Friday, February 17, 2012

 

بڑے شہروں میں آلودگی کے مساءل





جنوری تءیس، دو ہزار بارہ


بڑے شہروں میں آلودگی کے مساءل

علی حسن سمندطور

کہتے ہیں، سفر وسیلہ ظفر۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ سفر سے فتح مندی کا ایک خوب صورت احساس وابستہ ہے۔ سفر میں آپ کے مشاہدات بڑھ جاتے ہیں اور بہت سی باتیں جو ایک جگہ بیٹھے بیٹھے سمجھ میں نہیں آ رہی ہوتیں سمجھ میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ عمرانیات کے طالب علم ہونے کے ناتے میں جب سفر میں ہوتا ہوں تو لوگوں کے ایک دوسرے سے تعلق کو غور سے دیکھتا ہوں۔ میں ان معاشروں کو دیکھتا ہوں جو نت نءی ایجادات کا بطن ہیں۔ کہ ان معاشروں میں لوگ اپنے بدلتے ہوءے حالات سے کیسے نبرد آزما ہو رہے ہیں۔ پھر ان معاشروں کو بھی دیکھتا ہوں جو جدید دور کے شانہ بشانہ نہیں ہیں مگر جہاں جدید معاشروں سے نءی ٹیکنالوجی پہنچ جاتی ہے اور وہاں رہنے والے لوگ اس نءی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ آپ اس وقت جہاں بھی موجود ہیں، اپنے آس پاس نظر اٹھا کر دیکھیے: بجلی کے قمقمے، فون، الیکٹرانک آلات، عمارات کو گرم ٹھنڈا رکھنے کی ٹیکنالوجی۔ یہ سب ایجادات ایسے ملکوں میں ہوءی ہیں جن کی آبادیاں دنیا کی آبادی کا بہت چھوٹا حصہ ہیں۔ کوءی بھی نءی ٹیکنالوجی جب عام ہوتی ہے تو اس کی قبولیت اور اس کی ترویج کے مراحل سامنے آتے ہیں۔ اس نءی ٹیکنالوجی سے وہ لوگ سب سے آسانی سے نبردآزما ہوتے ہیں جنہوں نے یہ ٹیکنالوجی بناءی ہوتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے دور سے دور بسنے والے لوگوں کے لیے یہ ٹیکنالوجی اجنبی ہوتی ہے اور انہیں اسے من حیث الگروہ اپنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سارے لوگوں کا بڑے شہروں کی صورت میں ساتھ رہنا بھی ایک نسبتا نیا انداز زندگی ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ کسی شہر میں ساتھ رہیں گے تو ان کے لیے پینے کے پانی کا منصفانہ انتظام کیسے کیا جاءے گا۔ پانی کو پاءپ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کی جدید ٹیکنالوجی کو یورپ نے موجودہ نقطہ عروج تک پہنچایا ہے۔ مگر پانی کی ترسیل میں انصاف کا براہ راست تعلق جدید معاشرے میں منصف حکومت کے قیام سے ہے۔ اور یوں یہ سب چیزیں آپس میں جڑی ہوءی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں جب منصف حکومت کا قیام ہی عمل میں نہیں آپاتا تو دوسرے معاملات بھی منصفانہ نہیں چل پاتے۔ ایک شخص کا دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر رہنا اس نیت سے ہوتا ہے کہ اس طرح ساتھ چلنے میں اس کی زندگی آسان ہوجاءے گی، مگر جہاں معاشرے میں مختلف سطح پہ انصاف نہ ہو، ایک انسان دوسرے انسان کے لیے ایک مصیبت بن جاتا ہے۔
اب آپ کراچی کی مثال لیں۔ کچھ کچھ دنوں بعد خبر آتی ہے کہ فلاں علاقے میں پینے کے پانی میں گٹر کا پانی شامل ہو گیا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ شہر کے آبی نظام پہ ایک پمپ ہو جو پریشر سے پانی پاءپ میں روانہ کر رہا ہو۔ اسی پریشر کی وجہ سے پانی ہر گھر میں پہنچ جاءے۔ اگر اس پریشر والے پاءپ میں کہیں لیک بھی ہوگا تو پریشر کی وجہ سے صاف پانی پریشر والے پاءپ سے باہر نکلے گا، پاءپ کے اندر کچھ نہ جاءے گا۔ اب آپ اس صورتحال پہ غور فرماءیں کہ پاءپ میں پانی کم ہے اور پانی کے صارفین زیادہ۔ ہر گھر کی خواہش ہے کہ شہر کے فراہمی آب کے نظام سے جو تھوڑا بہت پانی پاءپ میں آرہا ہے وہ پانی اس گھر تک پہنچ جاءے۔ چنانچہ ہر گھر میں ایک سکشن پمپ لگا ہے جو پانی کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ اس کھینچا تانی کی وجہ سے پاءپ میں جہاں مثبت پریشر ہونا چاہیے تھا، اب منفی پریشر ہوگیا۔ اب اگر کسی وجہ سے گٹر کا پاءپ لیک کررہا ہے اور گٹر کا یہ پانی ، صاف پانی کے پاءپ کے پاس موجود ہے اور صاف پانی کے پاءپ میں ہلکا سا بھی لیک ہے تو گٹر کا یہ پانی منفی پریشر سے کھنچ کر صاف پانی کے پاءپ میں چلا جاءے گا۔ اسی وجہ سے کراچی میں صاف پانی میں گندا پانی ملنے کے اکثر واقعات بارشوں کے موسم میں سننے میں آتے ہیں جب بارش کا پانی رسنے والے گٹر کے پانی کو صاف پانی کے پاءپ کے قریب تر پہنچا دیتا ہے۔
لوگوں کے ایک ساتھ رہنے کی صورت میں کوڑے کی تلافی کا معاملہ بھی سامنے آتا ہے۔ مغرب سے نکلنے والی نءی ترین ٹیکنالوجی مشرق میں پہنچ رہی ہے اور جن معاشروں میں کوڑے کی تلافی کا نظام فعال نہیں ہے وہاں پلاسٹک اور پیکجنگ کے کوڑے نت نءے مساءل کھڑے کر رہے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں میری معلومات کے مطابق کوءی ایسا فعال کوڑے کا نظام نہیں ہے کہ جمع ہونے والے کوڑے کو شہر سے باہر لے جا کر زمین دوز کیا جاءے۔ چنانچہ اکثر جگہ کوڑے کی تلافی اسے آگ لگا کر کی جاتی ہے۔ وہ کوڑا جو پہلے زمین پہ پڑا بدنما لگ رہا تھا اور تعفن کا منبا تھا اب جل کر فضاءی آلودگی میں بدل جاتا ہے اور دور دور بسنے والوں کے پھیپھڑوں میں جگہ بناتا ہے۔
کراچی میں فضاءی آلودگی کی دو اور بڑی وجوہات ٹریفک اور شہر کے درمیان موجود فیکٹریاں ہیں۔ شہر کی سڑکوں پہ جو گاڑیاں دوڑ رہی ہیں ان کی جانچ کا کوءی فعال نظام نہیں ہے۔ جو گاڑی جتنا چاہے گاڑھا دھواں چھوڑے، اسے پوچھنے والا کوءی نہیں ہے۔ اسی طرح اربنگ پلاننگ کا نظام فعال نہیں ہے کہ جس میں خیال رکھا جاءے کہ دھواں اڑانے اور شور مچانے والی فیکٹریاں رہاءشی علاقوں سے بہت دور ہوں۔۔
پھیلتی آبادیوں کے ساتھ ہوا اور پانی کی آلوگی بڑے مساءل ہیں جنہیں سوچ سمجھ سے اور انتظام سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے لوگوں کو اس بارے میں آگہی دی جاءے۔ وہ گہراءی سے سمجھ سکیں کہ ان کے مساءل کے ماخذ کیا ہیں، یہ جان سکیں کہ دنیا کے دوسرے خطوں میں ان ہی مساءل سے دوسرے لوگ کیسے نمٹ رہے ہیں، اور اپنے اندر یہ اعتماد پیدا کر سکیں کہ وہ خود منظم ہو کر، مل بیٹھ کر، ساتھ کام کرنے سے اپنے مساءل حل کرنے کے اہل ہیں۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?