Wednesday, September 28, 2011

 

جنگ میں دو طرف کی ہولناکیاں








ستمبر اٹھارہ، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم


ہم جب جنگ کی ہولناکی کی بات کرتے ہیں تو عموما ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جن پہ گولی اور بم برساءے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان میں تو وہ لوگ ہیں جو جنگ میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ جو زخمی ہو کر زندہ رہتے ہیں وہ بھی بہت اذیت ناک زندگی گزارتے ہیں۔ پھر ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے لواحقین کے غم و صدمے کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک شخص آپ کی روزمرہ کی زندگی کا بڑا حصہ ہو اور ایک دن اچانک وہ آپ کی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روانہ ہو جاءے تو آپ کس قسم کے صدمے سے دوچار ہوں گے، اس کا محض تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ جنگ میں معذور اور لاچار ہوجاتے ہیں ان سے متعلق لوگوں کی زندگیوں پہ اس معذوری اور لاچاری کا کیا اثر پڑتا ہے اس بارے میں بھی قیاس آراءی کی جا سکتی ہے۔ مگر جو شخص بندوق کی لبلبی دباتا ہے، جو بٹن دبا کر میزاءل داغتا ہے، جو جہاز سے بم گراتا ہے، کیا وہ محاذ سے پلٹ کر مطمءن اور خوش رہتا ہے؟ اس سوال کا جواب آپ کو وہ لوگ دیں گے جو جنگ سے پلٹنے والے سپاہیوں کے معالج اور نفسیات داں ہیں۔ پاکستانی نژاد نفسیات داں ڈاکٹر ماہین موصوف ایڈمسن ایسی ہی ایک معالج ہیں جو جنگ سے لوٹنے والے سپاہیوں کا علاج کرتی ہیں۔ حال میں نوگیارہ کے حوالے سے ہونے والی ایک تقریب میں ڈاکٹر ماہین ایڈمسن نے جنگ سے لوٹنے والے سپاہیوں کے بارے میں بتایا کہ ان میں سے بہت سے ایک مخصوص نفسیاتی عارضے، پی ٹی ایس ڈی یا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، کا شکار ہوتے ہیں۔ اس نفسیاتی عارضے میں مختلف چیزیں اور آوازیں آپ کو جنگ کی ہولناکیوں کی یاد دلاتی ہیں اور آپ بار بار خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ماہین نے اس عارضے کی تفصیلات بیان کرتے ہوءے بتایا کہ انیس بیس سال کے نوجوان فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔ وہ ولولے سے بھرے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے وطن کے لیے لڑنا چاہتے ہیں، ان کے ذہن میں کچے پکے خیالات ہوتے ہیں کہ ان کا دشمن کون ہے۔ ان نوجوانوں کو امریکہ کے صاف ستھرے ماحول سے اٹھا کر افغانستان یا عراق روانہ کر دیا جاتا ہے۔ وہاں حالات یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ وہ کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں کہ دوست کون ہے اور دشمن کون، اور وہ کس کے لیے کیوں لڑ رہے ہیں۔ پھر ایک دن وہ محاذ پہ اپنی مدت ختم کر کے واپس امریکہ پلٹ آتے ہیں۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوبارہ سے اپنی زندگی وہیں سے شروع کر دیں گے جہاں انہوں نے ختم کی تھی۔ مگر اب بات کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ نوجوان جنگ کی ہولناکیاں دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے اپنی زندگیوں کو پھر پرانے ڈھنگ سے شروع کرنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کسی بچے کی چیخ پہ اچانک چونک اٹھتے ہیں کہ انہوں نے یہ چیخ ایک ایسے بچے کے منہ سے سنی ہوتی ہے جو گولی لگنے کے بعد خون میں لت پت تھا اور کچھ دیر میں زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔ مخصوص خوشبو، ذاءقے، نظارے، اور آوازیں انہیں جنگ کی ہولناکیوں کی یاد دلاتے ہیں اور ان کے لیے ہر دن کا گزارنا ایک کرب ناک مرحلہ بن جاتا ہے۔ ماہین نے موجودہ جنگوں کا ایک ایسا پہلو بھی بیان کیا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ماہین نے بتایا کہ امریکی فوج میں شامل خواتین سپاہی مستقل خوف کے ماحول میں رہتی ہیں۔ اور ان کا یہ خوف ان کے اپنے ساتھی مرد سپاہیوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ عراق اور افغانستان میں فوجی کیمپوں میں خواتین رات کے وقت بیت الخلا استعمال کرتے ہوءے گھبراتی ہیں کیونکہ ان کو خوف ہوتا ہے کہ وہ رات کو بیت الخلا جاءیں گی تو ان کے ساتھ جنسی تشدد کیا جاءے گا یا ان کی عصمت دری کی جاءے گی۔ رات کو بیت الخلا کے استعمال سے بچنے کی وجہ سے ان خواتین کو مختلف بیماریاں ہو جاتی ہیں۔ غرض کہ افغانستان اور عراق کی جنگوں سے پلٹنے والے مرد اور عورت سپاہی طرح طرح کے عارضوں کے شکار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ماہین ایڈمسن کی باتیں سن کر احساس ہوا کہ جنگ کس قدر زیاں کا تحفہ ہے۔ جنگ میں کسی کی جیت نہیں ہوتی۔ مارا جانے والا بھی ہارتا ہے اور مارنے والا بھی۔ موجودہ دور کی جنگوں میں بہادری کا کوءی پہلو دور دور نظر نہیں آتا۔ جنگ کرنے کا فیصلہ ایسے لوگ کرتے ہیں جو جنگ کی ہولناکیوں سے بہت دور محفوظ جگہوں پہ بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ محاذ پہ ایسے نوجوانوں کو روانہ کرتے ہیں جو دنیا کا بہت مختصر تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ نوجوان یا تو اپنی جان دے کر تابوتوں میں بند وطن پلٹتے ہیں یا جنگ میں گھاءل ہو کر معذور ہو کر لوٹتے ہیں، یا پھر بظاہر صحیح سلامت واپس آتے ہیں مگر دراصل نفسیاتی طور پہ شدید بیمار ہوتے ہیں۔ ۔ امریکی شاعرہ حوا مریم نے اپنی ایک نظم میں لکھا تھا،" میرا خواب ہے کہ ایک ایسا بچہ جنوں جو ایک دن پوچھے، ماں، یہ جنگ کیا چیز ہوتی تھی؟ " کاش حوا مریم کا یہ خواب جلد پورا ہو۔ اس دنیا سے جنگ کا خاتمہ ہوجاءے کہ جنگ آدم خوری ہی کی تو ایک بھیانک شکل ہے۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?