Saturday, February 18, 2012

 

تعلیم، شعور، اور اچھی حکومت




فروری چھ، دو ہزار بارہ

مواصلات کے شعبے میں انٹرنیٹ ایک انقلاب ہے۔ اور یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو دوسرے بہت سے شعبوں پہ اثرانداز ہو رہا ہے اور ان شعبوں میں گہری تبدیلیوں کا نقیب ہے۔ حال میں عرب دنیا میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کا بھی انٹرنیٹ کے انقلاب سے گہرا تعلق ہے۔ اور ایک انقلاب جس کی راہ بہت سے دیوانوں کی طرح یہ فدوی بھی دیکھ رہا ہے، دنیا کے موجودہ معاشی ڈھانچے میں مساوات قاءم کرنے سے متعلق ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں کے درمیان معاشی عدم مساوات نوآبادیاتی نظام سے گہری ہوءی ہے۔ مگر جہاں نو آبادیاتی نظام نے یورپی قوتوں کو فاءدہ پہنچا کر دوسرے خطوں کو غربت کی طرف دھکیل دیا، وہیں نوآبادیاتی نظام کا ایک بلاواسطہ فاءدہ یہ ہوا کہ دنیا آپس میں بندھ گءی۔ نہ صرف یہ کہ یورپی طاقتوں کی زبانوں نے عالمگیر رابطے کی زبانوں کا کام دیا، بلکہ نوآبادیاتی نظام میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ سے دنیا کے مختلف خطوں کو ایک دوسرے سے گہری آگہی ہو گءی۔ اور اب مواصلات کی ٹیکنالوجی اس مقام پہ پہنچ گءی ہے کہ آپ گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی خطے کی خبر رکھ سکتے ہیں۔ نوآبادیاتی نظام ختم ہوا تو نوآبادیوں کا نظام مقامی قیادت کے حوالے کیا گیا۔ اور اکثر صورتوں میں یہ قیادت نااہل ثابت ہوءی۔ چنانچہ ایشیا، افریقہ، اور جنوبی امریکہ میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں پے درپے نااہل حکومتوں نے ان ممالک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ پسماندہ ممالک میں بسنے والے پڑھے لکھے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ دوسری جگہوں پہ ان ہی جیسے تعلیمی پس منظر کے لوگ بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں تو ترقی پذیر ممالک کے وہ لوگ بے چینی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ بجا طور پہ سوچتے ہیں کہ ہم ایسے کیوں نہیں ہیں جیسے یہ دوسرے لوگ ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی سطح خوشحالی تک لانے کے لیے جہاں ہر جگہ اچھی اور ذمہ دار حکومت کی ضرورت ہے، وہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کم سے کم وساءل استعمال کرتے ہوءے تعلیم دی جاءے۔ اس شعبے میں بھی انٹرنیٹ ایک انقلابی کام کر رہا ہے۔ تذکرہ ہے خان اکیڈمی کا۔ تو بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ایک بہن نے اپنے بھاءی سے شکایت کی کہ اس کا بچہ پڑھاءی میں دل نہیں لگا رہا اور ماموں کو چاہیے کہ پڑھاءی میں بھانجے کی مدد کرے۔ بھاءی ایک شہر میں تھا اور بہن دوسرے شہر میں۔ بھاءی نے کہا کہ میں اپنے بھانجے کو پڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لوں گا۔ پھر بھاءی نے یہ کام شروع کیا کہ بھانجے کو جو سبق پڑھانا ہوتا اس کی ویڈیو بناتا اور اسے یوٹیوب پہ چڑھا دیتا۔ یوٹیوب پہ دستیاب ہونے کی وجہ سے دوسرے شہر میں موجود بھانجا یہ ویڈیو دیکھ لیتا۔ سبق در سبق چلتے، وقت گزرنے کے ساتھ متفرق موضوعات پہ بہت سارے ویڈیو جمع ہو گءے اور ان تعلیمی ویڈیو کو دوسرے طلبا بھی شوق سے دیکھنے لگے۔ اور یوں خان اکیڈمی کی بنیاد پڑی۔ خان اکیڈمی ایک ایسی ویب ساءٹ ہے جہاں حساب، الجبرا، کیمیا، طبیعیات سے لے کر تاریخ اور معاشیات تک آپ کو بہت سے موضوعات پہ بنیادی معلومات کی ویڈیو ملیں گی۔ ان ویڈیو کو دیکھ کر آپ اپنے طور پہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ بنگال سے نسلی تعلق رکھنے والے نوجوان سلمان خان نے ایسا کام کیا ہے کہ آج دنیا کے کونے کونے میں موجود طلبا سلمان خان کی بناءی ہوءی تعلیمی ویڈیو دیکھتے ہیں اور انہیں دیکھ کر ریاضی، طبیعیات، کیمیا، اور دوسرے علوم کی آگہی حاصل کرتے ہیں۔ سلمان خان کے کام کو شہرت ملی تو بہت سے ادارے ان کی مدد کو آگءے۔ کءی جگہ سے فرماءش ہوءی کہ اب ان ویڈیو کا ترجمہ انگریزی سے دنیا کی دوسری زبانوں میں کیا جاءے۔ ان ویڈیو کا اردو میں ترجمہ کرنے کے لیے خان اکیڈمی نے کوشش فاءونڈیشن سے رابطہ کیا۔ کوشش فاءونڈیشن ایک ایسا فلاحی ادارہ ہے جس کی بنیاد پچھلی صدی کے آخری سال پڑی تھی۔ سان فرانسسکو بے ایریا میں رہنے والے کچھ لوگوں نے محسوس کیا تھا کہ وہ جس معاشرے سے آءے ہیں، اس کو کسی نہ کسی طرح لوٹانا ان کا فرض ہے۔ کوشش فاءونڈیشن پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں کام کر رہی ہے۔ کوشش فاءونڈیشن کے روح رواں سہیل اکبر ہیں جن کی شخصیت بے انتہا متاثر کن ہے۔ کوشش فاءونڈیشن کے بہت سے رضاکاروں میں فدوی بھی شامل ہے اور حال میں خان اکیڈمی کے ویڈیو کا اردو میں ترجمہ کرنے کے کام کے سلسلے ہی میں پاکستان گیا تھا۔ پہلے مرحلے میں کل ہزار ویڈیو کا ترجمہ کرنا ہے۔ اب تک تین سو کے لگ بھگ ویڈیو کا ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ ویڈیو یو ٹیوب پہ موجود ہیں۔ پاکستان میں بہت سے لوگوں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں دوسرے فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر تعلیمی ویڈیو گاءوں گاءوں پہنچانے کا کام کرنا ہوگا۔ قصہ مختصر یہ کہ جہاں تعلیم اور شعور بلند کرنے کے سلسلے میں کام ہو رہا ہے وہیں ملک میں ذمہ دار اور منصف حکومت قاءم کرنے کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔ معاشرے میں عام تعلیم، لوگوں میں جدید دنیا کی سوجھ بوجھ، اور ملک میں اچھی حکومت وہ ناگزیر عناصر ہیں جو امیر اور غریب ممالک کے درمیان معاشی گہراءی کم اور ختم کرنے میں معاون ہوں گے۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?