Monday, January 07, 2008
دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن
یہ جو محبت کرنا ہے یہ بہت نقصان کا سودا ہے۔
اپنی جائے پیدائش سے محبت کرنا۔ اپنے وطن کا بھلا چاہنا۔ اور خاص طور پہ ایک ایسے ملک کے لیے امیدیں رکھنا جس کے راہ نما اور لوگ آپ کو مستقل مایوس کرتے جائیں۔ یہ تو سراسر دل جلانے کا سامان ہے۔ کہ آپ دیکھتے جائیں اور خون کے آنسو روتے جائیں۔
کہ پہلے ایک راہ نما عورت کو گولی مار کر ختم کر دیا جائے اور اس پہ آپ کا دل خراب ہو۔ اور پھر اس ظالمانہ قتل پہ خوب فساد ہو، عمارتوں اور گاڑیوں کو نظر آتش کر دیا جائے، لوگوں کو مارا جائے۔
نہ جانے کیا موقع تھا کہ فیض نے کہا تھا،
آج مجھ سے نہ پوچھو، میرے دوستو
دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن
فیض کو گزرے دو دہائیاں ہو گئیں مگرپاکستان سے محبت کرنے والے لوگ، اس کا بھلا چاہنے والے لوگ آج بھی خوشیاں منانے کے دنوں سے نہ صرف یہ کہ بہت دور ہیں بلکہ دور تر ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر از
21stcenturysocialism.com