Wednesday, September 28, 2011
دہشت کے دس سال
ستمبر پانچ، دو ہزار گیارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
اس اتوار کو نو گیارہ کے دہشت گرد حملوں کو دس سال ہو جاءیں گے۔ نو گیارہ کہیے یا نہیں انگریزی میں ناءن الیون کہیے ، بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ کس واقعے کا ذکر ہو رہا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں دنیا بالکل پلٹ چکی ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایک ایسی جنگ جاری ہے جسے سرکاری طور پہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کہا جا رہا ہے مگر جو اصل میں خود دہشت گرد پیدا کر رہی ہے، نفرت کے گہرے بیج بو رہی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں دنیا میں جو بڑے بڑے واقعات ہوءے ہیں ان کا نو گیارہ کے واقعے سے کچھ نہ کچھ تعلق ہے۔
نو گیارہ کے بعد ہم نے امریکہ میں ایک اسلام مخالف لہر ابھرتی دیکھی۔ موجودہ دنیا ایک باہم پیوستہ دنیا ہے۔ ورلڈ واءڈ ویب یا انٹرنیٹ نے اس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ ایک جگہ سے اٹھنے والے خیالات پوری دنیا میں پھیل جاءیں۔ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں مغربی ذراءع ابلاغ بے حد طاقتور ہیں۔ مغرب سے بپا ہونے والی نظریات کی لہریں اتنی قوی ہیں کہ ذرا سی دیر میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔
نوگیارہ کے واقعے کے بعد اسلام کا ایک بے بنیاد خوف امریکہ میں روپذیر ہوا، آگے یورپ پہنچا، اور پھر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اس خیال نے تقویت پاءی کہ مسلمان بقیہ مذہبی گروہوں سے الگ ہیں، مسلمان دوسرے لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے، اور یہ کہ مسلمان مغرب کے نظام پہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس قسم کے غلط خیالات نے بہت سی جگہ معاشروں کی جڑیں ا کھوکھلی کر دیں۔ میں سنہ دو ہزار دو میں گجرات ہندوستان میں ہونے والے مسلم کش فسادات کو بھی عالمی اسلام مخالف لہر کا ایک ثمر سمجھتا ہوں۔ ان فسادات میں ہزار سے اوپر لوگ ہلاک ہوءے تھے۔ فرانس میں برقعے کے خلاف بنایا جانے والا قانون بھی اسی خیال کا شاخسانہ ہے۔ اور انہیں خیالات سے متاثر ہو کر ناروے کے اینڈریس بریویک نے بانوے لوگوں کو ہلاک کر دیا۔
نوگیارہ کے واقعے کے بعد امریکہ کے طرز عمل نے دنیا پہ واضح کر دیا کہ دنیا کو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے حساب سے چلنا چاہیے۔ طاقت کی حکمرانی اول و آخر ہے۔ اگر کسی طرح طاقتور کے ساتھ کوءی زیادتی ہوءی ہے تو اس زیادتی کے ازالے کے لیے کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کوءی ضرورت نہیں۔ طاقتور ملزم کو محض اپنے شک کی بنیاد پہ سزا دینے کا حق رکھتا ہے۔
نوگیارہ کے واقعات کے بعد امریکی عوام نے شور مچایا کہ نوگیارہ کے دہشت گرد حملوں کی آزادانہ تحقیقات کراءی جاءیں ۔ کانگریس نے مطالبہ تسلیم کرتے ہوءے ایک کمیشن وضع کیا ۔ نو گیارہ کمیشن نے سینکڑوں لوگوں کے انٹرویو کرنے کے بعد ایک نہایت تفصیلی رپورٹ جاری کی جس میں ثابت کیا گیا کہ نوگیارہ کے دہشت گرد حملے اسامہ بن لادن کی جماعت القاعدہ ہی کی طرف سے تھے۔ ثبوت کے طور پہ خالد شیخ محمد کے بیانات پیش کیے گءے۔ مگر خالد شیخ محمد کے اقبالی بیانات اس قدر زیادہ جراءم کے متعلق ہیں کہ ان بیانات کی صداقت پہ شک ہوتا ہے۔ اس سال مءی دو کے روز ایک بہترین موقع تھا دنیا پہ واضح کرنے کا نوگیارہ کے حملے اسامہ بن لادن کی ایما پہ ہوءے تھے۔ اسامہ بن لادن کی ٹانگ پہ گولی مار کر اسے حراست میں لیا جا سکتا تھا اور عدالت میں پیش کیا جاسکتا تھا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ اسامہ بن لادن کو اپنی بات کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا اور دنیا کی نظروں میں دنیا کی اکیلی سپر پاور کا رتبہ بلند ہو جاتا مگر افسوس کہ یہ راستہ نہ اپنایا گیا۔ اسامہ بن لادن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور صدر اوباما نے فرمایا کہ "انصاف ہوگیا۔" اوباما کا یہ جملہ سن کر میرا سر شرم سے جھک گیا اور مجھے جامعہ ہارورڈ پہ غصہ آیا کہ اس نے کس طرح اوباما کو قانون کی سند دے دی۔
نوگیارہ کے دہشت گرد حملے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے ٹی وی پہ دیکھے۔ نوگیارہ سے متعلق ہر شخص کی ایک الگ کہانی ہے کہ وہ ان حملوں کے وقت کہاں تھا اور ان حملوں کے بعد اس پہ کیا گزری۔ جہاں ایک طرف اس سال نوگیارہ کے روز ایک سرکاری تقریب ہوگی جس میں اوباما وہی کچھ کہیں گے جو وہ ایک عرصے سےکہتے آرہے ہیں اور جہاں معصوم امریکی شہری جھنڈے لہرا کر اور جنگ کی تاءید کر کے اپنی حب الوطنی کا ثبوت فراہم کریں گے، وہیں دوسری طرف سان فرانسسکو میں فرینڈز آف ساءوتھ ایشیا کے زیر اہتمام ایک محفل منعقد ہوگی جس میں نوگیارہ اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کا بھرپور جاءزہ لیا جاءے گا۔ یہ محفل سان فرانسسکو پبلک لاءبریری کے کوریٹ آڈیٹوریم میں اتوار، سمتمبر گیارہ کے روز ایک سے چار بجے کے درمیان منعقد ہوگی۔ اس محفل میں شرکت کرنے والے بھی نو گیارہ سے متعلق اپنی کہانی سنا سکیں گے اور جنگ سے متعلق اپنے خیالات پیش کر سکیں گے۔ امید ہے کہ اس کالم کے قارءین نوگیارہ کی اس محفل میں شریک ہوں گے۔