Thursday, August 18, 2011

 

Amil Online is a Jahil Offline


انگلستان کے بلوے، عالم آن لاءن

بہت سے لوگوں کے لیے انگلستان میں ہونے والے حالیہ بلوے ایک اچھوتی بات تھی۔ اس موضوع پہ ایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ انگلستان تو اس قدر مہذب ملک خیال کیا جاتا ہے پھر وہاں کے لوگ اس طرح توڑ پھوڑ کیوں کر رہے ہیں۔ مجھ جیسے عمرانیات کے طلبا کے لیے ایسے واقعات جن میں کسی معاشرے کی رواءیت سے ہٹ کر کام کیے جاءیں، تعلیم کا پہلو رکھتے ہیں۔ انگلستان کے فسادات لندن کے ٹوٹن ہیم نامی علاقے سے شروع ہوءے جہاں پولیس نے مارک ڈگن نامی انتیس سالہ شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ مارک کے پاس آتشیں ہتھیار تھا جس سے اس نے پولیس پہ فاءر کیا تھا۔ ٹوٹن ہیم کے لوگ پولیس کے بیان سے متفق نہیں تھے اور ان کا خیال تھا کہ پولیس نے بےگناہ ڈگن کو محض اپنی نفرت سے اس ظلم کا نشانہ بنایا ہے۔ ہنگامہ آراءی ٹوٹن ہیم سے شروع ہوءی اور پھر یہ بلوے دوسرے علاقوں تک پھیل گءے۔ ان بلووں میں ان لوگوں نے شرکت کی جو غریب تھے ، ان میں سے بیشتر بے روزگار بھی تھے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ لوگ ایک معاشرے میں کس طرح ساتھ رہتے ہیں، انسان کا دوسرے انسانوں سے کیا رشتہ ہوتا ہے؟ موجودہ دور میں جب بہت مختلف نسلوں، اعتقادات، اور زبانوں کے لوگ ایک ساتھ کسی شہر میں رہتے ہیں تو ان کے درمیان سب سے بڑا اور مستحکم رشتہ معاشی ہوتا ہے۔ اس بات کی اہمیت ہوتی ہے کہ کسی انسان کو اپنے ہم شہروں سے مادی طور پہ کیا مل رہا ہے اور کیا ملنے کی امید ہے۔ جب لوگوں کے ایک گروہ کو کسی نظام سے کوءی مادی فاءدہ نہ پہنچ رہا ہو، تو اس نظام کی تباہی میں انہیں کوءی نقصان بھی نظر نہیں آتا۔ اور خاص طور سے اس وقت جب مفلوک گروہ کا متمول گروہ کے ساتھ نسلی، مذہبی، یا لسانی رشتہ گہرا نہ ہو۔ مثلا اگر یہی صورتحال جاپان میں ہو کہ بہت سے لوگ بے روزگار اور مصیبت زدہ ہوں اور کسی وجہ سے انہیں خیال ہو کہ مراعات یافتہ گروہ ان پہ ظلم کر رہا ہے تو اس خیال کے باوجود مفلوک الحال گروہ مراعایات یافتہ گروہ پہ ہلہ نہیں بول دے گے کیونکہ ان لوگوں کو آپس کے گہرے نسلی تعلق کا احساس ہوگا۔

مگر اس بات کو بیان کرنے کا مقصد یہ باور کرانا ہرگز نہیں ہے کہ مختلف نسل، مذہب، اور زبان کے لوگ ایک ساتھ امن سے نہیں رہ سکتے۔ موجودہ عہد میں جب سرمایہ اور دماغ تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں، کثیرالتہذیبی یا ملٹی کلچرل معاشرہ جگہ جگہ وجود میں آتا ہے اور آءے گا۔ لندن کے فسادات نے ثابت کیا ہے کہ معاشرے کے سب لوگوں کو مل کر کوشش کرنی ہے کہ ان کے شہر میں معاشی ناہمواری کم سے کم ہو اور ایسا وقت نہ آءے کہ کوءی گروہ یہ محسوس کرے کہ اسے دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ بہت سے بھوکے لوگوں کے درمیان طشتری بھر کر کھانا کھانے میں کوءی فخر کا پہلو نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے۔

آج ہماری دنیا ایک مشکل معاشی دور سے گزر رہی ہے۔ کساد بازاری کے اس ماحول میں جمہوری معاشروں میں لوگ حکومت پہ زور ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے اخراجات کم کرے۔ امریکہ میں ٹی پارٹی کے لوگ مطالبے کر رہے ہیں کہ حکومت بےروزگاروں کی مدد، ناداروں کے مفت علاج وغیرہ پہ رقم ضاءع نہ رکے۔ انگلستان کے بلووں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کسی بھی گروہ سے سب کچھ چھین لینا ایک انتہاءی خطرناک صورتحال کو جنم دیتا ہے۔ اگر انگلستان کی طرح امریکہ میں بھی فلاحی کاموں میں بڑے پیمانے پہ کٹوتی کی گءی تو یہاں کے بڑے شہروں میں بھی لندن کے طور پہ فسادات ہو سکتے ہیں۔

عالم آن لاءن

پاکستان کا ایک مقبول ٹی وی پروگرام عالم آن لاءن ہے۔ اس پروگرام کی میزبانی عامر لیاقت حسین نامی ایک صاحب کرتے ہیں۔ دو دن پہلے ایک ایسی ویڈیو سامنے آءی جس میں ان صاحب کواسٹوڈیو میں مختلف موقعوں پہ مغلظات بکتے ہوءے دکھایا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ ویڈیو دیکھ کر شاید دھچکا پہنچا ہو مگر مجھے یہ ویڈیو دیکھ کر کوءی خاص تعجب نہیں ہوا۔ اس ویڈیو میں میزبان جو عامیانہ اور بازاری زبان استعمال کر رہے ہیں وہ کراچی میں عام طور سے استعمال ہوتی ہے اور مردانہ محفلوں میں اس زبان کے بلاتکلف استعمال پہ کوءی معترض نہیں ہوتا۔ اگر کسی نادان کا خیال تھا کہ ٹی وی پہ آنے والے لوگ عام معاشرتی رجحانات سے بالاتر ہوتے ہیں اور بازاری زبان استعمال نہیں کرتے تو ایسے شخص کو اپنا دماغی معاءنہ کرانے کی ضرورت ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ میں نے یہ ویڈیو دیکھی، اس پہ ہنسا، اور آگے بڑھ گیا۔ اس ویڈیو کو دیکھنے سے میرے ذہن میں مذکورہ شخص کی عزت نہ کم ہوءی اور نہ زیادہ۔ مگر آج ایک ایسی ویڈیو دیکھی جس میں ان صاحب نے زور دے کر کہا ہے کہ مغلظات والی مذکورہ ویڈیو جعلی ہے اور اس نقلی ویڈیو میں دراصل ان صاحب کی آواز بنا کر فحش گفتگو کی گءی ہے۔ میرے نزدیک اب "معاملہ نازک ہے"۔ میری اقدار میں فحش گفتگو کرنا اس قدر ناپسندیدہ بات نہیں ہے جس قدر ناپسندیدہ بات جھوٹ بولنا ہے۔ اب ضرورت ہے صحافیانہ جستجو کی اور یہ جانچنے کی کہ آیا یہ صاحب واقعی دودھ کے دھلے ہیں کہ ان کے منہ سے کوءی عامیانہ بات نہیں نکلتی، یا پھر یہ صاحب بازاری گفتگو کرنے میں عام مردوں جیسے ہیں مگر ساتھ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔ اور یہ صحافیانہ ذمہ داری پوری کرنا مشکل کام ہرگز نہیں نہیں ہے۔ مغلظات والی ویڈیو میں کءی جگہ اسٹوڈیو میں میزبان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو دکھایا گیا ہے۔ ان لوگوں سے رابطہ کر کے بات کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اب دیکھیں کون یہ اہم کام کرتا ہے۔

(اوپر انگریزی کے ٹاءٹل میں غلطی نہیں ہے، جان بوجھ کر عالم کو عامل لکھا گیا ہے کیونکہ مجھے یہ صاحب جادو ٹونے والے عامل ہی نظر آتے ہیں۔)

علم آن لاءن کی تصویر بشکریہ جیو ٹی وی
لندن بلوے کی تصویر بشکریہ
http://news.m3n4.com

Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?