Wednesday, October 28, 2009

 

کیا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے؟



کیا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے؟




اس بحث میں سب سے پہلے تو یہ پوچھیے کہ اس بات کا کیا مطلب ہے کہ، " اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔"
مذکورہ جملے میں لفظ "مکمل" اور لفظ "ہے" تو سمجھ میں آتے ہیں مگر جملے کے بقیہ دو الفاظ یعنی لفظ "اسلام" اور لفظ "ضابطہ حیات" کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے لفظ ضابطہ حیات۔
ضابطہ حیات سے مراد ہے قوانین اور ہدایات کا ایک ایسا مجموعہ جو پوری انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرے۔ گویا ضوابط کی ایک ایسی فہرست جو پیدائش سے موت تک تمام انسانی موضوعات [روحانی، جسمانی، جنسی، معاشی، عمرانی، وغیرہ، وغیرہ] کے بارے میں کھل کر حکم دے کے اس موضوع سے تعلق رکھنے والے معاملات کس طور سے حل کیے جائیں۔

دوئم لفظ اسلام۔
اسلام سے کیا مراد ہے؟
ایک ارب مسلمانوں سے یہ سوال پوچھا جائے تو ہر شخص اپنے مسلک کے حساب سے اسلام کی ایک نئی تعریف پیش کرے گا۔ مگر کیونکہ بات ضابطہ حیات کی ہو رہی ہے اس لیے یقینا یہاں اسلام سے مراد اسلامی قوانین و ضوابط ہیں۔ تو یہ اسلامی قوانین و احکامات ہمیں کہاں ملیں گے؟ ظاہر ہے کہ یہ ہدایات القرآن میں ملیں گی۔ ان ہدایات میں شاید احادیث کو بھی شامل کر لیا جاتا اگر دین اسلام سے تعلق رکھنے والے تمام مسالک ان احادیث پہ متقق ہوتے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ ایک مسلک کا شخص جس حدیث کو صحیح مانتا ہے، دوسرا اس کو بالکل ضعیف قرار دیتا ہے۔ گویا اگر آپ اسلام کو مکمل ضابطہ حیات جانتے ہیں اور اس ضابطہ حیات کو ایک ارب مسلمانوں پہ یکساں طور سے لاگو کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس ہدایت کے لیے صرف قرآن ہے۔ مگر قرآن میں تو صرف ان موضوعات کا حوالہ ہے جو یا تو عمومی نوعیت کے ہیں یا ایک مخصوص دور سے متعلق تھے۔ مثلا اگر مجھے ٹریفک قوانین کے سلسلے میں قرآن سے ہدایت لینی ہو تو مجھے بتا دیجیے کہ میں کس آیت سے یہ معلوم کروں کہ اسکول کے سامنے سے گزرنی والی سڑک پہ کس رفتار سے گاڑی چلانی چاہیے؟ یا اگر میں کسی ہوائی اڈے کے کنٹرول ٹاور میں کام کرتا ہوں اور یہ استفسار کروں کہ ایک ہوائی اڈے سے بیک وقت پرواز کرنے اور زمین پہ اترنے والے جہازوں کے بارے میں ہدایات کس آیت قرآنی میں درج ہیں، تو ذرا اس سلسلے میں میری مدد فرما دیجیے۔ یا اگر میں جاننا چاہوں کہ قرآن انٹرنیٹ کے ذریعے وائرس بھیجنے والوں کے لیے کیسی سزائیں تجویز کرتا ہے تو اس سلسلے میں لاگو مکی اور مدنی آیات کی نشاندہی فرما دیجیے۔ اور واضح رہے کہ مجھے گول مول جوابات نہیں چاہئیں کہ "شر سے بچو"،"یا شر پھیلانے والا جہنمی ہے۔" میں نے جو مثالیں دی ہیں ان میں فوری اور واضح ہدایت کی ضرورت ہے۔ ان معاملات میں روز جزا کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ اور اگر مجھے کسی عمومی ہدایت ہی سے اپنے لیے تفصیلی احکامات نکالنے ہیں تو پھر درج ذیل جملہ بھی مکمل ضابطہ حیات ہے:
اچھے انسان بنو۔
بس ہو گیا ضابطہ حیات۔ اب آپ نکالتے رہیے اس جملے سے گنجینہ ہائے دانش اور ہدایت کے چشمے۔

قصہ مختصر یہ کہ قرآن سمیت کسی آسمانی کتاب میں ہر دور کے موضوعات کے متعلق احکامات موجود نہیں ہیں۔ با الفاظ دیگر کوئی دین بشمول اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے۔ ہر دور میں تشکیل ضوابط حیات اور قانون سازی کا کام اس عہد کے لوگوں کو ہی کرنا ہے۔ وہ لوگ قانون سازی کے اس عمل میں قرآن سے ہدایت ضرور لے سکتے ہیں اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہر قدم پہ ہمیں قرآن سے ہدایت لینی چاہیے مگر اپنی اس مقدس کتاب کو مکمل ضابطہ حیات سمجھنا جہالت کےعلاوہ کچھ نہیں ہے۔

اور اب کیونکہ یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ "اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے"، اگر کوئی شخص کبھی یہ بات کھل کر کہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے تو بعض جذباتی مسلمان اس بات کا یوں برا مانتے ہیں کہ جیسے ان کے دین کو خدانخواستہ نیچا دکھا دیا گیا ہو۔ یہ ایک لغو بات ہے، ایسی ہی لغو بات ہے کہ جیسے کوئی مولوی یہ مشہور کر دے کہ ہمارے پیارے نبی اڑ سکتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ یہ بات پورے میں پھیل جائے اور بہت سے لوگ اس من گھڑت بات کا یقین کر لیں۔ اور کبھی ایک شخص سچی بات کہے کہ حضور اکرم پرندوں کی طرح ہوا میں پرواز نہیں سکتے تھے تو یہ جذباتی لوگ اس بات کا برا مانیں اور سمجھیں کہ حضور پاک کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے۔ ارے میرے بھائی جو بات سچ ہے وہ سچ ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ نہ ہمارے نبی پاک اڑ سکتے تھے اور نہ ہی اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔

تصویر از
http://www.ummah2.com

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?