Friday, November 19, 2010

 

پہچان





انسان کی پہچان کی کءی نسبتیں ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر لوگ اپنی پہچان ایسے واسطوں سے رکھتے ہیں جن پہ ان کا کوءی اختیار نہیں ہوتا۔ وہ کس ملک میں پیدا ہوءے، وہ کونسی زبان بولنے والوں کے گھر پیدا ہوءے، پیداءشی طور پہ ان کا مذہب کیا ہے، ان کی رنگ و نسل کیا ہے، پہچان کے یہ وہ واسطے ہیں جو لوگوں کے ماتھوں پہ مظبوطی سے جڑے ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ پہچان کے ان ہی حوالوں سے فوری فیصلہ کرتے ہیں کہ کوءی شخص کیسے سلوک کا مستحق ہے۔ جب آپ پہلی دفعہ کسی شخص سے ملتے ہیں تو اس کے منہ کھولنے سے پہلے آپ اس کا جاءزہ لیتے ہیں۔ اس سرسری جاءزے سے آپ غیر شعوری طور پہ اس شخص کے بارے میں ایک راءے قاءم کرتے ہیں۔ آپ کی یہ فوری راءے آپ کے ذہن میں بسے تعصبات کی روشنی میں ہوتی ہے۔ اگر اس حلیے و شکل کے لوگ آپ کو پہلے دس بار ملے اور ہر دفعہ وہ لوگ بے ایمان ثابت ہوءے تو آپ اس نءے شخص کے بارے میں بالکل ایسی ہی خراب راءے رکھیں گے۔ حالانکہ اس بات کا بہت بڑا امکان موجود ہے کہ آپ کو اس حلیے و شکل کے ملنے والے دس لوگ اس گروہ کی یکسر غلط عکاسی کرتے ہوں۔
ایک وقت تھا کہ لوگوں کے ذہن میں بسے تعصبات ان کے اپنے ذاتی تجربات سے وجود میں آتے تھے۔ وقت بدل گیا ہے۔ اب انٹرنیٹ، ٹی وی، ریڈیو، اور اخبارات آپ کے تعصبات ہموار کرتے ہیں۔ میڈیا سے موصول ہونے والی طاقتور لہریں یہ تعین کرتی ہیں کہ لوگوں کے کسی گروہ کو کس نظر سے دیکھا جاءے گا۔
میرے ایک عزیز بچکانہ ماہر قلب (پیڈیاٹرک کارڈیالوجسٹ) ہیں۔ وہ سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور جراحی سے پیداءشی قلبی خرابیاں رفع کرتے ہیں۔ کچھ روز پہلے وہ کسی کام سے میرے پاس یہاں سان فرانسسکو بے ایریا آءے ہوءے تھے۔ ان کے واپس سعودی عرب پہنچنے پہ میں نے ان سے فون پہ بات کی تو ان کی زبانی ایک حیرت انگیز واقعہ سنا۔ یہ واقعہ ان ہی کے الفاظ میں سنیے۔ "جہاز فینکس سے شکاگو کے لیے اڑا تو میں حسب عادت فورا ہی سو گیا۔ میں غنودگی میں تھا کہ مجھے آواز آءی کہ، 'فورا اے ای ڈی (آٹو میٹک ایکسٹرنل ڈی فیبریلیٹر) لاءو۔' اے ای ڈی وہ آلہ ہے جو دل کی دھڑکن درست کرنے کے کام آتا ہے۔ میں چھلانگ لگا کر اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔ آواز کی سمت دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص اپنی نشست میں تیڑھا لیٹا ہوا ہے اور ایک عورت اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ معلوم ہوا کہ اس شخص کو دل کا دورہ پڑا ہے اور عورت نے اپنی نشاندہی ایک نرس کے طور پہ کی ہے۔ میں اس نشست تک پہنچا اور اپنا تعارف کرایا کہ میں دل کا ڈاکٹر ہوں۔ میں نے اور لوگوں کی مدد سے مریض کو زمین پہ لٹایا اور اس کا سی پی آر شروع کیا۔ کچھ دیر کی کوشش کے بعد مریض کا دل پھر دھڑکنا شروع ہوگیا اور مریض نے آنکھیں کھول دیں۔ مریض، اس کے ساتھ سفر کرنے والی اس کی لڑکی، نرس اور دوسرے لوگ میرے شکر گزار تھے۔ میں نے جہاز کی ایمرجنسی کٹ میں موجود چند دواءیں مریض کو دیں۔ جہاز کے عملے نے مجھ سے پوچھا کہ آیا جہاز اپنے معمول سے شکاگو تک جاءے۔ میں نے مریض کو دوا تو دے دی تھی مگر مجھے معلوم تھا کہ جہاز میں وہ دواءیں نہیں تھیں جو مریض کو واقعی دی جانی چاہیے تھیں، اور اس بات کا امکان تھا کہ مریض کو دل کا دوسرا دورہ پڑے۔ میں نے جہاز کے عملے کو مشورہ دیا کہ جہاز کو جلد از جلد اتار لیا جاءے تا کہ مریض کو اسپتال لے جا کر اس کی صحیح طور پہ دیکھ بھال کی جا سکے۔ جہاز کے عملے نے میرے مشورے پہ عمل کیا اور جہاز ایل با کر کی، نیو میکسیکو میں اتار لیا گیا۔ مریض کو ایمبولینس میں ڈال کر قریبی اسپتال لے جایا گیا۔ پھر وہاں ایک اور عجیب واقعہ ہوا۔ ایک یورپی نژاد امریکی مسافر میرے پاس آیا، اس نے مجھ سے صاف اردو میں پوچھا، 'کیا آپ پاکستانی ہیں؟' میں نے کسی قدر تعجب سے اس کی طرف دیکھا اور اثبات میں اس کے سول کا جواب دیا۔ اس شخص نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ شاءن ہیومینٹی کا ٹاڈ شے ہے۔ واضح رہے کہ شاءن ہیومینٹی نامی امریکی فلاحی ادارے نے حالیہ پاکستان سیلاب کے بعد مصبت زدہ لوگوں کی بہت مدد کی ہے۔ میرا جواب سن کر ٹاڈ شے نے وہاں اور لوگوں کے سامنے تقریر شروع کر دی کہ 'دیکھو، یہ ایک پاکستانی مسلمان ہے اور اس نے ایک شخص کی جان بچاءی ہے۔ تم لوگ پاکستان کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ یہی کہ وہاں بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں اور خود کش حملہ آور معصوم لوگوں کو مارتے رہتے ہیں؟ یہ شخص اس بات کی مثال ہے کہ پاکستانی بھی تمھاری طرح ہیں اور دل میں انسانیت کا درد رکھتے ہیں۔ تم نے خود دیکھا کہ یہ شخص کس طرح دوڑ کر آیا اور اس نے ایک آدمی کی جان بچا لی۔' میں ٹاڈ شے کی یہ تقریر سن کر سب کے سامنے شرمندہ ہو رہا تھا کہ آخر ایسی کیا بات ہوگءی، میں نے کونسا تیر مار دیا، میں ڈاکٹر ہوں، لوگوں کی جان نہیں بچاءوں گا تو کیا کروں گا۔ اور ٹاڈ شے نے اسی تقریر پہ اکتفا نہیں کیا، اس نے سی این این میں اپنی جان پہچان کے لوگوں کو فون کر دیا۔ چنانچہ جب جہاز ایل با کر کی سے شکاگو پہنچا تو سی این این کا عملہ میرے استقبال کے لیے وہاں موجود تھا۔ وہاں میرا انٹرویو ہوا۔"
تو یہ تھی ہمارے عزیز کی داستان۔ اوریہ ہے آج کے مسلمان کی راءج پہچان۔ کہ مسلمان اوروں کو مارنے کے درپے ہیں۔ اور اس درمیان کوءی باریش مسلمان کسی کی جان بچا لے تو لوگ حیرت سے اسے دیکھتے ہیں کہ یہ آپ نے کیا کیا، آپ سے اس طرح کی تو کوءی توقع نہیں تھی۔

تصویر بشکریہ
http://www.nhlbi.nih.gov

Labels: , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?