Tuesday, December 20, 2011

 

امراءو طارق، زرداری کی علالت، ، اور نشتر پارک




دسمبر گیارہ، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ترسٹھ



امراءو طارق، زرداری کی علالت، اور نشتر پارک

علی حسن سمندطور

میرے استاد، میرے محسن، امراءو طارق علالت کے کءی سال گزارنے کے بعد دسمبر آٹھ کو دنیا سے کوچ کر گءے۔ میرا دل بجھ گیا۔ نوے کی دہاءی کے وسط میں انجمن ترقی اردو کے دفتر میں امراءو طارق کا کمرہ کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں میری درس گاہ تھی۔ "تم سرشار صدیقی سے ضرور ملو اور ان سے اپنی کتاب پہ تبصرہ لو"، وہ مختلف اہل قلم کے نام گنواتے اور پھر ساتھ ہی اپنی ٹیلی فون ڈاءری اٹھاتے اور مجھے بتلاءے گءے لوگوں کے فون نمبر لکھواتے۔ امراءو طارق کے توسط ہی سے میں فردوس حیدر، ڈاکٹر یونس حسنی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، سحر انصاری، سرشار صدیقی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، اور ڈاکٹر ممتاز احمد خان جیسے نقاد اور سخنوران سے ملا۔ چند ماہ پہلے مجھ تک امراءو طارق کی علالت کی اطلاع پہنچ چکی تھی۔ میرا ارادہ تھا کہ اب کی دفعہ کراچی گیا تو اپنے محسن کی تیمارداری کروں گا اور ساتھ ہی ان پہ ایک مختصر فلم بناءوں گا۔ مگر سارے ارادے دھرے دھرے کے رہ گءے اور وہ عمدہ قلمکار اور شفیق استاد اس دنیا سے آگے بڑھ گیا۔ امراءو طارق کے انتقال کی خبر سننے کے بعد میں اب تک کف افسوس مل رہا ہوں کہ کاش مجھے ان کے ساتھ گزارنے کے لیے کچھ اور وقت مل جاتا۔ ایک خوش خیال دل میں رکھتا ہوں کہ شاید موت ایک ایسا دروازہ ہے جس سے گزر کر انسان بلند آگہی کی ایک ایسی منزل تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے اس کاءنات کے وہ بہت سے راز و اسرار جو دنیاوی زندگی میں سمجھ نہیں آءے ہوتے اچانک آشکار ہو جاتے ہیں۔
پچھلے ہفتے آصف علی زرداری غیر متوقع طور پہ دبءی پہنچے تو پاکستانی میڈیا طرح طرح کی افواہوں سے بھر گیا۔ ٹی وی پہ بہت سے ایسے 'صحافی' ہیں جو زرداری سے بلا کا بغض رکھتے ہیں؛ زرداری کی علالت سے ان لوگوں کے دلوں میں لڈو پھوٹنے لگے اور انہوں نے قیاس آراءی کہ کہ بس اب زرداری مستعفی ہوا ہی چاہتے ہیں۔ آصف علی زرداری خراب شہرت کے مالک ہیں۔ بد اچھا، بدنام برا۔ چنانچہ زرداری سے کسی قسم کی ہمدردی رکھنا ذرا مشکل کام ہے مگر زرداری سے وفاداری نہ رکھنے کے باوجود جمہوری عمل سے وفاداری رکھنی چاہیے اور اس بلند تر وفاداری کے تحت سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور اگلے انتخابات ٹھیک وقت پہ ہوں۔ جہموریت کی گاڑی ایک دفعہ چل پڑی اور جمہوری ادارے مضبوط ہو گءے تو رفتہ رفتہ کر کے چیزیں صحیح ڈگر پہ آنا شروع ہو جاءیں گی۔ مگر ایک شخص سے بغض رکھ کر اس بات کی خواہش اور کوشش کرنا کہ حکومت ختم ہو جاءے اور غیر جمہوری ادارے ملک کا نظام سنبھال لیں، انتہاءی حماقت کی بات ہے۔
اگلے انتخابات کی بات آءی ہے تو اس پچیس دسمبر کو کراچی میں ہونے والے عمران خان کے جلسے کا تذکرہ نہ کرنا ممکن نہی ہے۔ خبر ہے کہ عمران خان کا یہ جلسہ نشتر پارک میں ہوگا اور اس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ پچھلے کالم میں جلسے جلوسوں کے حوالے سے پاکستان کے موجودہ حالات کے حساب سے لاحق خطرات کے متعلق لکھا تھا۔ اسی سلسلے میں آج جلسے جلوسوں کے ایک اور پہلو کے متعلق بات کرنا چاہوں گا۔ امید ہے کہ نشتر پارک کے جلسے کی تیاریوں میں تحریک انصاف کے کارکنان صرف اپنے قاءد عمران خان کی حفاظت ہی پہ توجہ نہیں دے رہے ہوں گے بلکہ شرکا کی حفاظت کی طرف بھی دھیان دے رہے ہوں گے۔ ہمارا ملک جس کم تر شرح خواندگی کا حامل ہے اس کا مظاہرہ سڑکوں پہ، بازاروں میں، اور ہر رش کی جگہ پہ بار بار نظر آتا ہے۔ ہم قطار بنانے کے عادی نہیں ہیں اور جھمگٹا لگا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ عمران خان کے لاہور کے جسلے سے متعلق ایک شکایت سننے میں آءی تھی کہ جلسے میں پہلے آنے والے لوگ پھنس کر رہ گءے تھے۔ یعنی اگر جلسہ گاہ کے درمیان میں موجود ایک شخص کسی وجہ سے نکلنا چاہتا تو وہاں سے باہر نکلنے کا کوءی طریقہ نہ تھا۔ یہ بہت تشویشناک بات ہے۔ زیادہ لوگوں کے مجمعے میں اس بات کی گنجاءش ہونی چاہیے کہ اگر کسی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہو تو نہ صرف یہ کہ لوگوں کے بیچوں میں بیچ موجود ایک شخص تک ہنگامی امداد پہنچاءی جا سکے بلکہ اگر کسی وجہ سے جلسہ گاہ اچانک خالی کرنا پڑے تو لوگ تمیز سے بغیر بھگدڑ مچاءے باہر نکل سکیں۔ جہاں جہاں بڑے مجمعے میں ان بنیادی باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا وہاں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ مجمعے میں بھگدڑ سے لوگ زخمی یا ہلاک ہو جاءیں گے۔ عمران خان کیونکہ تحریک انصاف چلا رہے ہیں اس لیے انہیں چاہیے کہ اس تحریک کے نام کا خیال رکھتے ہوءے اپنے کارکنوں کو نظم و ضبط کی تربیت دیں۔ عمران خان بریڈفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں، انہوں نے دنیا دیکھی ہے اور یقینا اس بات کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ مغرب میں کھیلوں کے مقابلوں یا موسیقی کے کانسرٹ کے موقع پہ جمع ہونے والوں کو کس طرح نظم و ضبط سے ایک دوسرے سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ امید ہے کہ عمران خان نے اپنے کارکنوں کو اس بات کی تعلیم دی ہوگی کہ جلسہ گاہ میں چونے سے قطاریں بناءی جاءیں۔ ایک صف میں بیس لوگوں سے زیادہ نہیں کھڑے ہوں، آگے پیچھے دو صفوں کے درمیان تین فٹ کا فاصلہ ہو اور برابر برابر دو صفوں کے درمیان پانچ فٹ چوڑی راہ داری ہو تاکہ کسی بھی صف سے کوءی شخص نکل کر جلسہ گاہ سے باہر نکل سکے یا اس تک ہنگامی امداد پہنچاءی جا سکے۔

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?