Wednesday, September 28, 2011
گفتگو
ستمبر پچیس، دو ہزار گیارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
سان فرانسسکو بے ایریا کا علاقہ دو معیاری تعلیمی اداروں کے وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔ کھاڑی کے ایک طرف جامعہ اسٹینفرڈ ہے اور دوسری طرف جامعہ برکلی۔ اسٹینفرڈ ساءنس سے متعلق شعبوں میں آگے آگے ہے تو برکلی زبان اور دل و جذبات کے معاملے میں۔ جامعہ برکلی میں جنوبی ایشیا کے متعلق جاننے اور اس علاقے کی مختلف فکری تحریکوں پہ تحقیق کرنے کے کءی مواقع موجود ہیں۔ یہ مواقع برکلی کے شعبہ براءے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا، اور جنوبی ایشیا تعلیمی سینٹر، سینٹر فار ساءوتھ ایشین اسٹڈیز، فراہم کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا سینٹر کو دو انتہاءی متحرک خواتین چلاتی ہیں۔ ایک راکا رے صاحبہ ہیں جو اس تعلیمی مرکز کی منتظمہ اعلی ہیں اور دوسری پنیتا کالا صاحبہ ہیں جن کا عہدہ پروگرام ڈاءریکٹر کا ہے۔ اس تعلیمی مرکز نے گفتگو نامی ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے جس کا مقصد اردو اور پاکستان سے متعلق موضوعات کو زیر بحث لانا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی محفل اتوار، ستمبر پچیس کے روز منعقد ہوءی۔ پروگرام کا موضوع تھا فیض احمد فیض کی شخصیت اور ان کی شاعری، اور مہمان خصوصی فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی صاحبہ تھیں۔ تقریب میں دو سو کے قریب لوگوں نے شرکت کی۔ محفل کا آغاز راکا رے کے تعارفی کلمات سے ہوا۔ تقریب کی نظامت شعبہ براءے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے پروفیسر مونس فاروقی نے انجام دی۔ برکلی میں اردو زبان کے معلم قمر جلیل صاحب نے سنہ چوراسی کا وہ واقعہ بیان کیا جب فیض برکلی کی دعوت پہ وہاں آءے تھے۔ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر شان پیو نے ایک مقالہ پڑھا جس میں فیض کے فن کا مقابلہ ن م راشد کے فن سے کیا گیا تھا۔ مہمان خصوصی یعنی سلیمہ ہاشمی کا تعارف شعبہ اینتھروپولوجی کی پروفیسر صبا محمود نے کیا اور پھر صبا محمود اور سلیمہ ہاشمی صاحبہ کے درمیان ایک گفتگو کا آغاز ہوا جس سے حاضرین کو فیض احمد فیض کی شخصیت کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ سلیمہ ہاشمی نے اپنے ابا کے بارے میں بتایا کہ فیض نہایت ٹھنڈے مزاج کے شخص تھے۔ بچوں کی تعلیم اور دوسرے اہم معاملات کا اختیار ماں کے پاس تھا جب کہ باپ اس سلسلے میں بے حد پرسکون واقع ہوا تھا۔ سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ وہ بچپن میں کبھی سردرد اور کبھی پیٹ میں درد کا بہانہ کرتی تھیں تاکہ انہیں اسکول نہ جانا پڑے۔ اگر کبھی وہ اس طرح کا بہانہ کرتیں تو ماں سلیمہ سے کہتیں کہ جاءو اپنے ابا سے بات کرو۔ وہ اپنے ابا سے کہتیں کہ میں اسکول نہیں جانا چاہتی تو ابا نہایت اطمینان سے جواب دیتے، " تو نہ جاءو۔" اگر سلیمہ ہاشمی کبھی اپنے ابا کو بتاتیں کہ وہ حساب کے امتحان میں فیل ہو گءی ہیں تو ابا جواب دیتے، "کوءی بات نہیں۔ حساب میں تو ہم بھی فیل ہو جاتے تھے۔"
سلیمہ ہاشمی نے فیض احمد فیض کے بارے میں بتایا کہ وہ انسان دوست تھے اور لوگوں کو اپنے اور ان کے قومی تعلق سے بلند ہو کر دیکھتے تھے۔ اسی لیے انہیں جہاں سنہ سینتالیس کے واقعات پہ افسوس تھا وہیں سنہ اکہتر کے کشت و خون نے نہایت پرملال کر دیا تھا۔ سلیمہ ہاشمی نے اپنے ابا کے بارے میں بتایا کہ وہ نہایت درد سے لکھتے تھے اور فیض نے اپنے بارے میں یہ کہا بھی تھا کہ، "اردو کے بہت سے شاعر بہت اچھے ہیں مگر جس کرب اور تکلیف کی کیفیت سے گزر کر میں شعر کہتا ہوں دوسرے ایسا نہیں کرتے۔"
سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ ماں کے غیرملکی ہونے کی وجہ سے اکثر ان کی ماں سے یہ سوال کیا جاتا کہ کیا وہ فیض کی شاعری سمجھتی ہیں۔ ایلس فیض جواب دیتیں کہ وہ شاعری سمجھیں یا نہ سمجھیں، شاعر کو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔
برکلی میں سول انجینءیرنگ کے پروفیسر انل چوپڑا نے فیض کی نظم 'رقیب سے' پیش کی۔ حمیدہ بانو چوپڑہ صاحبہ نے فیض کی دو نظمیں 'دعا' اور 'شیشوں کا مسیحا کوءی نہیں' سنا کر حاظرین محفل کو محظوظ کیا۔ بے ایریا کے ممتاز شاعر تاشی ظہیر نے 'نذر فیض' کے عنوان سے اپنا منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ ایک مختصر وقفے کے بعد سلیمہ ہاشمی نے سلاءڈ کی مدد سے ایک مقالہ پیش کیا جس میں جنوبی ایشیا کے آرٹ پہ فیض کی شاعری کا اثر واضح کیا گیا تھا۔ سلیمہ ہاشمی کے مقالے کے اختتام پہ سوال و جواب کا ایک دور ہوا۔ تقریب کا اختتام فیض کی شاعری کی گاءکی سے ہوا۔ انوپما چندراتریا صاحبہ نے 'دشت تنہاءی' سناءی؛ ارم مشرف نے 'مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ' گاءی، ان کے ساتھ گٹار پہ جہاں زیب شیروانی تھے؛ نندتا کالا دبرال نے 'ہم دیکھیں گے' سنا کر حاضرین محفل کے سامنے فیض کی اشتراکی شاعری کا کمال پیش کیا۔