Sunday, February 19, 2012

 

نءی بستی








فروری بارہ، دو ہزار بارہ

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں جہاں دیگر فرق ہیں وہیں ان ممالک کے عوام میں بھی فرق نظر آتا ہے۔ آپ امریکہ سے جنوبی ایشیا جاءیں اور اپنے سفر کی مختلف منازل پہ اپنے آس پاس موجود لوگوں کا مشاہدہ کریں تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ کس فرق کی بات کی جا رہی ہے۔ شاید لوگوں میں نفاست کے مختلف درجوں پہ فاءز ہونے کے فرق کا تعلق تعلیم سے ہے۔ اکثر ترقی یافتہ ممالک میں خواندگی کی شرح نوے فی صد سے اوپر ہے۔ دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواندہ لوگوں کی شرح چالیس فی صد سے کم ہے۔ جہموریت لوگوں کی راءے سے حکومت قاءم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس طریقے کے پیچھے یہ مفروضہ ہے کہ ہر شخص سوچنے سمجھنے کی اعلی صلاحیت رکھتا ہے اور حکومت کن لوگوں کی ہونی چاہیے اس معاملے میں ہر شخص کی راءے اہم ہے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ کیا ایک جاہل مرد کی راءے ایک نہایت پڑھی لکھی عورت کی راءے کے برابر ہو سکتی ہے؟ ایسا یقینا نہیں ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے کم خواندگی والے ممالک میں جمہوریت کام کرتی نظر نہیں آتی۔ مگر ترقی پذیر معاشروں میں جمہوریت کے لولے لنگڑے ہونے کے باوجود شاید ہی کوءی پڑھا لکھا شخص ان معاشروں میں آمریت قاءم کرنے کی وکالت کرے۔ تو پھر ترقی پذیر ممالک میں یہ ظالم چکر کیسے توڑا جاءے کہ کم پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریتی راءے سے اقتدار میں ایسے چال باز سیاستداں آءیں جو اپنا الو سیدھا کریں اور جمہور کی بہتری پہ کوءی توجہ نہ دیں اور عوام پھر ان پڑھ رہ جاءے، اور اگلی بار یہ ان پڑھ عوام پھر غیر ذمہ دار حکومت منتخب کرے اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے۔ کیا ایک ترقی پذیر ملک میں ایسی جگہ بناءی جا سکتی ہے جو اپنے ماحول سے یکسر مختلف ہو، ایک ایسی جگہ جہاں داخلے کی شرط ہی خواندگی ہو؟ کیا ایسی آبادی قاءم کر کے، لوگوں پہ یہ دباءو بڑھایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح لکھنا پڑھنا سیکھیں۔ اگر آپ اس خیال پہ حیران ہیں تو اپنی حیرت کہیں ایک طرف رکھ دیں کیونکہ کچھ لوگ اس خیال پہ سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کراچی سے باہر ایک ایسی آبادی بسانا چاہتے ہیں جس کی حدود میں صرف وہی لوگ داخل ہو سکیں گے جو اس نءی آبادی کے رکن ہوں گے۔ اور رکنیت کی بنیاد خواندگی ہو گی۔ ہزار ایکڑ پہ واقع یہ ایک ایسا گاءوں ہوگا جس میں لوگوں کے رہنے اور کام کرنے کی جگہیں ہوگی۔ اس گاءوں میں سبزیاں بھی اگیں گی اور فصلیں بھی۔ دودھ دینے کے لیے گاءے، بھینسیں بھی ہوں گی، اور انڈوں کے لیے مرغی فارم بھی۔ یہاں اسکول، کالج، اور شفاخانے بھی ہوں گے۔ اس گاءوں کے حدود کے اندر ہی بجلی بنانے کا پلانٹ بھی ہوگا؛ بارش کے پانی کو جمع کر کے اسے استعمال کے قابل بنانے کا بھی نظام ہوگا۔ غرض کہ یہ ایک ایسی جگہ ہوگی جو اپنے طور پہ یہاں بسنے والوں کی ممکنہ حد تک ضروریات پوری کر سکے گی۔ کراچی میں رہنے والا کوءی شخص شہر سے دور اس نءی بستی میں کیوں رہنا چاہے گا؟ اس لیے کیونکہ اس جگہ پہ کسی بھی شخص کو ایک اعلی معیار زندگی ملے گا، ایک ایسی جگہ جو محفوظ ہوگی اور جہاں بجلی پانی کا نظام پاکستان کے بجلی پانی کے نظام سے کہیں بہتر طور پہ چل رہا ہوگا؛ ایک ایسی جگہ جہاں قانون کی حکمرانی ہوگی۔ کراچی میں رہنے والا ایک شخص اس نءی آبادی میں ان ہی وجوہات کی وجہ سے آنا چاہے گا جن وجوہات کی وجہ سے وہ کینیڈا کا رہاءشی ویزا حاصل کرنا چاہتا ہے۔
جب کسی معاشرے میں لوٹ مار بڑھ جاءے تو وہاں متمول لوگ قلعہ بند [گیٹڈ] آبادیوں میں رہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی قلعہ بند کالونیوں کا رواج بڑھ رہا ہے مگر ان تمام نءی آبادیوں میں داخلے کی شرط صرف پیسہ ہے۔ مذکورہ بالا آبادی میں ایسا نہیں ہے، وہاں داخلے کی شرط خواندگی ہے اور مستند اراکین کے علاوہ کوءی شخص اندر داخل نہیں ہو سکتا۔ یعنی اگر اس آبادی کے کسی باسی کا ملاقاتی اندر آبادی میں آنا چاہتا ہے تو اس ملاقاتی کے لیے بھی آبادی کا رکن ہونا ضروری ہے۔ اس آبادی کے اراکین بہت بڑی تعداد میں ہیں جن میں سے کم ہی لوگ اندر نءی آبادی میں رہتے ہیں۔ اس آبادی کی چہاردیواری پہ پہرہ ہے اور اندر آنے اور باہر جانے کے لیے مخصوص دروازے ہیں جن پہ لوگوں کی رکنیت کی تصدیق کی جاتی ہے۔
کیا اس آبادی سے متعلق آپ کے کچھ تحفظات ہیں؟ کیا آپ اس آبادی میں رہنا چاہیں گے؟ ہمیں اپنے آراء سے ضرور مطلع کیجیے۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?