Wednesday, September 28, 2011

 

کراچی کے فسادات


اگست باءیس، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم



کراچی کے فسادات


آج کراچی جس آگ میں جل رہا ہے اس کا براہ راست تعلق نوگیارہ کے واقعے سے ہے۔ مگر اس تعلق کے بارے میں بعد میں بات کریں گے۔ پہلے ہم اس قتل و غارت گری کی اصلیت جاننے کی کوشش کریں گے۔ اگر آپ بھی میری طرح پاکستانی اخبارات پڑھتے ہیں اور پاکستانی ٹی وی پروگرام دیکھتے ہیں تو آپ کو آج کل پاکستانی میڈیا میں ایک خاص قسم کی مصلحت نظر آءے گی۔ اور مصلحت یہ ہے کہ میڈیا میں لوگوں کے نسلی یا لسانی فرق کو بیان کرنا معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ کسی ویڈیو میں کوءی شہری کہہ دے کہ پٹھان یہ کر رہے ہیں یا مہاجر یہ کر رہے ہیں تو اسے فورا روک کر کہا جاتا ہے کہ، نہیں، نہیں، ہم سب مسلمان ہیں، ہم سب پاکستانی ہیں۔ پاکستان کے انتشار کو مذہب یا پاکستانیت کی پٹی سے باندھ کر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی کوشش نہ صرف یہ کہ بھونڈی ہے بلکہ غیر موثر بھی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اپنی گروہی پہچان مختلف واسطوں سے رکھتے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے بھی اس کلیے سے مستثنا نہیں ہیں۔ پاکستان کے اکثر لوگ اپنی پہچان اپنی زبان یا اپنے علاقاءی تعلق سے بناتے ہیں۔ لوگوں کی صدیوں پرانی شناخت کو دبانے کی کوشش کرنا حماقت ہے۔ اور وہ لوگ جو اپنی پہچان پہ فخر کرتے ہیں اس رویے کو ناقابل قبول پاءیں گے۔ لوگوں کی لسانی یا جغرافیاءی پہچان کو نظر انداز کرنے کے بجاءے معاشرے کے سمجھ دار لوگوں کو یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی نسلی یا لسانی پہچان کو واضح کرنے میں نہ کوءی عیب ہے اور نہ کوءی گھمنڈ۔ وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی اونچ نیچ دیکھی ہے، جو بھانت بھانت کے لوگوں میں اٹھے بیٹھے ہیں، وہ لوگوں کی نسلی، لسانی، یا مذہبی شناخت کی کھوکھلی حیثیت سمجھتے ہیں۔ شناخت کے ان پیراہن کی حیثیت اتنی ہی ہے جتنی اس بات کی کہ کسی شخص نے آیا سفید رنگ کی قمیض پہنی ہوءی ہے یا نیلے رنگ کی۔ پاکستان میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص مقامی راہ نماءوں کو اس ترقی پسند سوچ کو سامنے لانا ہوگا کہ لوگوں کے اپنے آپ کو مہاجر یا پٹھان یا پنجابی یا سندھی یا بلوچی یا مکرانی وغیرہ کہلوانے میں کوءی حرج نہیں ہے۔ حرج آپس کے ان سطحءی فرق کو اختلاف کا ذریعہ بنانے میں ہے۔ کسی نابینا شخص سے پوچھیے کہ اسے کس رنگ اور نسل کے لوگ پسند ہیں۔ وہ حیرت سے آپ سے پوچھے گا کہ لوگوں کی پسند یا ناپسند کا تعلق رنگ و نسل سے کیسے ہو گیا؟ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ کون آپ سے محبت سے بات کرتا ہے اور اچھا سلوک کرتا ہے۔
آءیے اب یہ جانچنے کی کوشش کریں کہ کراچی میں کیا ہورہا ہے۔ کراچی میں تین مختلف وجوہات کی وجہ سے قتل و غارت گری ہورہی ہے: پہلی وجہ نسلی اور لسانی منافرت ہے جس کا شکار قصبہ کالونی، کٹی پہاڑی، اورنگی وغیرہ کے علاقے ہیں۔ ان علاقوں میں پٹھان اور مہاجر گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ دوسری وجہ بھتہ خوری ہے جس کے بڑے شکار شہر کے پرانی کاروباری علاقے ہیں۔ اور تیسری وجہ منشیات فروشوں اور قبضہ مافیا کے متحارب گروہوں کی آپس میں لڑاءی ہے۔ اس لڑاءی کو عرف عام میں گینگ وار بھی کہا جاتا ہے اور اس قیامت کا شکار لیاری کا علاقہ ہے۔ موخرالذکر دو وجوہات کی قتل و غارت گری پہ تو پولیس کی کارواءی کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے مگر اولالذکر لڑاءی ختم کرانے کے لیے معاشرتی طور پہ بہت بالغ النظری کی ضرورت ہے۔ مہاجر اور پٹھان گروہوں کی لڑاءی کا براہ راست تعلق نو گیارہ کے واقعے سے ہے۔
نو گیارہ کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان پہ دھاوا بول دیا۔ سنہ دو ہزار آٹھ میں اوباما کے صدر بننے کے بعد پاکستان کے شمالی، پٹھان علاقوں میں امریکی فوجی حملوں کی تعداد میں یک دم اضافہ ہوا۔ ڈرون کے ذریعے لوگوں اور گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ مقامی آبادی روز روز کے ان حملوں سے تنگ آکر نقل مکانی کرنے پہ مجبور ہوءی۔ نقل مکانی کرنے والے بیشتر لوگ کراچی آءے کیونکہ کراچی نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے بلکہ دنیا میں پٹھانوں کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ کراچی میں ایک عرصے سے ایم کیو ایم کا راج ہے۔ ایم کیو ایم کہنے کو تو متحدہ قومی موومنٹ بن گءی ہے مگر آج بھی اس کے اکثر حمایتی مہاجر ہیں۔ سنہ دو ہزار آٹھ کے بعد بڑے پیمانے پہ کراچی میں پٹھانوں کی آمد سے ایم کیو ایم کو شہر کا توازن آبادی بگڑتا نظر آیا۔ ایم کیو ایم کو اندازہ ہوا کہ کراچی میں اسی طرح پٹھانوں کی آبادی بڑھتی رہی تو آءندہ انتخابات میں کھیل اس کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ الطاف حسین نے شور مچایا کہ کراچی میں طالبان آرہے ہیں، انہیں روکا جاءے۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کراچی میں مزید پٹھانوں کو نہ آنے دیا جاءے۔ الطاف حسین کے کہنے سے کوءی فرق نہیں پڑا اور پٹھان کراچی میں آتے رہے۔ پھر ایم کیو ایم اور اے این پی کی خونی لڑاءی شروع ہوءی۔ واضح رہے کہ اے این پی کراچی میں پٹھانوں کی نماءندگی کرتی ہے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کے عہدیداران قتل ہونا شروع ہوءے۔ نسلی منافرت کی بنیاد پہ قتل و غارت گری کا سلسلہ بڑھتا گیا اور اب یہ حالت ہے کہ پورے پورے گروہ آپس میں متحارب ہیں۔ کراچی کا عام شہری اس خون خرابے سے تنگ ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں فوج آءے اور حالات کو قابو میں لاءے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ مسءلہ یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے پاس غیر قانونی اسلحہ ہے، مسءلہ یہ ہے کہ لوگ یہ غیرقانونی اسلحہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مسءلہ یہ نہیں ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو جان سے مار رہے ہیں، مسءلہ یہ ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ واقعی ایک دوسرے کو جان سے مارنا چاہتے ہیں۔ فوری امن و امان قاءم کرنے کے لیے یقینا فوج کی مدد لی جا سکتی ہے مگر ایسی مدد مسءلے کا پاءیدار حل ہرگز نہیں ہے۔ پاءدار حل یہ ہے کہ شہر میں رہنے والے، مختلف قومیتوں کے لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کریں۔ اپنی نسلی یا لسانی شناخت کو اختلاف اور جھگڑے کا ذریعہ نہ بناءیں۔ محلے کی سطح پہ لوگ ایک دوسرے سے گفتگو کریں اور یہ طے کریں کہ کوءی خراب واقعہ ہونے کی صورت میں معاملات کو بد سے بد تر نہیں ہونے دیں گے بلکہ آپس میں مل کر فوری تحقیقات کریں گے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دیں گے۔ اگر رکشہ ڈراءیور زمرد خان کو کچھ لوگ مار کر چلے گءے ہیں، تو مہاجر راہ نما اس واقعے کو نظر انداز نہیں کر دیں گے بلکہ اس فعل کی سختی سے مذمت کریں گے اور اس شخص کے قاتلوں کی تلاش میں پولیس کا ساتھ دیں گے۔ اسی طرح صدر میں کپڑے کی دکان پہ کام کرنے والے ایک نوجوان محمد عرفان ولد محمد سلمان کو بنارس پہ نامعلوم افراد نے قتل کر دیا ہے تو پشتون اس ظلم پہ شدید احتجاج کریں گے اور مجرم کو اپنی صفوں میں چھپنے کا موقع نہیں دیں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ کراچی میں مقامی سطح پہ نءی قیادت کو سامنے آنا ہوگا جو نفرت سے بھرے پرانے سیاسی گرگوں کو ایک طرف ہٹا کر مختلف قومیتوں کے درمیان اعتماد بحال کرنے کا کام کرے۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?