Wednesday, September 28, 2011
نوگیارہ کے بعد کا امریکہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
نو گیارہ سے پہلے کا امریکہ اور تھا اور نو گیارہ کے بعد کا امریکہ اور ہے۔ نو گیارہ کے دہشت گرد حملوں میں قریبا تین ہزار لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ مگر اس واقعے کے بعد جو جنگیں شروع ہوءی ہیں ان میں آج بھی لوگ مر رہے ہیں۔ اس اتوار کو نو گیارہ کی دسویں سالگرہ کے موقع پہ دو طرح کے امریکی رد عمل نظر آءے۔ ایک ردعمل تو وہ تھا جسے سرکاری کہا جاءے تو زیادہ بہتر ہوگا اور جو ٹی وی پہ دکھاءی دے رہا تھا۔ اس ردعمل میں لوگ سر جھکاءے نو گیارہ کے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کو یاد کر رہے تھے۔ اس ردعمل میں غم کے جذبات کے ساتھ جنگ کی خاموش پکار تھی۔ اور دوسرا ردعمل وہ تھا جو عام امریکی، امن پسند لوگ اس موقع پہ ظاہر کر رہے تھے۔ ان امن پسند لوگوں کے لیے یہ موقع طبل جنگ بجانے کا نہ تھا بلکہ جنگ کی ہولناکیاں یاد کرنے کا تھا۔ یہ موقع نو گیارہ کے دہشت گرد حملوں میں مارے جانے والوں کے ساتھ ساتھ افغانستان، عراق، اور پاکستان میں مارے جانے والوں کو یاد کرنے کا تھا۔ یہ موقع احتجاج بلند کرنے کا تھا کہ بند کرو اس جنگ کو جس کا کوءی مقصد کوءی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ یہ ایسی جنگ ہے جو بظاہر دہشت گردی کےخلاف لڑی جارہی ہے مگر دراصل خود دہشت گردی کی افزاءش کا سبب بن رہی ہے۔
سان فرانسسکو بے ایریا امن کے پیامبروں کا مرکز رہا ہے۔ نو گیارہ کی دسویں سالگرہ پہ یہاں صبح سے شام تک طرح طرح کے احتجاجی پروگرام ہوءے۔ ایسا ہی ایک پروگرام فرینڈز آف ساءوتھ ایشیا کی طرف سے تشکیل دیا گیا۔ اس پروگرام میں سب سے زیادہ معلوماتی گفتگو مشہور وکیل وینا ڈوبل کی تھی۔ وینا ڈوبل نے اپنی تقریر میں بتایا کہ نو گیارہ کے بعد ایف بی آءی کا کردار محض ایک تفتیشی ادارے کا نہیں رہا بلکہ یہ ایجنسی جارحانہ طور پہ دہشت گردوں کو تلاش کرتی ہے اور لوگوں کے شرپسند خیالات پرکھ کر ان پہ ہاتھ ڈالتی ہے۔ ایف بی آءی پہ تنقید کے معاملے میں یقینا وینا ڈوبل تنہا نہیں ہیں۔ حال میں بی بی سی نے ایک مختصر رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایف بی آءی دہشت گردوں کے سیل تلاش ہی نہیں کرتی بلکہ پہلے انہیں تشکیل دیتی ہے۔ اس سلسلے میں طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایف بی آءی کا ایک مخبر کسی مسلم کمیونٹی میں داخل ہوتا ہے اور وہان ایسے لوگ تلاش کرتا ہے جن کے دل میں دہشت گردی کرنے کا خیال چھو کر بھی گزرا ہو۔ اگر ایسا کوءی بے وقوف شخص مل جاءے تو مخبر اس کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا ایک منصوبہ تلاش کرتا ہے، پھر اس شخص کو جعلی اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد دیا جاتا ہے، اس شخص کو پیسوں کا لالچ دیا جاتا ہے کہ اگر اس نے دہشت گردی کی کارواءی کی تو اسے انعام سے نوازا جاءے گا اور جب یہ شخص اس کام کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو اسے دہشت گردی کے الزام میں دھر لیا جاتا ہے۔
وینا ڈوبل نے بتایا کہ لوگوں سے انٹرویو کرتے ہوءے ایف بی آءی ایجنٹ ان لوگوں کو مخبر بننے کی دعوت دیتے ہیں۔ اپنے ایک موکل کا واقعہ بیان کرتے ہوءے وینا نے بتایا کہ اس شخص نے ایف بی آءی کا مخبر بننے سے انکار کیا تو سزا کے طور پہ اس کا نام نو فلاءی لسٹ پہ ڈال دیا گیا۔
اپنی تقریر میں دینا ڈوبل نے کہا کہ وہ اپنے موکلوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ وہ کسی ایف بی آءی ایجنٹ سے وکیل کی غیرموجودگی میں بات نہ کریں کیونکہ نو گیارہ کے بعد ایف بی آءی کو ایسی مراعات دی گءیں ہیں کہ اس کے ایجنٹ جھوٹ بول کر کسی شخص کو پھنسا سکتے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ اگر ایف بی آءی سے گفتگو میں آپ بھول چوک سے بھی کوءی غلط بیانی کردیں تو یہ "جھوٹ" ایک قابل سزا جرم ہے۔
وینا ڈوبل نے بتایا کہ ایف بی آءی ان جیسے شہری حقوق کے وکلا سے خوش نہی ہے۔ ایف بی آءی سے ایک ملاقات میں وینا کی تنظیم ایشین لاء کاکس کو ایف بی آءی کے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی گءی۔ جب وینا نے خوش اخلاقی سے اس دعوت کو ٹھکرایا تو حیرت کا اظہار کیا گیا اور بتایا گیا کہ جنوبی ایشیاءی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی کءی تنظیمیں پہلے ہی ایف بی آءی کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور ایف بی آءی مسلم ایڈووکیٹژ اور سکھ کولیشن نامی تنظیموں کو اپنا پارٹنر سمجھتی ہے۔