Monday, November 01, 2010
کشمیر میں آزادی کی بلند ہوتی صداءیں
لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ایک معاشرے میں رہنا ایک قدیم عمل ہے۔ اور جب کبھی بہت سارے لوگ ایک ساتھ رہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ ان کے مشترکہ معاملات کو کس کے حکم سے چلایا جاءے۔ کون یہ فیصلہ کرے کہ کونسا عمل ٹھیک ہے اور کونسا لاءق سزا؟ لوگوں کی ایسی ایک جماعت جو پورے معاشرے کے لیے ایسے فیصلے کرے حکومت کہلاتی ہے۔ تاریخی طور پہ حکومت کا سربراہ ایک مطلق العنان شخص ہوتا تھا جو کبھی معمولی مشاورت سے اور اکثر عقل کل بنا امور ریاست چلایا کرتا تھا۔ ایسے شخص کو کہیں بادشاہ، کہیں سلطان، کہیں راجہ، اور کہیں ناءب خدا کہا جاتا تھا۔ ایسا مطلق العنان سربراہ مملکت سلطان آءین ہوا کرتا تھا۔ مملکت کا قانون اس کے تابع تھا۔ وہ جسے چاہے سزا دے جسے چاہے معاف کردے۔
پھر زمانہ آگے بڑھا، چھاپہ خانہ ایجاد ہوا اور ایسے عوام کو جن میں بہت سارے پڑھے لکھے لوگ شامل ہوں شاہی نظام تلے قابو میں رکھنا مشکل ہوگیا۔ سلطانی جمہور کا زمانہ آیا۔ آءین، ملک کے ہر فرد سے بلند تر قرار پایا۔ یہ طے پایا کہ معاشرے میں قانون کی بالادستی ہوگی۔ اعلی سے اعلی عہدے پہ فاءز شخص قانون کے تابع ہوگا۔ اور قوانین جمہور کی مرضی سے بنیں گے۔ امور مملکت چلانے کے معاملے میں عوام کی مرضی جمہوری نظام سے حاصل کی جاءے گی۔ جمہوری نظام حکومت و نظام تشکیل قوانین یا عام فہم زبان میں جمہوریت وہ طریقہ ہے جس میں ریاست کا ہر فرد ووٹ کے ذریعے ایسے نماءندے منتخب کرتا ہے جو قانون سازی کا کام کرتے ہیں اور حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں۔ اس طریقہ حکومت میں احتساب کا سب سے موثر اور اکثر حالات میں واحد ذریعہ انتخابات ہوتے ہیں۔ اگر منتخب نماءندے چننے کے معاملے میں لوگوں سے غلطی ہوگءی ہے تو وہ اگلے انتخابات میں اس غلطی کو نہیں دہراءیں گے اور دوبارہ ان لوگوں کو منتخب نہیں کریں گے جنہوں نے اپنے طرز عمل سے انہیں مایوس کیا ہے۔
تو اگر جمہوریت ایسا ہی صاف شفاف دھلا دھلایا سوچا سمجھا نظام حکومت ہے تو پھر کءی ممالک میں جمہوریت ناکام کیوں نظر آتی ہے؟ اور بالخصوص وہ کونسے حالات ہیں جب کسی جمہوری ملک میں رہنے والے لوگوں کا ایک گروہ آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور بظاہر یہ بات عجیب معلوم دیتی ہے۔ جب ایک جمہوری نظام میں ہر شخص کی مرضی ہی سے امور مملکت چلاءے جا رہے ہیں تو آخر کوءی شخص کیوں چاہے گا کہ ایسے اچھے نظام سے نکل جاءے؟ مگر عجیب معلوم دینے کے باوجود اضطراب کی ایسی مثالیں بہتیری ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان میں جمہوری روایت مستحکم ہے۔ انگریز کے جانے کے بعد ہندوستان میں قاءم ہونے والا جمہوری نظام بغیر کسی رکاوٹ کے چل رہا ہے۔ اس کے باوجود منی پور، ناگالینڈ، آسام، کشمیر، اور دوسرے کءی علاقے ہندوستان سے آزادی چاہتے ہیں۔
پرانی دنیا میں کءی جگہوں پہ جمہوری نظام کی ناکامی پرانی دنیا کے تنوع آبادی کی وجہ سے ہے۔ جمہوریت اعداد کا کھیل ہے چنانچہ ایسی جگہ جہاں لوگوں کے مختلف گروہ رہتے ہوں جمہوریت گروہی اختلافات کا میدان بن سکتی ہے۔ اکثریتی گروہ اپنی عددی برتری کی وجہ سے حکومت پہ چھا جاتا ہے اور اس بات کا کوءی امکان نہیں رہتا کہ کوءی بھی اقلیتی گروہ شماریات کی یہ جنگ کبھی جیت پاءے گا۔ جب کبھی اقلیتی گروہ ایسی زیادتی اور دھاندلی محسوس کرتا ہے وہ آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔
جمہوری نظام اور سلطانی نظام میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ جمہوری نظام جمہور یا عوام کی خوشی چاہتا ہے جب کہ سلطانی نظام میں سلطان کی خوشی ساری باتوں پہ مقدم ہے۔ یہ بادشاہوں کا طریقہ کار تھا کہ وہ بڑی سے بڑی ریاست قاءم رکھنے پہ فخر محسوس کرتے تھے۔ کسی بادشاہ کے لیے یہ بات باعث افتخار ہوتی تھی کہ اس کا سکہ کتنی دور تک چلتا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک کا اولین مقصد یہ ہرگز نہیں کہ بڑے سے بڑا علاقہ اس کے زیر اثر آجاءے۔ جمہوری نظام حکومت کا اولین مقصد تو لوگوں کی خوشی ہے۔جمہوریت کا مطلب ہی لوگوں کی آرا کو سننا اور ان کو اہمیت دینا ہے۔ لوگوں کو ڈنڈے کے زور پہ کسی جمہوری مملکت کا حصہ بناءے رکھنا اپنے اندر شدید نظریاتی تضاد رکھتا ہے۔ چنانچہ کسی جمہوری ملک میں جب ایک علاقے کے رہنے والے لوگ آزادی کا مطالبہ کریں تو ان کی بات غور سے سنی جاءے اور اور اگر یہ آواز علاقے کی اکثریت کی آواز ہو تو اسے مانا جاءے اور جمہوری مملکت جمہور کی راءے کا احترام کرتے ہوءے اپنی سرحدات سکیڑے اور مذکورہ علاقے کی آزادی کا مطالبہ تسلیم کرے۔
تصویر بشکریہ
http://ibnlive.in.com
Labels: Azadi, Freedom for Kashmir, Jammu and Kashmir, Pakistani and Indian held Kashmir, stone-throwers