Tuesday, December 20, 2011
فوجی مداخلت، نامنظور
میمو گیٹ نامی جھوٹا طوفان کا زور پاکستان میں تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ دراصل اس طوفان کو کھڑا کرنے والے وہ مخصوص لوگ ہیں جو پی پی پی سے عمومی اور آصف علی زرداری سے خصوصی عناد رکھتے ہیں۔ پاکستان ٹی وی میڈیا میں شامل چند نام نہاد صحافی میموگیٹ پہ مستقل تبصرہ کر رہے ہیں۔ چنانچہ جب زرداری کسی وجہ سے پاکستان سے دبءی پہنچے تو انہیں صحافیوں نے شور مچا دیا کہ زرداری ملک سے فرار ہو گءے ہیں۔ یہ افواہ اڑاءی گءی کہ زرداری استعفی دینے والے ہیں اور اب وہ واپس پاکستان قدم بھی نہیں رکھیں گے۔ پچھلے کالم میں اس بارے میں بات ہوءی تھی کہ اگر فوج کے زور پہ زرداری سے استعفی لیا گیا تو ایسا عمل پاکستان میں جمہوریت کے لیے مضر ہوگا۔ آج اسی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
کہی بات کا اثر ہوتا ہے اور اسی لیے ذراءع ابلاغ اپنے اندر زبردست طاقت رکھتے ہیں۔ وہ جس طرح حالات کا نقشہ پیش کرتے ہیں، بہت سے لوگ اس نقشے کو من و عن قبول کر لیتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانی میڈیا کے چند غیرذمہ دار صحافیوں نے میموگیٹ کے حوالے سے جو شور مچایا اس کا اثر ان لوگوں نے قبول کیا جو مستقل پاکستانی ٹی وی دیکھتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہمارے ایک دوست نے جو پاکستان کے سیاسی حالات پہ گہری نظر رکھتے ہیں جب اپنے سر کو داءیں باءیں ہلا کر ہمیں بتایا کہ بس اب حکومت گءی تو ہم نے پوچھا کہ ان کی یہ بات ایک پیش گوءی ہے یا دلی خواہش؟ آخر اچھے بھلے، پڑھے لکھے لوگ ایسی خواہش کیوں رکھتے ہیں کہ پاکستانی فوج ڈنڈے کے زور پہ جس منتخب نماءندے کو چاہے چلتا کرے؟ اچھا یہ ہوا کہ جب جمہوریت مخالف قوتوں نے میموگیٹ کے جھوٹے طوفان کا زیادہ شور مچایا تو بالاخر دوسری طرف کے لوگ بھی کھڑے ہوءے۔ محنت کشوں کے نماءندوں اور دانشوروں نے کل ایک بیان کے ذریعے باور کیا کہ پاکستان کےعام لوگ جمہوری عمل کی رکاوٹ میں کسی بھی فوجی مہم جوءی کو برداشت نہیں کریں گے۔ اور اب تھوڑی دیر پہلے خبر آءی ہے کہ آصف علی زرداری واپس کراچی پہنچ گءے ہیں۔ زرداری کی واپس پاکستان آمد سے یقینا میڈیا میں شامل بہت سے لوگوں کے منہ لٹک گءے ہوں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ زرداری یا تو یونہی صدارت کی کرسی پہ موجود رہیں گے، یا اگر انہیں کرسی سے ہٹانے کی کوشش کی گءی تو وہ جمہوری عمل سے کی جاءے گی نا کہ فوج کے ڈنڈے کے زور پہ۔ امید ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت کو بھی یہ بات سمجھ میں آچکی ہوگی کہ وہ زمانے گزر گءے جب پاکستانی فوج کی جمہوری حکومت سے بغاوت پہ چند لوگ خوشیاں مناتے تھے اور بازاروں میں مٹھاءیاں تقسیم کرتے تھے۔ پاکستانی فوج پاکستانی حکومت کے بہت سے اداروں میں سے ایک ادارہ ہے۔ اس ایک ادارے کو ہرگز یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے طور پہ فیصلہ کرے کہ پاکستان کے 'وسیع تر مفاد' میں کیا ہے اور کیا نہیں۔
میموگیٹ کا طوفان جھوٹا طوفان کیوں ہے؟ اس لیے کہ منصور اعجاز کے توسط سے منظر عام پہ آنے والے اس میمو میں کوءی جان نہیں ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حسین حقانی اور زرداری تو براہ راست امریکی فوجی قیادت سے ملتے رہے ہیں؛ وہ اتنی اہم بات کہنے کے لیے منصور اعجاز کا سہارا کیوں لیں گے اور براہ راست یہ بات امریکی چیف آف اسٹاف سے کیوں نہیں دیں گے؟ دوسرا سوال یہ کہ آخر امریکی فوج کا پاکستانی فوج پہ کیا زور چلتا ہے۔ کیا امریکی فوج پاکستانی فوج کی قیادت کے بازو مروڑ کر اسے اس بات پہ راضی کر سکتی ہے کہ وہ عوامی حکومت کی بالادستی کو قبول کرے اور اس کے سامنے چوں بھی نہ کرے؟ اور سب سے آخری سوال یہ کہ کیا حسین حقانی اور زرداری کو یہ حقیقت اظہرمن الشمس نظر نہیں آرہی کہ امریکی فوج کے پاکستانی فوج سے براہ راست روابط ہیں، کہ پاکستانی جرنیل مسقل امریکہ کے چکر لگاتے رہتے ہیں، کہ امریکی فوج کو پاکستانی فوج سے یہ براہ راست تعلق بہت پسند ہے، کہ امریکی انتظامیہ جمہوری حکومتوں سے روابط نہیں چاہتی، وہ تو ہر جگہ براہ راست فوج سے معاملہ کرنا چاہتی ہے کیونکہ فوج سے مضبوط روابط امریکی انتظامیہ کے وسیع تر مفاد میں ہوتے ہیں؛ جمہوری حکومت تو پل میں تولہ، پل میں ماشہ ہوتی ہے۔ تو یہ ساری باتیں جانتے بوجھتے حقانی یا زرداری امریکی فوج تک ایسا میمو کیوں پہنچاءیں گے جسے محض ظریف تحریر پڑھ کر ہنسا ہی جا سکتا ہے۔
Labels: General Pasha, Kayani, Memogate, Zardari