Thursday, February 16, 2012

 

رنگون میں لکھے جانے والے چند خیالات






جنوری آٹھ، دو ہزار بارہ



داڑھی والا وہ شخص بہت سنجیدہ تھا۔ اس کا نام محمد خان تھا۔ اس سے میری بات چیت اردو میں ہو رہی تھی۔ میں خوش تھا کہ مجھے ایک ایسا مقامی شخص مل گیا تھا جو میری بات سمجھ سکتا تھا۔ محمد خان نے بتایا کہ وہ پٹھان ہے۔ لنگی پہننے والا، مستقل پان کھانے والا پٹھان۔ وہ برما ہی میں پیدا ہوا تھا اور اسی وجہ سے مقامی زبان روانی سے بولتا تھا۔ اس نے اردو بولنا کہاں سے سیکھی؟ اپنے والد سے، اس نے جواب دیا۔ تمھارے والد پشتو بولتے تھے؟ نہیں، ان کی پیداءش بھی برما کی تھی مگر وہ اردو بولتے تھے، جواب ملا۔ انگریز کے راج میں پٹھان دور دو پھیل گءے اور اتنے سال گزرنے کے بعد بھی اپنی پہچان پٹھان ہی بتاتے ہیں۔ لوگ کس طرح اپنی پہچان بناتے ہیں، کس پہچان پہ شرمندہ ہوتے ہیں، اور کس پہچان پہ فخر کرتے ہیں، میں یہ ساری باتیں دیر تک سوچتا رہا۔ میں محمد خان کے ساتھ ہی بہادر شاہ ظفر کے مقبرے پہ پہنچا۔ بہادر شاہ ظفر کی قبر پہ پہنچ کر دل کی ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ بابر سے لیکر عالمگیر تک کے جاہ و جلال کا خیال آتا ہے۔ انہوں نے کتنی بڑی بادشاہت قاءم کی اور کیسی کیسی فتوحات کیں مگر پھر وقت بدلا اور ان کی اولاد انگریز کے تابع ہو گءی اور ۱۸۵۷ کی جنگ کے بعد انگریز کو اندازہ ہوا کہ کسی عظیم شاہی سلسلے کے افراد کو وظیفے پہ قاءم رکھنا احمقانہ کام ہے، باغیوں کو عظمت رفتہ کی تلاش ہوتی ہے اور اس تلاش میں وہ ایک بوڑھے براءے نام بادشاہ کے پیچھے بھی جمع ہونے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یہ نکتہ سمجھنے پہ انگریزوں نے آخری مغل تاجدار کو رنگون کے لیے روانہ کر دیا۔ ظفر قسمت سے شاکی رہے کہ انہیں اپنی دھرتی میں دفن ہونے کے لیے دو گز زمین نہ ملی۔ ظفر کو یہ بتانے والا کوءی نہ تھا کہ اپنی مرضی کی جگہ پہ دفن ہونے کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ گلچھرے اڑانے اور شاعری کرنے سے بعد میں آنے والے لوگوں کو پڑھنے کے لیے اچھا مواد تو مل سکتا ہے مگر اس آرام پسند زندگی سے اپنی پسند کی چیزیں بشمول دفن ہونے کے لیے جگہ حاصل نہیں کی جا سکتی۔ پرانے وقتوں میں پہلے تلوار کے زور پہ حکومت قاءم کی جاتی تھی اور پھر انصاف کے استعمال سے اپنی بادشاہت کی بقا حاصل کی جاتی تھی۔ آج جمہور کا دور ہے۔ آج کے دور میں مضبوط حکومت قاءم کرنے کے لیے مضبوط عوام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر عوام پڑھی لکھی، سمجھدار ہے، تو معمولی وساءل استعمال کرتے ہوءے کسی بھی ملک کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?