفعہ روٹی، کپڑا، مکان، اور سماجی انصاف کی تلاش ایک گروہ کی دوسرے گروہ سے دشمنی پہ ختم ہوتی ہے۔ کبھی مذہب، کبھی زبان، کبھی جغرافیاءی تعلق کے حوالے سے لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگتے ہیں اور بے انتہا خون بہانے کے بعد جب ایک نیا ملک وجود میں آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی مساءل تو جوں کے توں ہی رہے۔
عقیلہ اسماعیل کی کتاب امیزان ڈاٹ کام پہ دستیاب ہے اور نہایت کم قیمت پہ کنڈل پہ پڑھی جا سکتی ہے۔

Labels: , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?