Thursday, August 18, 2011

 

یہ دن، جو زندگی ہے



بہت پہلے فدوی نے لکھا تھا،

زندگی کے ہر دن کو یوں گزاروں کہ جیسے وہ دن خود زندگی ہے کہ جب ہم رات کو سوتے ہیں تو مر ہی تو جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنی خوش قسمتی پہ فخر کرنا چاہیے جو گزری رات سونے کے بعد صبح اٹھ جاتے ہیں۔ ہر صبح کو ایک نءی زندگی کا آغاز جاننا چاہیے۔

میں نے ایک دوست کو اپنی یہ تحریر سناءی تو انہوں نے کہا، "یار تم کچھ پڑھتے ہو نہیں، بس لکھتے رہتے ہو۔ تم نے زندگی کے متعلق یہ لکھ کر کونسا تیر مارا ہے۔ کالی داس نے قریبا دو ہزار سال پہلے زندگی کا فلسفہ اپنی نظم میں بیان کر دیا تھا۔"

اپنے دوست کے بتانے پہ میں نے کالی داس کی نظم پڑھی اور سر دھنتا رہ گیا۔ میں کالی داس کی نظم سینکسرت میں نہیں پڑھ پایا۔ اسے انگریزی میں پڑھا ہے۔ اس خوب صورت نظم کا اردو ترجمہ حاضر خدمت ہے۔

اس دن کو دیکھو، اس لمحے کو پہچانو

کہ یہ دن زندگی ہے، زندگی کی زندگی

کہ اس دن کے مختصر دورانیے میں

پنہاں ہیں تمہاری زیست کے تمام انداز

بالیدگی کا لطف

عمل کی عظمت

فتح یابی کا سرور

یہی تو ہیں زندگی کے انداز

کل جو گزر گءی محض ایک یاد ہے

اور فردا محض ایک خیال

آج کا دن جو اچھا گزرے، وہ بن جاتا ہے

گزری کل کی خوب صورت یاد

اور ایسا اچھا دن، فردا کو بناتا ہے،

ایک پرامید خیال

بس پہچان لو اس لمحے کی طاقت کو

یہی ہے ہر صبح نو کا پیام

====

کالی داس کی نظم کا نہایت عمدہ انگریزی ترجمہ نہ جانے کس نے کیا ہے مگر یہ انٹرنیٹ پہ باآسانی دستیاب ہے۔ ترجمہ یہ ہے۔

Look to this day! For it is life, the very life of life. For yesterday is but a dream And tomorrow is only a vision But today well lived makes every yesterday a dream of happiness And tomorrow a vision of hope. Look well, therefore, to this day! Such is the salutation of the dawn.

Kalidas

कालिदास, ज़िंदगी


Labels: , , ,


 

Amil Online is a Jahil Offline


انگلستان کے بلوے، عالم آن لاءن

بہت سے لوگوں کے لیے انگلستان میں ہونے والے حالیہ بلوے ایک اچھوتی بات تھی۔ اس موضوع پہ ایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ انگلستان تو اس قدر مہذب ملک خیال کیا جاتا ہے پھر وہاں کے لوگ اس طرح توڑ پھوڑ کیوں کر رہے ہیں۔ مجھ جیسے عمرانیات کے طلبا کے لیے ایسے واقعات جن میں کسی معاشرے کی رواءیت سے ہٹ کر کام کیے جاءیں، تعلیم کا پہلو رکھتے ہیں۔ انگلستان کے فسادات لندن کے ٹوٹن ہیم نامی علاقے سے شروع ہوءے جہاں پولیس نے مارک ڈگن نامی انتیس سالہ شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ مارک کے پاس آتشیں ہتھیار تھا جس سے اس نے پولیس پہ فاءر کیا تھا۔ ٹوٹن ہیم کے لوگ پولیس کے بیان سے متفق نہیں تھے اور ان کا خیال تھا کہ پولیس نے بےگناہ ڈگن کو محض اپنی نفرت سے اس ظلم کا نشانہ بنایا ہے۔ ہنگامہ آراءی ٹوٹن ہیم سے شروع ہوءی اور پھر یہ بلوے دوسرے علاقوں تک پھیل گءے۔ ان بلووں میں ان لوگوں نے شرکت کی جو غریب تھے ، ان میں سے بیشتر بے روزگار بھی تھے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ لوگ ایک معاشرے میں کس طرح ساتھ رہتے ہیں، انسان کا دوسرے انسانوں سے کیا رشتہ ہوتا ہے؟ موجودہ دور میں جب بہت مختلف نسلوں، اعتقادات، اور زبانوں کے لوگ ایک ساتھ کسی شہر میں رہتے ہیں تو ان کے درمیان سب سے بڑا اور مستحکم رشتہ معاشی ہوتا ہے۔ اس بات کی اہمیت ہوتی ہے کہ کسی انسان کو اپنے ہم شہروں سے مادی طور پہ کیا مل رہا ہے اور کیا ملنے کی امید ہے۔ جب لوگوں کے ایک گروہ کو کسی نظام سے کوءی مادی فاءدہ نہ پہنچ رہا ہو، تو اس نظام کی تباہی میں انہیں کوءی نقصان بھی نظر نہیں آتا۔ اور خاص طور سے اس وقت جب مفلوک گروہ کا متمول گروہ کے ساتھ نسلی، مذہبی، یا لسانی رشتہ گہرا نہ ہو۔ مثلا اگر یہی صورتحال جاپان میں ہو کہ بہت سے لوگ بے روزگار اور مصیبت زدہ ہوں اور کسی وجہ سے انہیں خیال ہو کہ مراعات یافتہ گروہ ان پہ ظلم کر رہا ہے تو اس خیال کے باوجود مفلوک الحال گروہ مراعایات یافتہ گروہ پہ ہلہ نہیں بول دے گے کیونکہ ان لوگوں کو آپس کے گہرے نسلی تعلق کا احساس ہوگا۔

مگر اس بات کو بیان کرنے کا مقصد یہ باور کرانا ہرگز نہیں ہے کہ مختلف نسل، مذہب، اور زبان کے لوگ ایک ساتھ امن سے نہیں رہ سکتے۔ موجودہ عہد میں جب سرمایہ اور دماغ تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں، کثیرالتہذیبی یا ملٹی کلچرل معاشرہ جگہ جگہ وجود میں آتا ہے اور آءے گا۔ لندن کے فسادات نے ثابت کیا ہے کہ معاشرے کے سب لوگوں کو مل کر کوشش کرنی ہے کہ ان کے شہر میں معاشی ناہمواری کم سے کم ہو اور ایسا وقت نہ آءے کہ کوءی گروہ یہ محسوس کرے کہ اسے دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ بہت سے بھوکے لوگوں کے درمیان طشتری بھر کر کھانا کھانے میں کوءی فخر کا پہلو نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے۔

آج ہماری دنیا ایک مشکل معاشی دور سے گزر رہی ہے۔ کساد بازاری کے اس ماحول میں جمہوری معاشروں میں لوگ حکومت پہ زور ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے اخراجات کم کرے۔ امریکہ میں ٹی پارٹی کے لوگ مطالبے کر رہے ہیں کہ حکومت بےروزگاروں کی مدد، ناداروں کے مفت علاج وغیرہ پہ رقم ضاءع نہ رکے۔ انگلستان کے بلووں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کسی بھی گروہ سے سب کچھ چھین لینا ایک انتہاءی خطرناک صورتحال کو جنم دیتا ہے۔ اگر انگلستان کی طرح امریکہ میں بھی فلاحی کاموں میں بڑے پیمانے پہ کٹوتی کی گءی تو یہاں کے بڑے شہروں میں بھی لندن کے طور پہ فسادات ہو سکتے ہیں۔

عالم آن لاءن

پاکستان کا ایک مقبول ٹی وی پروگرام عالم آن لاءن ہے۔ اس پروگرام کی میزبانی عامر لیاقت حسین نامی ایک صاحب کرتے ہیں۔ دو دن پہلے ایک ایسی ویڈیو سامنے آءی جس میں ان صاحب کواسٹوڈیو میں مختلف موقعوں پہ مغلظات بکتے ہوءے دکھایا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ ویڈیو دیکھ کر شاید دھچکا پہنچا ہو مگر مجھے یہ ویڈیو دیکھ کر کوءی خاص تعجب نہیں ہوا۔ اس ویڈیو میں میزبان جو عامیانہ اور بازاری زبان استعمال کر رہے ہیں وہ کراچی میں عام طور سے استعمال ہوتی ہے اور مردانہ محفلوں میں اس زبان کے بلاتکلف استعمال پہ کوءی معترض نہیں ہوتا۔ اگر کسی نادان کا خیال تھا کہ ٹی وی پہ آنے والے لوگ عام معاشرتی رجحانات سے بالاتر ہوتے ہیں اور بازاری زبان استعمال نہیں کرتے تو ایسے شخص کو اپنا دماغی معاءنہ کرانے کی ضرورت ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ میں نے یہ ویڈیو دیکھی، اس پہ ہنسا، اور آگے بڑھ گیا۔ اس ویڈیو کو دیکھنے سے میرے ذہن میں مذکورہ شخص کی عزت نہ کم ہوءی اور نہ زیادہ۔ مگر آج ایک ایسی ویڈیو دیکھی جس میں ان صاحب نے زور دے کر کہا ہے کہ مغلظات والی مذکورہ ویڈیو جعلی ہے اور اس نقلی ویڈیو میں دراصل ان صاحب کی آواز بنا کر فحش گفتگو کی گءی ہے۔ میرے نزدیک اب "معاملہ نازک ہے"۔ میری اقدار میں فحش گفتگو کرنا اس قدر ناپسندیدہ بات نہیں ہے جس قدر ناپسندیدہ بات جھوٹ بولنا ہے۔ اب ضرورت ہے صحافیانہ جستجو کی اور یہ جانچنے کی کہ آیا یہ صاحب واقعی دودھ کے دھلے ہیں کہ ان کے منہ سے کوءی عامیانہ بات نہیں نکلتی، یا پھر یہ صاحب بازاری گفتگو کرنے میں عام مردوں جیسے ہیں مگر ساتھ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔ اور یہ صحافیانہ ذمہ داری پوری کرنا مشکل کام ہرگز نہیں نہیں ہے۔ مغلظات والی ویڈیو میں کءی جگہ اسٹوڈیو میں میزبان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو دکھایا گیا ہے۔ ان لوگوں سے رابطہ کر کے بات کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اب دیکھیں کون یہ اہم کام کرتا ہے۔

(اوپر انگریزی کے ٹاءٹل میں غلطی نہیں ہے، جان بوجھ کر عالم کو عامل لکھا گیا ہے کیونکہ مجھے یہ صاحب جادو ٹونے والے عامل ہی نظر آتے ہیں۔)

علم آن لاءن کی تصویر بشکریہ جیو ٹی وی
لندن بلوے کی تصویر بشکریہ
http://news.m3n4.com

Labels: , , ,


Tuesday, August 02, 2011

 

افتی نسیم





افتی نسیم


افتی نسیم کو دل کا دورہ پڑا اور وہ دو دن میں چٹ پٹ ہو گءے۔ افتی نسیم جب تک زندہ رہے مولوی کی پکڑ سے بچتے رہے اور اپنی کوشش میں کامیاب رہے مگر زندگی کی بازی ہارنے کے بعد روایتی مذہب کے جال میں پھنس گءے۔ ان کی نماز جنازہ ہوءی اور وہ شکاگو کے ایک قبرستان میں دفن ہوءے۔
افتی نسیم کی موت کے بعد ان کی یاد میں کءی اچھے تعزیتی مضامین سامنے آءے۔ ایسے مضامین میں مرحوم سے اپنے دیرینہ تعلقات کا حوالہ دیا جاتا ہے اور پھر مضمون میں وقفے وقفے سے معروف لوگوں کے ناموں کا چھڑکاءو کیا جاتا ہے جس سے قاری کو مرحوم کے ساتھ ساتھ مصنف یا مصنفہ کی شہرت کے بارے میں بھی یقین ہوجاتا ہے۔ میں نے ان مضامین کو غور سے پڑھا مگر کءی مضامین پڑھ کر مجھے خیال ہوا کہ جیسے ان تحریروں میں افتی نسیم کی ایک خاص بات کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کہ اپنی جس اصلیت پہ افتی نسیم کو شرمندگی نہیں تھی اس پہ مضمون نگار شرمندہ ہے۔ افتی نسیم کی شہرت صرف اس وجہ سے نہیں تھی کہ وہ ایک اچھے شاعر تھے بلکہ ان کی شہرت اس وجہ سے تھی کہ وہ اردو کے ایک امرد پرست اچھے شاعر تھے۔ بہت سے لوگوں کو افتی نسیم کی شاعری پسند تھی مگر وہ افتی نسیم کی امرد پرستی سے نالاں تھے۔ افتی نسیم ببانگ دہل اپنی امرد پرستی کا اظہار کرتے تھے اور اپنے احباب اور مسلمان کیمونٹی کے ان لوگوں پہ ترس کھاتے تھے جو نہ جانے کس زمانے کے اخلاقی اقدار میں پھنسے ہیں اور ہم جنس پرست سمیت ان تمام لوگوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں جو دنیا والوں کے " اعلی اخلاقی اقدار" پہ پورے نہیں اترتے۔ افتی نسیم جب تک پاکستان میں تھے اپنی "عجیب و غریب" اندرونی خواہشات پہ شرمندہ تھے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان کا جنسی میلان ان کے ہم عمر دوسرے لڑکوں جیسا کیوں نہیں ہے۔ مگر امریکہ پہنچنے پہ، مغرب کے ہم جنس پرستوں کی بے باکی اور پراعتمادی دیکھنے پہ، افتی نسیم کو سمجھ میں آگیا کہ من کے اندر جو کچھ ہے اس کو چھپانے کا کیا فاءدہ۔ ہر قسم کی اخلاقی اقدار، بمشول وہ جو جنس سے متعلق ہیں، وقت کےساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں، تو پھر ایک خاص زمانے میں چند لوگوں کی اقدار سے زبردستی نباہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اور یوں افتی نسیم چوبارے یعنی کلوزٹ سے باہر آگءے۔ انہوں نے برملا اپنی امرد پرستی کا اعلان کیا اور زمانے کو بتلایا کہ وہ ایک ڈھکوسلے کی زندگی نہیں جینا چاہتے جس میں وہ بھیڑ بکریوں کی طرح زمانے کی اخلاقی اقدار کی مار پہ چلتے رہیں۔
ہم میں سے اکثر لوگ موت کی اس شکل سے آشنا ہیں جس میں موت رفتہ رفتہ آتی ہے۔ کہ پہلے ایک شخص کسی طور سے بیمار پڑتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ روگ جان لیتا جاتا ہے حتی کہ ایک روز زندگی کا ٹمٹماتا دیا بالکل بجھ جاتا ہے۔ افتی نسیم کی موت اچانک تھی۔ وہ اپنی پوری تواناءی کے ساتھ زندہ تھے اور پھر تیز روشنی دینے والا یہ دیا ایک روزاچانک بجھ گیا۔ افتی نسیم کی ناگہانی موت سے جہاں ان کے بہت سے دوستوں اور قدردانوں کو دھچکا پہنچا وہیں یار لوگوں کو زندگی کی بے ماءیگی کا سبق ایک دفعہ پھر ازبر ہوگیا۔ اکثر لکھنے والے اپنے شعور اور اپنی بصیرت کے بارے میں بلند خیالات رکھتے ہیں، یہ الگ بات کہ وہ محمد اقبال جیسی تعلی تک نہیں پہنچتے کہ خدا سے گڑگڑا کر دعا کریں کہ، میرا نور بصیرت عام کردے۔ ہر لکھنے والے کے ذہن میں ایک خاکہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندر کی آواز، اپنے اندر کی روشنی اس طور سے نکال کر دنیا کے سامنے رکھے گا۔ بہت سے لوگ اس کام کو ٹالتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو بہلاتے رہتے ہیں کہ ایک دن جب انہیں فرصت ملے گی وہ کاغذ پہ وہ سب کچھ لکھ دیں گے جو وہ واقعی لکھنا چاہ رہے ہیں۔ افتی نسیم کی اچانک موت نے ہر لکھنے والے کو یہ پیغام دیا ہے کہ کل پہ کچھ نہ ٹالو، کل کس نے دیکھی ہے۔ نڈر بن کر جیو اور جو دل میں ہے اسے آج ہی کاغذ پہ منتقل کر کے دنیا کے سامنے پہنچا دو۔




Labels: , , , , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?