Tuesday, August 02, 2011

 

افتی نسیم





افتی نسیم


افتی نسیم کو دل کا دورہ پڑا اور وہ دو دن میں چٹ پٹ ہو گءے۔ افتی نسیم جب تک زندہ رہے مولوی کی پکڑ سے بچتے رہے اور اپنی کوشش میں کامیاب رہے مگر زندگی کی بازی ہارنے کے بعد روایتی مذہب کے جال میں پھنس گءے۔ ان کی نماز جنازہ ہوءی اور وہ شکاگو کے ایک قبرستان میں دفن ہوءے۔
افتی نسیم کی موت کے بعد ان کی یاد میں کءی اچھے تعزیتی مضامین سامنے آءے۔ ایسے مضامین میں مرحوم سے اپنے دیرینہ تعلقات کا حوالہ دیا جاتا ہے اور پھر مضمون میں وقفے وقفے سے معروف لوگوں کے ناموں کا چھڑکاءو کیا جاتا ہے جس سے قاری کو مرحوم کے ساتھ ساتھ مصنف یا مصنفہ کی شہرت کے بارے میں بھی یقین ہوجاتا ہے۔ میں نے ان مضامین کو غور سے پڑھا مگر کءی مضامین پڑھ کر مجھے خیال ہوا کہ جیسے ان تحریروں میں افتی نسیم کی ایک خاص بات کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کہ اپنی جس اصلیت پہ افتی نسیم کو شرمندگی نہیں تھی اس پہ مضمون نگار شرمندہ ہے۔ افتی نسیم کی شہرت صرف اس وجہ سے نہیں تھی کہ وہ ایک اچھے شاعر تھے بلکہ ان کی شہرت اس وجہ سے تھی کہ وہ اردو کے ایک امرد پرست اچھے شاعر تھے۔ بہت سے لوگوں کو افتی نسیم کی شاعری پسند تھی مگر وہ افتی نسیم کی امرد پرستی سے نالاں تھے۔ افتی نسیم ببانگ دہل اپنی امرد پرستی کا اظہار کرتے تھے اور اپنے احباب اور مسلمان کیمونٹی کے ان لوگوں پہ ترس کھاتے تھے جو نہ جانے کس زمانے کے اخلاقی اقدار میں پھنسے ہیں اور ہم جنس پرست سمیت ان تمام لوگوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں جو دنیا والوں کے " اعلی اخلاقی اقدار" پہ پورے نہیں اترتے۔ افتی نسیم جب تک پاکستان میں تھے اپنی "عجیب و غریب" اندرونی خواہشات پہ شرمندہ تھے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان کا جنسی میلان ان کے ہم عمر دوسرے لڑکوں جیسا کیوں نہیں ہے۔ مگر امریکہ پہنچنے پہ، مغرب کے ہم جنس پرستوں کی بے باکی اور پراعتمادی دیکھنے پہ، افتی نسیم کو سمجھ میں آگیا کہ من کے اندر جو کچھ ہے اس کو چھپانے کا کیا فاءدہ۔ ہر قسم کی اخلاقی اقدار، بمشول وہ جو جنس سے متعلق ہیں، وقت کےساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں، تو پھر ایک خاص زمانے میں چند لوگوں کی اقدار سے زبردستی نباہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اور یوں افتی نسیم چوبارے یعنی کلوزٹ سے باہر آگءے۔ انہوں نے برملا اپنی امرد پرستی کا اعلان کیا اور زمانے کو بتلایا کہ وہ ایک ڈھکوسلے کی زندگی نہیں جینا چاہتے جس میں وہ بھیڑ بکریوں کی طرح زمانے کی اخلاقی اقدار کی مار پہ چلتے رہیں۔
ہم میں سے اکثر لوگ موت کی اس شکل سے آشنا ہیں جس میں موت رفتہ رفتہ آتی ہے۔ کہ پہلے ایک شخص کسی طور سے بیمار پڑتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ روگ جان لیتا جاتا ہے حتی کہ ایک روز زندگی کا ٹمٹماتا دیا بالکل بجھ جاتا ہے۔ افتی نسیم کی موت اچانک تھی۔ وہ اپنی پوری تواناءی کے ساتھ زندہ تھے اور پھر تیز روشنی دینے والا یہ دیا ایک روزاچانک بجھ گیا۔ افتی نسیم کی ناگہانی موت سے جہاں ان کے بہت سے دوستوں اور قدردانوں کو دھچکا پہنچا وہیں یار لوگوں کو زندگی کی بے ماءیگی کا سبق ایک دفعہ پھر ازبر ہوگیا۔ اکثر لکھنے والے اپنے شعور اور اپنی بصیرت کے بارے میں بلند خیالات رکھتے ہیں، یہ الگ بات کہ وہ محمد اقبال جیسی تعلی تک نہیں پہنچتے کہ خدا سے گڑگڑا کر دعا کریں کہ، میرا نور بصیرت عام کردے۔ ہر لکھنے والے کے ذہن میں ایک خاکہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندر کی آواز، اپنے اندر کی روشنی اس طور سے نکال کر دنیا کے سامنے رکھے گا۔ بہت سے لوگ اس کام کو ٹالتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو بہلاتے رہتے ہیں کہ ایک دن جب انہیں فرصت ملے گی وہ کاغذ پہ وہ سب کچھ لکھ دیں گے جو وہ واقعی لکھنا چاہ رہے ہیں۔ افتی نسیم کی اچانک موت نے ہر لکھنے والے کو یہ پیغام دیا ہے کہ کل پہ کچھ نہ ٹالو، کل کس نے دیکھی ہے۔ نڈر بن کر جیو اور جو دل میں ہے اسے آج ہی کاغذ پہ منتقل کر کے دنیا کے سامنے پہنچا دو۔




Labels: , , , , , , ,


Comments:
From C.M. Naim

Biradaram,

Today I chanced upon your Urdu blog and then on what you wrote concerning Iftikhar Nasim. I congratulate you for expressing your concerns in re some of the columns written about him. Intizar Sahib's was the worst. I wrote a brief response and sent it for publication, but don't know if it was. Amjad Islam Amjad, in my view, was more sincere. In any case, you rightly pointed out that Ifti was not ashamed and so should not be his friends and admirers. His social and political activism was not cut off from his gay activism.

Allow me to make one suggestion. You should not confuse 'amrad-parasti' with 'ham'jinsi'. Look up the word amrad in any dictionary and the difference would become clear. Ifti was not an amrad-parast. His life-companion is close to seventy, not seventeen.

Anyhow, it was good to read your piece.

all the best,
naim
 
محترم سی ایم نعیم صاحب
آداب
آپ کا نامہ گرامی موصول ہوتا ہے تو دل خوش ہو جاتا ہے۔
افتی نسیم پہ لکھی جانے والی نگارش میں امرد پرستی کے استعمال پہ آپ کی تنقید درست ہے۔ مگر پرانے الفاظ کو نءے معنی پہنانے کی لہر بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اسی ترقی پسند سوچ کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں۔ کوشش ہے کہ نءے استعمال میں بچہ باز کی اصطلاح پرانی امرد پرست کی اصطلاح کے معنی میں رہے اور امرد پرستی کی اصطلاح انگریزی کے گے طرز زندگی کے خیال سے ہم آہنگ ہو جاءے۔ جب تک ان الفاظ کے استعمال سے متعلق یہ روایت مضبوط نہیں ہو جاتی ناقدین کا اس استعمال پہ اعتراض بجا رہے گا۔

سمندطور

اگر آپ کے خط کا متعلقہ حصہ اور اوپر دیے جانے والے جواب کا متعلقہ حصہ اپنے بلاگ پہ نقل کردوں تو امید ہے کہ آپ کو اعتراض نہ ہوگا۔
 
سی ایم نعیم صاحب لکھتے ہیں۔

برادرم

پرانے الفاظ کو نئے معنی پہنانا نیک کام ھے، لیکن پرانے الفاظ کو زندہ رکھنا بھی اتنا ھی نیک ھے، خاص طور پر جبکہ انکا استعمال مسلسل ھوتا رھا ھو۔ یہ صورت لفظ امرد پرستی کی بھی ھےـ لفظ امرد بھی پرانے معنی میں استعمال ھوتا ھےے۔ دوسری بات یہ ھے کہ لغت میں بچہ اور امرد میں فرق کیا جاتا ھے۔ بچہ باز اردو میں میری نظر سے نہیں گذرا۔ آپ شاید فارسی یا پشتو سے اسے لاکر اردو میں مستعمل کرنا چاھتے ھیں ۔ تیسری توجہ طلب بات یہ ھے کہ لاحقہ ،پرست۔ اردو میں عام طور سے ایسے الفاظ میں لاتے ھیں جن سے کسی طرح کی تضحیک مقصود ھو۔ مثلاً آپ کو میں ترقی پسند کہوں تو آپ برا نہ مانیں گے، لیکن ترقی پرست کہوں تو ضرور شکایت کریں گے۔ اسی لیے میں ھم جنس پسند استعمال کرونگا۔ ویسے میرے نزدیک اردو میں لفظ ؛گے؛ ھی ستعمال کرنا چاھیے۔ آگے جو آپ کی مرضی ۔

خدا حافظ، نعیم
 
محترم سی ایم نعیم صاحب
آداب
آپ اردو کے عالم ہیں اور میں محض لفظ گھسیٹیا۔ آپ سے علم حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اس لیے میرے درج ذیل جواب کو اسی تناظر میں دیکھیے گا۔
یقینا بہت سے لوگ لفظ امرد پرانے معنی میں استعمال کرتے ہیں مگر احقر بہت سے لوگوں میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ بازاری اردو میں لفظ بچہ باز اور لفظ لونڈے باز کا استعمال عام ہے۔ خواہش ہے اور اپنے طور پہ پوری کوشش رہے گی کہ جدید اردو میں ان دونوں الفاظ ،بچہ باز اور لونڈے باز، کے وہی معنی لیے جاءیں جن کا تاثر ان الفاظ سے ملتا ہے۔ لفظ امرد پرستی کو جدید دور کی ہم جنس پرستی کے مردانہ مظہر کے طور پہ سمجھا جاءے۔
جہاں تک لاحقہ، پرست یا پرستی کے استعمال کا سوال ہے، کءی جگہ اس کا استعمال تضحیک کے رویے میں ہوتا ہے اور بہت سی جگہ اس لاحقے کا استعمال محض اور سادہ طور پہ پرستش یا پوجا کی صفت ظاہر کرتاہے۔ مثلا اگر میں کہوں کہ شاعر حسن پرست ہوتے ہیں تو اس میں نہ تو کوءی تضحیک کا پہلو ہے اور نہ ہی کوءی شاعر اس بات کا برا مناءے گا۔ اسی طرح کسی کو بت پرست کہنے میں بھی کوءی حقارت کا پہلو نہیں ہے۔
نیازمند
سمندطور
 
اردو ایک ایسی زبان جس کانہ ہی کوئ اپنا. لفظ ہے نہ ہی اپنی بنیاد نہ ہی اپنا فولک نہ ہی اپنا لب ولہجہ. اصل الفاظ کی بگڑی یوئ شکل. جو پاکستان کی دھرتی کی اصل زبانوں کا حق مار کر ترقی کر رہی ہے. کسی بھی زبان کا کوئ لفظ ہو تو اسے آپ اردو تو نہ کہیے اردو آپ ترقی زبان کا لفظ ہے ہاہاہا.کیا بات ہےبھلا یہ بھی کوئ زبان ہے
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?