Monday, November 01, 2010

 

ایف بی آءی کے کالے دھندے





نو گیارہ کے واقعے کو نو برس بیت چکے ہیں مگر اس افسوس ناک تاریخی واقعے کے بعد امریکی انتظامیہ امریکی مسلمانوں کو جس شک کی نظر سے دیکھنے لگی تھی اس رویے میں اب تک کوءی تبدیلی نظر نہیں آءی ہے۔ اس کے برعکس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ترچھی نظر کڑی ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ کچھ عرصے میں ایک خبر اخبارات کی زینت بنتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں امریکی مسلمان دہشت گردی کی بڑی کارواءی کرنے والا تھا مگر عین موقع پہ گرفتار کر لیا گیا۔ ایسی کسی خبر کو ذرا غور سے پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ گرفتاری ایک فراڈ ہے جو دراصل دام گیری یا انٹریپمینٹ کے زمرے میں آنی چاہیے۔ اس دام گیری کا نیا ترین شکار ورجینیا سے تعلق رکھنے والا پاکستانی نژاد فاروق احمد ہے۔ فاروق احمد پہ الزام ہے کہ اس نے واشنگٹن ڈی سی کی میٹرو میں بم رکھنے کی نیت سے میٹرو اسٹیشن کی ایک ویڈیو بناءی تھی۔ اس خبر کی تفصیل میں جاءیے تو معلوم ہوگا کہ جو لوگ فاروق احمد کی مدد سے واشنگٹن میٹرو میں بم رکھنا چاہتے تھے وہ دراصل القاعدہ کے بھیس میں ایف بی آءی ایجنٹ تھے۔ با الفاظ دیگر ایف بی آءی کے اہلکار واشنگٹن میٹرو میں بم رکھنے کا منصوبہ لے کر فاروق احمد کے پاس گءے۔ فاروق احمد نہ جانے کس طرح ان کے جال میں آگیا اور اس منصوبے میں شرکت کرنے پہ آمادہ ہوگیا۔ فاروق احمد نے یہ نہ جانتے ہوءے کہ وہ ایف بی آءی اہل کاروں سے بات کررہا ہے اپنے "مسلمان بھاءیوں" کے کہنے پہ میٹرو اسٹیشن کی ویڈیو بناءی اور ان کے حوالے کردی۔ اور اب فاروق احمد کو یہ کہہ کر گرفتار کیا گیا ہے کہ اس نے میٹرو میں بم دھماکہ کرنے کی تیاری میں ویڈیو بناءی تھی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی اس خبر میں لکھا ہے کہ اس طرح دہشت گردی کا ایک گھناءونا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ اس جملے کے اندرونی تضاد پہ ہنسی آتی ہے۔ گویا ایف بی آءی نے دہشت گردی کا ایک ایسا منصوبہ ناکام بنا دیا جو ایف بی آءی نے خود ہی تیار کیا تھا۔ فاروق احمد جیسے لوگوں کی گرفتاری سے ایف بی آءی بالخصوص اور امریکی انتظامیہ بالعموم یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ امریکی مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو القاعدہ کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ، یعنی ایف بی آءی کے اہلکار، ایسی امریکی مسلمان کالی بھیڑوں کو القاعدہ کے اہل کار کا بھیس بدل کر گرفتار کر لیں اس سے پہلے کہ القاعدہ کے اصل اہل کار ان لوگوں کی خدمات حاصل کریں۔ اس منطق میں بے انتہا جھول ہے۔ لوگوں کو اس طرح کے دام میں پھنسا کر گرفتار کرنا انصاف ہرگز نہیں ہے۔ القاعدہ اگر واقعی اتنی طاقتور اور منظم ہوتی کہ اپنے اہل کاروں کو امریکہ بھیج کر یہاں کے مسلمانوں کو دہشت گردی کے لیے اکسا سکتی تو امریکہ بھیجے جانے والے یہ اہل کار خود ہی دہشت گردی کی واردات کیوں نہ کر جاتے؟ ہمیں یہ بات نہیں معلوم کہ فاروق احمد کو اس جال میں پھنسانے والے لوگوں نے کس کس طرح فاروق احمد کو اپنے منصوبے میں شامل کرنے کے لیے تیار کیا ہوگا۔ اسے کس کس طرح ورغلایا گیا ہوگا کہ امریکہ دنیا بھر کے مسلمانوں پہ ظلم کررہا ہے اور اس ظلم کا بدلہ لینا بہت ضروری ہے۔ عین ممکن ہے فاروق احمد نے حجت کی ہو کہ ظلم کا بدلہ تو لیا جاءے مگر معصوم امریکی شہریوں کو کیوں قتل کیا جاءے۔ اور اس حجت کے جواب میں بھیس بدل کر آنے والے ایف بی آءی اہل کاروں نے فاروق احمد کو کہا ہو کہ امریکہ بھی تو افغانستان اور عراق میں معصوم مسلمان شہریوں کو قتل کر رہا ہے۔ اور اسی قسم کی خرافات سن کر فاروق احمد ان لوگوں کے جال میں آگیا ہو۔
یوں لگتا ہے کہ نو گیارہ کے واقعے کے فورا بعد ایف بی آءی سمیت دوسرے حساس اداروں کو پہلے آڑے ہاتھوں لیا گیا اور پھر انہیں کھلی چھوٹ دے دی گءی کہ وہ جو چاہے کریں بس یہ یقین دہانی کریں کہ آءندہ امریکی مٹی پہ نو گیارہ جیسا واقعہ نہ ہونے پاءے۔ ان سیکیورٹی اداروں نے فیصلہ کیا کہ ایسی یقین دہانی کا صرف ایک طریقہ ہے کہ لوگوں کو ڈرا کر رکھا جاءے۔ ہر مسجد میں جاسوس چھوڑے جاءیں جو بھیس بدل کر لوگوں کو پہلے دہشت گردی کے لیے اکساءیں اور پھر جو اس نرغے میں آجاءے اسے گرفتار کر لیا جاءے تاکہ دوسرے اور بھی ڈر جاءیں اور اس قسم کا کوءی خیال دل میں بھی نہ لاءیں۔
اور اس طرح ان اداروں نے خراب معاشی حالات میں اپنی نوکری بھی پکی کر لی ہے۔ عام امریکی کے لیے پیغام ہے کہ وہ بجٹ کی کٹوتی کے لیے ان اداروں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ اگر ان اداروں کے بجٹ میں کمی کی گءی تو پورے امریکہ میں جگہ جگہ بم دھماکے ہونے لگیں گے۔

تصویر بشکریہ
http://www.guardian.co.uk
Luis Alvarez/AP

Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?