Sunday, September 26, 2010
بدین کی مرغیاں
غالبا دو سال پہلے کی بات ہے۔ رات کافی ہو چکی تھی مگر نیند میری آنکھوں سے غائب تھی۔ میں انٹرنیٹ پہ ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا اور دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ چھ ارب سے اوپر لوگوں کو اچھا معیار زندگی دینا بہت ضروری ہے مگر جدید معیار زندگی کے چونچلوں میں قدرتی ماحول پہ ضرب کتنی کاری ہے؟ اتنے سارے لوگ اگر مغربی دنیا کے ٹکر کا معیار زندگی قاءم کریں تو کتنی فضاءی آلودگی پھیلے گی اور اتنے لوگوں کا کوڑا کہاں جاءے گا؟ اس موضوع پہ انٹرنیٹ پہ تلاش کے دوران مجھے یوسف جینکینز کی کتاب "ہیومینیور" مل گئی۔ اس کتاب کا موضوع ایسا تھا کہ اس نے مجھے فورا ہی جکڑ لیا۔ کتاب کو پڑھتا پڑھتا میں صبح کے اس پہر سویا جب خدا کے نیک بندے شبینہ عبادت کر کے سوتے ہیں۔ یوسف جینکینز کی اس کتاب نے مجھ پہ گہرا اثر کیا اور مجھے ایک نءے راستے پہ سوچنے پہ مجبور کیا۔ جینکینز کی کتاب انسانی فضلے سے متعلق ہے۔ جینکینز کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پہ جانوروں کے فضلے کی طرح انسانی فضلے کو بھی کارآمد سمجھا جاتا تھا مگر صنعتی انقلاب کے بعد رفتہ رفتہ آنے والی بہت سی تبدیلیوں میں جب بیت الخلا کا نظام جدید ہوا تو پانی کے آسان نظام نکاسی کے ساتھ فضلہ بھی مسءلہ بنتا گیا۔ یوسف جینکینز کہتا ہے کہ جیسے جیسے انسانی آبادی بڑھتی جاءے گی بیت الخلا کا راءج استعمال درد سر بنتا جاءے گا کیونکہ موجودہ نظام میں پانی کا استعمال کثرت سے ہے اور فضلے کو مسءلہ سمجھا جاتا ہے۔ یوسف جینکینز خود اپنے فضلے کو اپنے باغ میں کھاد کے طور پہ استعمال کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہم سب بھی ایسا کریں۔
یوسف جینکینز کی کتاب نے مجھے اپنے بچپن کے ایک مشاہدے کے بارے میں سوچنے پہ مجبور کر دیا۔ میرے بچپن کی چند خوشگوار یادوں میں بدین کے ایک گاءوں میں گزارا جانے والا وقت بہت انمول ہے۔ ہمارے ایک عزیز بدین میں کھیتی باڑی کرتے تھے اور ہمیں بہت محبت سے اپنی زمین پہ بلاتے۔ ہم بچوں کو کراچی کی تیززندگی اور دھواں آلود ماحول سے باہر نکل کر بدین جانا بہت اچھا لگتا۔ اپنے ان عزیز کے گھر میں ہماری بےحد خاطر مدارات ہوتی مگر ہمارے لیے بدین کے اس گاءوں میں ایک مشکل مرحلہ صبح بیت الخلا کا استعمال ہوتا۔ اس گاءوں میں فلش ٹاءلٹ کی ٹیکنالوجی نہیں پہنچی تھی۔ فراغت کے لیے کھڈیاں تھیں۔ کہنے کو تو ایک شخص کھڈیوں کی صفاءی پہ معمور تھا مگر ایک عجیب معاملہ تھا کہ گھر کی پلی مرغیاں اس شخص کا کام بہت ہلکا کردیتی تھیں۔ سردیوں کی ایسی صبح جب آپ گھر سے کچھ فاصلے پہ موجود سرد بیت الخلا میں کسی حد تک بے آرام ہوتے آپ کو اندازہ ہوتا کہ دروازے کے باہر مرغیاں بے تابی سے آپ کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ آپ دروازہ کھول کر باہر نکلتے اور مرغیاں تیزی سے اندر کی طرف جھپٹتیں۔ وہ مرغیاں بھاپ چھوڑتے فضلے کو ذرا سی دیر میں چٹ پٹ کر جاتیں۔ پھر یہی مرغیاں انڈے دیتیں اور ہم ان انڈوں کو رغبت سے کھاتے۔
دنیا کے وساءل پہ آبادی کا جو دباءو بڑھ رہا ہے وہ ہم سے اسی قسم کی سوچ چاہتا ہے کہ ہم اپنے مساءل کو انتہاءی نچلی سطح پہ حل کریں، نہ کہ اپنے چھوٹے چھوٹے انفرادی مساءل کومعاشرے کا بڑا مسءلہ بنا دیں۔ اپنے باورچی خانے کے کوڑے کی کمپوسٹنگ اور اپنے فضلے کا استعمال وہ راستے ہیں جن سے ہم زندگی کے چکر کو ایک چھوٹے داءرے میں مکمل کر سکتے ہیں۔ میں ایک عرصے سے اپنے باورچی خانے کے کوڑے کی کمپوسٹنگ کرتا ہوں اور پورا ارادہ رکھتا ہوں کہ فضلے کو کارآمد بنانے کا کام بھی جلد شروع کروں گا۔
تصویر بشکریہ
http://musegreen.com
Labels: Badin, chicken eating poop, Composting of human waste, cycle of life, feces eating chicken, Humanure, Joe Jenkins, Joseph Jenkins, Loveable Loo