Saturday, February 18, 2012
قارورے پہ شہد کا لیبل
جنوری انتیس، دو ہزار بارہ
میں عمرانیات کا طالب علم ہونے کے ناتے بدلتی ہوءی معاشرتی ترجیحات کو غور سے دیکھتا ہوں۔ لوگوں کے نزدیک کیا قابل عزت ہے، لوگ کن باتوں سے مرعوب ہوتے ہیں، اور کس قسم کے رویوں کی تقلید کرنا چاہتے ہیں، یہ باتیں میرے لیے اہم ہیں۔ ہر دم بدلتی معاشرتی ترجیحات میں مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کس قدر آسانی سے محض لیبل سے بے وقوف بن جاتے ہیں۔ قارورے کی بوتل پہ شہد کا لیبل لگا ہو تو ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو گہراءی سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ بوتل کے اندر واقعی شہد ہے یا نہیں۔ زیادہ تر لوگ محض لیبل دیکھ کر مطمءن ہو جاتے ہیں۔ چند مثالوں سے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پاکستان میں بہت سے لوگ اب تک یہ خیال کرتے ہیں کہ جس شخص کی داڑھی ہے اور وہ صوم و صلوۃ کا پابند ہے، یقینا ایماندار ہوگا۔ سنہ پچاس کی دہاءی کی بات ہے، کراچی میں کسی وقت شکر کی کال پڑ گءی۔ ہمارے دادا جس مسجد میں باقاعدگی سے نماز پڑھنے جاتے تھے وہیں ایک شخص آتا تھا جس نے باتوں باتوں میں تذکرہ کیا کہ وہ شکر کا انتظام کرسکتا ہے۔ اتنا کافی تھا کہ ایک پابند نماز شخص کہہ رہا تھا کہ اگر اسے رقم دی جاءے تو وہ شکر کا انتظام کر دے گا۔ چنانچہ اسے رقم دے دی گءی۔ رقم لینے کے بعد وہ اس مسجد میں کبھی نظر نہیں آیا۔ ہمارے گھر والے قارورے کی بوتل پہ شہد کے لیبل سے بے وقوف بن گءے۔ مگر شاید یہ بات ان کو سمجھ میں آگءی کہ دکھاوے کے تقوی کا ایمانداری سے کوءی خاص تعلق نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ میں کراچی میں اپنا مشاورتی انجینءیرنگ کاروبار بڑھانے کی نیت سے پی آءی اے پہنچا۔ پی آءی اے کءی ترقیاتی کاموں میں پیسہ لگا رہی تھی اور مجھے خیال تھا کہ شاید ڈیزاءن کا کچھ کام مجھے بھی مل جاءے۔ اسی درمیان کسی عزیز نے مجھے خبردار کیا کہ پی آءی اے میں 'کھانے پلانے' کا بہت رواج ہے، اگر بالفرض محال مجھے کوءی پراجیکٹ مل بھی گیا تو اس میں ایک مخصوص شرح فیصد ورکس ڈیپارٹمنٹ کی طے کی جاءے گی۔ میں حیرت زدہ تھا کہ جن لوگوں سے بات چیت کر رہا ہوں ان میں سے کون دھڑلے سے ایسی بات کہے گا۔ مجھے خیال ہوا کہ میں پی آءی اے میں جن لوگوں سے مل رہا ہوں، ان میں سے جو ایک شخص باریش ہے اور کچھ کچھ دیر بعد نماز کے لیے دوڑتا ہے، یقینا وہ شخص مجھ سے رشوت کی بات کرے گا۔ اور بالاخر ایسا ہی ہوا۔ میں پی آءی اے سے آگے بڑھ گیا مگر میرے دل میں قارورے کی بوتل پہ شہد کے لیبل والی بات اور پختہ ہو گءی۔ میں کل ہی واپس بے ایریا پہنچا ہوں۔ میں نے اب کی بار پاکستان کے سفر میں بدلتی معاشرتی ترجیح کا ایک اور نمونہ دیکھا۔ مجھ پہ واضح ہوگیا کہ پاکستان میں انگریزی کا زور بڑھ رہا ہے اور ساتھ ہی معاشرے میں یہ خیال خام بھی تقویت پا رہا ہے کہ انگریزی میں گفتگو کرنا احسن ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ اگر کوءی شخص انگریزی جانتا ہے تو اس کا مطلب محض یہ نہیں ہے کہ مذکورہ شخص ایک دوسری زبان جانتا ہے بلکہ انگریزی بولنا آپ کی قابلیت، آپ کا علم، آپ کی اعلی جمالیاتی حس ظاہر کرتا ہے۔ انگریزی بولنا روشن خیالی ظاہر کرتا ہے، جدید طرز فکر کا اظہار ہے۔ انگریزی میں جو بات کہی جاتی ہے وہ دو ٹوک ہوتی ہے اور سچ ہوتی ہے۔
اس بدلتی معاشرتی ترجیح میں ایک دفعہ پھر لوگوں کو بے وقوف بنانا آسان ہوگیا ہے۔ قارورے پہ شہد کا لیبل لگا دیجیے، پھر تماشہ دیکھیے۔ ہر قسم کا جھوٹ ، فراڈ انگریزی میں کیجیے، لوگ آسانی سے آپ کی بات کا یقین کر لیں گے۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ منصور اعجاز پورے پاکستان کو بے وقوف بنانے میں اسی لیے کام ہوگیا کیونکہ وہ انگریزی میں لکھتا اور بولتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ تمام لوگوں کو کچھ دیر تک بے وقوف بنا سکتے ہیں، اور کچھ لوگوں کو ہر وقت بے وقوف بنا سکتے ہیں، مگر آپ تمام لوگوں کو ہر وقت بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات واضح ہو گءی ہے کہ منصور اعجاز ایک ایسا فراڈیا ہے جس کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کرنا ہے۔ افسوس بس اتنا ہے کہ میموگیٹ نامی فراڈ اسکینڈل میں منصور اعجاز نے یہ شہرت ایک غریب ملک کا بہت سا وقت اور بے انتہا پیسہ ضاءع کرا کر حاصل کی ہے۔
Labels: Growing influence of the English language, You cannot fool all the people all the time