Tuesday, May 08, 2012

 

ہزارہ پہ قیامت




اپریل پندرہ، دو ہزار بارہ


اسراءیل کا سفر نامہ جاری ہے مگر اس درمیان پاکستان کے دگرگوں حالات سے صرف نظر ممکن نہیں۔
بہادر شاہ ظفر کے دادا شاہ عالم دوءم کے اقتدار کے لیے کہا جاتا تھا کہ، سلطنت شاہ عالم، از دلی تا پالم۔ واضح رہے کہ یہاں اسی پالم کا ذکر ہے جو آج کل دہلی کے ہواءی اڈے کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ کہنے کو تو پاکستان میں جمہوریت ہے اور عوام کی نماءندہ حکومت اقتدار میں ہے مگر امن عامہ کے معاملے میں اس حکومت کا کوءی خاص بس نہیں چلتا۔ سلطنت شاہ عالم والا حساب ہے۔ قاتل آزاد ہے، جس کو چاہے مارے اور جب چاہے مارے۔ صوبہ بلوچستان میں بسنے والے ہزارہ لوگ قریبا ڈیڑھ صدی سے وہاں رہ رہے ہیں۔ یہ لوگ ہزارگی زبان بولتے ہیں جو فارسی سے مشابہ ہے۔ مذہبی عقاءد میں یہ لوگ اثناءے عشری یا شیعہ ہیں۔ واضح رہے کہ ان لوگوں کا صوبہ پختوانخاہ کے علاقے ہری پور ہزارہ سے کوءی تعلق نہیں جہاں کے لوگ ہندکو زبان بولتے ہیں۔ بلوچستان میں بسنے والے ہزارہ لوگوں کے متعلق قیاس ہے کہ یہ وسطی افغانستان سے بلوچستان آءے ہیں کیونکہ وسطی افغانستان میں آج بھی ہزارہ لوگوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے۔ پاکستان میں مذہبی منافرت بتدریج بڑھی ہے۔ جب سے جمہوریہ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوا ہے، مذہبی منافرت کا جن سرکاری معاملات میں گھس آیا ہے۔ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مستقل اس فیصلے پہ مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بتاءے کہ کس کا اسلام صحیح اسلام ہے۔ صحیح اسلام کے متعلق فیصلہ کرنا تو مشکل ہے البتہ دین اسلام سے لوگوں کو خارج کرنا زیادہ آسان ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے قادیانیوں کو دین اسلام سے خارج کیا گیا۔ پھر جب حکومت نے اس جھنجھٹ میں پڑنے سے انکار کیا تو مذہبی جماعتوں نے خود ہی اپنے طور پہ دوسروں پہ کفر کے لیبل لگانا شروع کر دیا۔ ضیا دور میں اور اس کے بعد بھی جن غیرفوجی گروہوں کو جہاد کے لیے تیار کیا گیا تھا، جب ان لوگوں کے دوسری جگہ جا کر جہاد کرنے کے راستے بند ہوءے تو انہوں نے گھر سے ہی اس 'نیک کام' کا آغاز کر دیا۔ ان لوگوں کی منطق میں کافر کو مارنا ثواب ہے اور ان کے مسلک کے باہر تمام لوگ کافر ہیں چنانچہ جو شخص ان کے مسلک سے جس قدر زیادہ جدا ہے، اس قدر جلد موت کا حق دار ہے۔ اس سلسلے میں شدت پسند سنی مذہبی جماعتوں کا نزلہ شیعہ پہ گر رہا ہے۔ شعیہ کافر ہیں، چنانچہ جہاں موقع لگے شیعہ افراد کو مارا جاءے۔ ایک مسلح گروہ کسی بس کو روکتا ہے، لوگوں کے شناختی کارڈ جانچے جاتے ہیں، شیعہ ناموں والے افراد کو الگ نکال کر قطار سے کھڑا کیا جاتا ہے اور ان کو گولی مار کر ختم کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ مسلح گروہ جاءے واردات سے غاءب ہوجاتا ہے۔ اس طرح کی وارداتیں گلگت کے علاقے میں بھی ہوءی ہیں اور بلوچستان میں بھی۔ بلوچستان میں ہزارہ لوگوں پہ قیامت ٹوٹی ہوءی ہے۔ اب تو شاید ہی کوءی ہفتہ جاتا ہو جب چار چھ ہزارہ افراد کو گولیوں سے نہ بھونا جاتا ہو۔ اور اس قیامت کے جواب میں حکومت پاکستان کے پاس کوءی دوا نہیں ہے۔ سینکڑوں ہزارہ لوگوں کے قتل کے بعد بھی آج تک کسی شخص کو ان ہلاکتوں کے سلسلے میں گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ کون لوگ ہیں جو اس قدر بے باکی سے ہر چند دن بعد نمودار ہوتے ہیں اور ہزارہ لوگوں کو مار کر آرام سے غاءب ہو جاتے ہیں؟ ایک راءے یہ ہے کہ ہزارہ لوگوں کے قتل کی مہم میں شدت پسند سنی مذہبی تحریکوں کا الحاق پاکستان دشمن عناصر کے ساتھ ہے۔ ہزارہ لوگوں کے قتل میں جہاں مذہبی جنونیوں کو 'ثواب' حاصل ہورہا ہے وہیں وفاق پاکستان سے وفاداری رکھنے والے لوگ بھی بلوچستان سے ختم ہو رہے ہیں؛ اس کے ساتھ اس قتل و غارت گری سے بلوچستان کا نام بھی شہ سرخیوں کی زینت بنا رہتا ہے، جس کا اپنا الگ سیاسی فاءدہ ہے۔  بہرحال، ہزارہ لوگوں کے قتل سے کوءی کسی طرح کا فاءدہ اٹھا رہا ہو، عوام تو حکومت سے جواب چاہتے ہیں۔ عوام حکومت کی امان میں رہتے ہیں۔ اپنی منتخب حکومت سے سب سے پہلی چیز جو وہ چاہتے ہیں وہ جان و مال کی حفاظت ہے۔ جس حکومت کے زیر اثر لوگوں کی جان و مال محفوظ نہ ہو، وہ کسی پذیراءی، کسی عزت کی مستحق نہیں۔ ہم ہزارہ لوگوں کے درد میں شریک ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے حکومت پاکستان کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں۔ اپنی حفاظت کا انتظام خود کریں۔ اگر دو ٹکے کے مذہبی جنونی غیرقانونی اسلحہ خرید کر شریف لوگوں کو مذہب کے نام پہ قتل کر رہے ہیں تو شرفا کو خود کو مسلح کرنے کی خواہش سے روکنا حماقت ہے۔ جب لوگوں کی جان و مال محفوظ رکھنے میں حکومت ناکام ہو جاءے تو گروہوں کا یہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ اپنی جگہ حکومت کی یہ ذمہ داری قبول کریں اور اپنے گروہ میں موجود لوگوں کی خود حفاظت کریں۔ 

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?