Wednesday, September 28, 2011

 

کیسی عید؟



اگست اٹھاءیس، دو ہزار گیارہ



ایک فکر کے سلسلے کا کالم


چند دنوں بعد عید ہے مگر دل ہے کہ خوش ہونے کو تیار نہیں۔ کیسی عید، اور کیسا جشن؟ خاص طور پہ کراچی والوں کے لیے جہاں رمضان کے ہر روز خون کی ہولی کھیلی گءی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ انسان شیطان سے بڑا شیطان ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میں جس کراچی میں پیدا ہوا، جہاں پلا بڑھا، آج کا کراچی وہ کراچی نہیں ہے مگر کیا کیجیے کہ دل نہیں مانتا۔ آنے والی عید اور ستمبر گیارہ کی تاریخ میں کوءی خاص دوری نہیں ہے۔ آج دنیا جن بڑے بڑے مساءل سے نبردآزما ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق کسی نہ کسی طرح گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں سے جڑتا ہے۔ اس گیارہ ستمبر کو اس خونی واقعے کو دس سال ہو جاءیں گے۔ اور ان دس سالوں میں دنیا اتنی بدلی ہے کہ شاید اکثر چار پانچ دہاءیوں میں اتنی نہیں بدلتی۔ اس گیارہ سمتبر کے روز موجودہ صدر براک اوباما اور سابق صدر جارج بش، نیویارک جاءیں گے اور سابقہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مقام پہ دہشت گردوں کے حملوں میں مارے جانے والوں کے اہل خانہ سے ملیں گے۔ وہ ڈرامہ جو ہر سال دہرایا جاتا ہے اس واقعے کی دسویں سالگرہ پہ اور زوردار طریقے سے دہرایا جاءے گا۔ دونوں صدور یقینا چہروں پہ گہری سنجیدگی سجاءے پرعزم تقاریر کریں گے۔ وہ لوگوں کو بتاءیں گے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کس قدر کامیاب جارہی ہے۔ وہ شاید براہ راست اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا تذکرہ نہ کریں مگر تبصرہ نگار یقینا اس طرف نظر کریں گے اور چند ماہ پہلے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو امریکہ کی زبردست فتح قرار دیں گے۔ یہ سب ڈرامہ اس قدر دھوم دھڑکے سے ٹی وی سمیت میڈیا کے دوسرے ذراءع سے پیش کیا جاءے گا کہ امریکہ کے بیشتر لوگ حب الوطنی کی تازہ لہر میں بہتے ہوءے ذہن میں آنے والے کسی بھی وسوسے کو بھول جاءیں گے اور آڑھے ترچھے سوالات سے گریز کریں گے۔ اس ستمبر گیارہ کو شاید بہت سے لوگوں کو یہ یاد بھی نہ آءے کہ ستمبر گیارہ دو ہزار ایک کے حملوں کے بعد "دہشت گردوں" کا ایک اور حملہ ہوا تھا جس نے امریکی داخلی اور خارجہ پالیسی پہ گہرے اثرات چھوڑے تھے۔ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے واقعے کے چند دن بعد دو امریکی سینیٹر اور میڈیا کے بہت سے اداروں کو ایسے خطوط موصول ہوءے تھے جن میں اینتھریکس کے جراثیم تھے۔ ہر لفافے میں ایک رقعہ بھی تھا جس پہ اور خرافات کے علاوہ امریکہ مردہ باد اور اسلام زندہ باد لکھا تھا۔ بات نہایت واضح تھی کہ امریکہ کے انددر رہتے ہوءے لوگوں کو اینتھریکس کے جراثیم بھیجنے کا کام کون کر سکتا تھا۔ ان اینتھریکس حملوں نے دو اصلاحات اور امکانات کے خیال کو قوت بخشی، ایک سلیپر سیل اور دوسرے ایک ایسی بیرونی طاقت جس کے پاس وسیع ہلاکت کے موثر ہتھیار تھے۔ امریکہ کے اندر شدت پسند مسلمانوں کے سلیپر سیل کے خیال نے وہ راءے عامہ ہموار کی جس کی موجودگی میں پیٹریاٹ ایکٹ قانون ساز ادارے سے پاس ہوا۔ اور مہلک ہتھیار رکھنے والی ایک بیرونی طاقت کے خیال نے عراق پہ امریکہ حملے کی راہ ہموار کی۔ پیٹریاٹ ایکٹ اکتوبر دو ہزار ایک میں پاس ہوا اور عرق پہ حملہ سنہ دہ ہزار تین میں ہوا۔ ایسے دور رس اقدامات کی راہ ہموار کرنے کے بعد اینتھریکس حملوں کی کہانی پس پشت چلی گءی۔ بہت کم لوگوں نے اس طرف توجہ کی کہ اینتھریکس حملوں کا ذمہ دار بروس ایڈورڈز ایونس نامی ایک شخص ٹہرایا گیا تھا جو امریکی حکومت کی ایک لیب میں کام کرتا تھا۔ بروس کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا تھا اور اسی تحویل میں ایک روز بروس نے ' خودکشی' کر لی۔ بروس کی خودکشی پہ ایف بی آءے نے بروس کو اینتھریکس حملوں کا مکمل اور اکیلا زمہ دار ٹہرا کر تفتیش ختم کردی اور مسل داخل دفتر ہوءی۔ اینتھریکس حملوں کی جو خبر اخبارات کے اول صفحوں کی زینت بنی تھی اس کی تفتیش کے اختتام کی خبر اخبارات کے غیر اہم صفحوں تک ہی رساءی حاصل کرپاءی۔ اور یہ جادو ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک واقعہ ہوتا ہے۔ ہم سب اسے دیکھتے ہیں، اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اچانک ایک بھاری آواز زوردار طریقے سے بلند ہوتی ہے اور واقعے کی ایک خاص توجیہ فراہم کی جاتی ہے اور اس مخصوص توجیہ کی فراہمی کے بعد اسی آواز کی بازگشت ہر سو سے آتی ہے حتی کہ ہمارے اندر کی ساری آوازیں دم توڑ جاتی ہیں اور ہم بھاری آواز اور اس کی بازگشت کے علاوہ کچھ اور سننے سے معذور ہو جاتے ہیں۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?