Tuesday, February 21, 2012

 

عدالت خود توہین عدالت کی مرتکب؟




فروری بیس، دو ہزار بارہ


اردو کی مختصر کہاوت ہے، اپنی عزت، اپنے ہاتھ۔ یعنی انسان اپنی عزت خود کراتا ہے۔ گویا انسان ایسے حالات نہ پیدا کرے کہ اس کی بے عزتی کی جاءے۔ یہ کلیہ پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران میں ملک کی عدالت عظمی پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔
افتخار چوہدری صاحب جس بھرپور وکلا تحریک کے بعد دوبارہ اپنے عہدے پہ فاءز ہوءے، اس سے انہیں اپنی 'بے پناہ مقبولیت' کا مکمل طور پہ یقین ہو گیا۔ یوں لگتا ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری نے پاکستان کو سدھارنے کا بوجھ اپنے کندھوں پہ محسوس کیا۔ انہوں نے ذمہ داری کے اس احساس تلے سو موٹو مقدمات لینے شروع کیے۔ ایک شور سناءی دیا کہ ملک کا لوٹا ہوا مال واپس ملک میں لایا جاءے گا۔ آصف علی زرداری جن موٹی قانونی چہاردیواریوں کے پیچھے ایوان صدر میں آرام سے بیٹھے تھے، افتخار چوہدری صاحب نے ان دیواروں کو گرانا شروع کیا۔ سب سے پہلے قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او کا معاملہ عدالت نے خود اپنے سامنے پیش کیا اور پھر فیصلہ دیا کہ تعزیرات پاکستان کے حساب سے قومی مفاہمتی آرڈیننس بے معنی اور کالعدم ہے۔ دوسرے مرحلے میں عدالت عظمی نے ان لوگوں پہ ہاتھ ڈالنا شروع کیا جو قومی مفاہمتی آرڈیننس سے بہرہ مند ہوءے ہیں۔ اس سلسلے میں پی پی پی کے جیالے ایف آءی اے کے ایڈیشنل ڈاءریکٹر جنرل ریاض شیخ کو گرفتار کیا گیا۔ اگلا نشانہ این آر او کی سب سے بڑے عنایت یافتہ شخصیت آصف علی زرداری تھے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آصف علی زرداری بہت امیر آدمی ہیں اور انہوں نے اپنا پیسہ اپنی بیگم بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں بنایا ہے مگر کسی قسم کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ آصف علی زرداری کی دولت رشوت کا پھل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان نیوی کے لیے آبدوز خریدنے کے سودے میں، اور برآمدات اور درآمدات کو جدید خطوط پہ استوار کرنے کے لیے کوٹیکنا سے کیے جانے والے معاہدے میں لمبی رقوم بناءی گءیں۔ آصف علی زرداری کے بیرونی بینک کھاتوں کے بارے میں بھی سب کو معلوم ہے۔ اب اگر سوءس حکومت وہ مقدمات دوبارہ کھولے جو نواز شریف دور میں حکومت پاکستان کی ایما پہ شروع کیے گءے تھے اور جن میں زرداری پہ رشوت ستانی کا الزام تھا، تو ان مقمدات کے تحت سوءس اور دیگر عالمی بینکوں پہ دباءو ڈال کر یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آصف علی زرداری کے بینک کھاتوں میں کتنی رقم ہے، اور کس تاریخ کو کس رقم کا چیک کس کی طرف سے اس کھاتے میں جمع کیا گیا۔ اور اس طرح ذرا سی دیر میں آصف علی زرداری کی دولت کا حساب مل سکتا ہے۔ یہی کچھ معلوم کرنے کے لیے جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم دیا کہ وہ سوءس حکومت کو خط لکھیں کہ وہ آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولے تا کہ مختلف بینکوں پہ دباءو ڈال کر زرداری کے بینک کھاتوں کا حساب کتاب پاکستان تک پہنچ سکے۔ اور وزیر اعظم نے جب ایسا نہیں کیا تو ان پہ ہتک عدالت کا الزام ہے۔ کیا یہ بات افتخار چوہدری سمیت پورے پاکستان کے علم میں نہیں ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری ایک ہی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ٹیم کے لوگ ہیں اور مل کر کھیلنا چاہتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ افتخار چوہدری کے حکم پہ گیلانی سوءس حکومت کو خط لکھیں کہ سوءس حکومت پرانے مقدمات ازسرنو شروع کرے اور آصف علی زرداری کے اثاثوں کا پول کھولے۔ اس بات کی امید کرنا کہ گیلانی عدالت عظمی کا ایسا کوءی حکم مانیں گے نادانی نہیں تو کیا ہے؟ اور جب معلوم ہے کہ وزیراعظم گیلانی ایسا ہرگز نہیں کریں گے تو وزیراعظم کو ایسا کرنے کا حکم دینا ہتک عدالت کا سامان کرنا نہیں تو کیا ہے؟ عدالت کا یہ بچکانہ فعل تقریبا اس تخیلی عدالتی فعل جیسا ہے جس میں چوری کے ملزم سے کہا جاءے کہ وہ جلد از جلد عدالت کے سامنے اپنی چوری کا سارا ثبوت پیش کردے اور جب چور ایسا نہ کرے تو اس پہ توہین عدالت کا مقمہ چلایا جاءے کہ اس نے عدالت کی بات نہیں مانی۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?