Friday, June 10, 2011
خوب جیو عطااللہ عیسی خیلوی
عطااللہ عیسی خیلوی کی گاءی ہوءی یہ پرانی مگر خوب صورت اردو غزل سنیے اور سر دھنیے۔ مجھے شاعر کے نام کی تلاش ہے۔ معلوم ہو تو ضرور بتاءیے گا۔
عشق میں ہم تمھیں کیا بتاءیں، کس قدر چوٹ کھاءے ہوءے ہیں
موت نے ہم کو مارا ہے اور ہم، زندگی کے ستاءے ہوءے ہیں
اس نے شادی کا جوڑا پہن کر، صرف چوما تھا میرے کفن کو
بس اسی دن سے جنت کی حوریں، مجھ کو دولھا بناءے ہوءے ہیں
سرخ آنکھوں میں کاجل لگا ہے، رخ پہ غازا سجاءے ہوءے ہیں
ایسے آءے ہیں میت میں میری، جیسے شادی میں آءے ہوءے ہیں
اے لحد اپنی مٹی سے کہہ دے، داغ لگنے نہ پاءے کفن کو
آج ہی ہم نے بدلے ہیں کپڑے، آج ہی ہم نہاءے ہوءے ہیں
دشمنوں کی شکایت ہمیشہ دوستوں سے گلا کیا کریں گے
کٹ چکے جن درختوں کے پتے پھر کہاں ان کے ساءے ہوءے ہیں
ان کی تعریف کیا پوچھتے ہو، عمر ساری گناہوں میں گزری
پارسا بن رہے ہیں وہ ایسے، جیسے گنگا نہاءے ہوءے ہیں
دیکھ ساقی تیرے مے کدے کا، ایک پہنچا ہوا رند ہوں میں
جتنے آءے ہیں میت پہ میری، سب کے سب ہی لگاے ہوءے ہیں
Labels: Ata ullah Isa Khelvi, Ataullah Isakhelvi, Attaullah Essa Khelvi
Comments:
<< Home
میں کیرلا کا ہوں اور یہ شاعري مجھے بچپن سے ہی یادہے کیرلا کا مشہور واعظ استاد عبد الصمد صمداني صاحب نے ہمیں وہ زمانے میں یہ شاعری لیکے رلایے تھے اور اسکی یاد ابھی بھی دل میں ہے
Post a Comment
<< Home