Monday, November 23, 2009

 

نون میم راشد کی زندگی اور فن پہ اردو اکیڈمی کا اجلاس






انٹرنیٹ علم کا ایک ایسا گنجینہ ہے جس کی نظیر نہ تو تاریخ میں کہیں ملتی ہے اور نہ ہی اس عہد میں کوئی ایسا کتب خانہ ہے جہاں انٹرنیٹ پہ موجود معلومات کا عشرعشیر بھی موجود ہو۔ انٹرنیٹ کی اس وسیع گرفت کے باوجود ایسا ممکن ہے کہ کسی خاص موضوع پہ انٹرنیٹ پہ معلومات موجود نہ ہو۔ اردو میں نثری شاعری کے ایک بہت بڑے نام ن م راشد کے سلسلے میں انٹرنیٹ پہ اسی قسم کی کوتاہی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ پچھلے اتوار کے روز اردو اکیڈمی شمالی کیلی فورنیا کی جانب سے منعقد کی گئی "ن م راشد، زندگی اور فن" نامی ادبی نشست میں راشد کے پرستاروں نے اس عظیم شاعر پہ پیش کیا جانے والا تحقیقی مواد دلچسپی سے سنا اور راشد کی زندگی کے کئی نامعلوم پہلو دریافت کیے۔ اس محفل کی صوتی فائل یہاں موجود ہے:
http://www.archive.org/details/NoonMeemRashid--urduAcademysMehfilOnNov222009

اوپر موجود تصویر میں نگیش اوادھانی کو ن م راشد کی نظم "زندگی سے ڈرتے ہو" پڑھتے دکھایا گیا ہے۔

Labels:


 

نامور شاعر اور نثرنگار پروفیسر منیب الرحمن کا شمالی کیلی فورنیا کا دورہ






ممتاز اردو شاعر اور نثرنگار پروفیسر منیب الرحمن علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور پھر مشی گن کی اوک لینڈ یونیورسٹی میں پڑھانے کے بعد اب این آربر، مشی گن میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پچھلے دنوں پروفیسر منیب الرحمن نے شمالی کیلی فورنیا کا دورہ کیا۔ ان کے اعزازمیں ایک ضیافت کا اہتمام اعجاز سید صاحب کے گھر کیا گیا۔ اس موقع پہ پروفیسر منیب الرحمن نے حاضرین کی فرمائش پہ اپنی نظمیں غفلت، کبھی تم نہیں، اور احساس سنائیں۔
غفلت ["ابھی عمر پڑی ہے"] ایک ایسے شخص کی کسک ہے جس نے جوانی میں بہت سارے خواب دیکھے تھے مگر پھر دنیا کے گورکھ دھندوں میں مشغول ہو گیا اور جب پیران سالی کو پہنچا تو خیال آیا کہ جوانی کے خوابوں پہ عملدرآمد کرنے کا وقت تو نکل چکا تھا۔ "کبھی تم نہیں" [کبھی میں نہیں، کبھی تم نہیں] اس تیز رفتار زندگی کا بیان ہے جس میں قریبی رشتوں کے لوگ بھی مشکل ہی سے ایک دوسرے کے لیے وقت نکال پاتے ہیں۔
پروفیسر منیب الرحمن کے تفصیلی حالات زندگی جلد ہی اس بلاگ پہ شائع کیے جائیں گے۔

پروفیسر منیب الرحمن پہ انگریزی میں ایک بلاگ پوسٹ یہاں موجود ہے۔
http://cemendtaur.blogspot.com/

Labels:


Sunday, November 08, 2009

 

پالو آلٹو میں دل کا سالانہ اجلاس





پالو آلٹو میں دل کا سالانہ اجلاس

علی حسن سمندطور

نومبر سات۔ متمول پاکستانی تارکین وطن کے قائم کردہ فلاحی ادارے دل، ڈیولیمپنٹس ان لٹریسی، کا سالانہ اجلاس پالو آلٹو میں ہوا۔ محفل کے مقرر خصوصی ڈاکٹر عادل نجم تھے۔ اپنی تقریر میں عادل نجم نے کہا کہ پاکستانی انفرادی طور پہ تو کامیاب ہونا جانتے ہیں مگر بحیثیت قوم بالکل ناکام ہیں۔ انہوں نے سنہ ۲۰۰۷ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق، جو ان کی نگرانی میں انجام پائی تھی، سے اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ شمالی امریکہ میں رہنے والے پاکستانی فلاحی مد میں دل کھل کر عطیات دیتے رہے ہیں۔
تقریب کے مہمان خصوصی مشہور کتاب 'تھری کپس آف ٹی' [چائے کے تین پیالے] کے مصنف گریگ مورٹینسن تھے مگر وہ ناسازئی طبیعت کی وجہ سے پروگرام میں شرکت نہ کر پائے۔ ان کی جگہ سینٹرل ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے بورڈ ممبر ڈاکٹر عبدالجبار نے حاضرین سے خطاب کیا۔
دل کی معتمدین اعلی پارو یوسف اور عنبرین جمال نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ حاضرین محفل کو دل اور نیویارک ٹائمز کے کالم نگار نکولس کرسٹوف کے اشتراک سے تیار کی جانے والی ایک ڈاکیومینٹری فلم دکھائی گئی جس میں حکومت پاکستان کے قائم کردہ اسکولوں کی زبوں حالی کے ساتھ دل کی طرف سے چلائے جانے والے اسکولوں میں بچوں کو تعلیم حاصل کرتا دکھایا گیا تھا۔ ناظرین کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کی گئی کہ جدید تعلیم پاکستانی بچوں کو ان شدت پسند مدرسوں کی جانب جانے سے بچاتی ہے جہاں بچوں کی مفت تعلیم کے ساتھ رہائش اور کھانے پینے کا انتظام بھی مدرسوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ تقاریر اور عشائیے کے بعد معروف گلوکارہ طاہرہ سید نے سامعین کو اپنے سدا بہار گیتوں سے محضوظ کیا۔

Labels: , , , , , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?