Monday, November 19, 2007

 

احمد سلیم اور ان کا فن






احمد سلیم سے ملاقات کے بعد میں سوچتا رہا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، آخر کیوں اہم ہے؟ اگر وہ پاکستان کے تاریخی دستاویزات کو محفوظ کرنے کا اپنا کام ترک کردیں تو کیا ہوگا؟ ان کی اس ترک محبت سے دنیا اور پاکستان کو کیا نقصان پہنچے گا؟

میں حال میں احمد سلیم سے جامعہ کیلی فورنیا برکلی میں ملا۔ وہ امریکن انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز کی دعوت پہ امریکہ آئے ہوئے تھے۔ یہ ادارہ ہر سال دو پاکستانی دانشوروں کو اپنے خرچے پہ امریکہ بلاتا ہے۔ پھر ہر دانشور کو تین مختلف جامعات کا دورہ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس سال احمد سلیم کے علاوہ آصف فرخی اس ادارے کی دعوت پہ امریکہ آئے تھے۔ احمد سلیم نے اپنے دورے کے لیے جامعہ وسکانسن، میڈیسن؛ جامعہ کیلی فورنیا، برکلی؛ اور جامعہ ٹیکسس، آسٹن کا انتخاب کیا تھا۔

احمد سلیم 1945 میں پنجاب کے ایک گائوں میاں گوندل میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے سات بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پہ تھے۔ ان کا گھرانہ کپڑا فروشی کا کام کرتا تھا۔ آج بھی ان کے دوسرے بھائی کپڑے اور جوتے بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ احمد سلیم نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں میں ہی حاصل کی مگر پھر میٹرک کے لیے پشاور چلے گئے۔ پشاور میں وہ فارغ بخاری، محسن احسان، رضا ہمدانی، اور جوہر میر جیسے اہل علم لوگوں سے ملے۔ اور یہی وہ وقت تھا کہ جب ہم ایک اہم آدمی کو کپڑا اور جوتا فروشی کے کاروبار میں کھونے سے بچ گئے، وہ شخص قلم سے رشتہ استوار کر بیٹھا۔ میٹرک کرنے کے بعد احمد سلیم کراچی پہنچ گئے اور اردو کالج میں پڑھنے لگے۔ انہیں دنوں رسالہ افکار نے ایک مقابلہ منعقد کیا جس میں طلبہ کو فیض کی شاعری پہ اظہار رائے کی دعوت دی گئی۔ احمد سلیم مقابلے میں شریک ہوئے اور فیض پہ لکھی ان کی نظم کو پہلا انعام ملا۔ اس وقت فیض کراچی کے عبداللہ ہارون کالج میں پرنسپل تھے۔ فیض کی دعوت پہ احمد سلیم اردو کالج چھوڑ کر عبداللہ ہارون کالج پہنچ گئے۔ یہیں سے احمد سلیم اور فیض کے درمیان ایک تعلق قائم ہوا جو فیض کی موت تک جاری رہا۔

صحافت، شاعری، اور ترجمے کے میدانوں سے گزرتے ہوئے احمد سلیم رفتہ رفتہ آرکائیو )تاریخی دستاویزات کی حفاظت( تک آئے ہیں۔ احمد سلیم بتاتے ہیں کہ جب 1990 میں ادارہ جنگ نے انہیں پاکستان کی اسمبلیاں ٹوٹنے کی تاریخ رقم کرنے کا کام دیا تو انہیں احساس ہوا کہ ملک میں آسانی سے دستیاب تحقیقی مواد کی کس قدر کمی ہے۔ وہیں سے احمد سلیم کا ایک سفر شروع ہوا اور 2001 میں انہوں نے دوسرے رفقائے کار کے ساتھ مل کر دستاویزات محفوظ کرنے کے لیے ایک ادارہ سائوتھ ایشیا ریسرچ اینڈ ریسورس سینٹر کے نام سے قائم کیا۔ آج وہ ادارہ بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔

جامعہ برکلی میں احمد سلیم کی گفتگو کا عنوان تھا،پاکستان میں آرکائیو کی حفاظت اور فروغ۔ اپنی تقریر میں احمد سلیم نے بتایا کہ پاکستان میں محققین کو سب سے زیادہ دشواری حکومتی اداروں سے تاریخی دستاویزات حاصل کرنے میں ہوتی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب پچیس سال سے پرانی دستاویزات کو ظاہر کرنے کا قانون پاس ہوا تو ساتھ ایک شق جوڑ دی گئی کہ "بشرطکہ پچیس سال پرانے اس مواد کو پبلک کرنے سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ نہ ہو"۔ آج حکومتی اداروں میں بیٹھے افسران معلومات نہ فراہم کرنے کے سلسلے میں اسی شق کو بہانہ بنا دیتے ہیں۔

"سنہ 1860 کا مواد اب تک کلاسیفائڈ ہے۔ بھگت سنگھ پہ مقدمے کی کاروائی اب تک کلاسیفائڈ ہے،" احمد سلیم نے حاضرین کو بتایا۔ جھنجلاہٹ ان کے لہجے سے عیاں تھی۔

احمد سلیم نے پشاور کے نیشنل آرکائیو سے گرو رام سنگھ کے خطوط حاصل کرنے کی کوشش کے سلسلے میں اپنا تجربہ بیان کیا۔ [جب انگریزوں نے گرو رام سنگھ کو رنگون جلا وطن کر دیا تو گرو جیل سے اپنے شاگردوں کو خط لکھا کرتے تھے۔ یہ خطوط اب تک پشاور میں موجود ہیں۔] پشاور میں آرکائیو کے ڈائریکٹر نے احمد سلیم سے پوچھا کہ گرو رام سنگھ کے خطوط حاصل کرنے کے لیے انڈیا نے احمد سلیم کو کتنی رقم دی تھی۔
"اس کا انڈیا سے کیا تعلق؟ مجھے گرو رام سنگھ کے مذہب سے کیا مطلب؟ میں تو انہیں آزادی کے ایک متوالے کے طور پہ جانتا ہوں۔"

احمد سلیم نے حاضرین کو بتایا کہ کس طرح پاکستان بھگت سنگھ کو بھلا دینا چاہتا ہے۔ بھگت سنگھ ایک حریت پسند نوجوان تھا جو اپنے ملک کی آزادی چاہتا تھا۔ اسے 1931 میں انگریزوں نے پھانسی کی سزا دی تھی۔
"بھگت سنگھ پاکستان کا فرزند زمین تھا۔ وہ بنگہ، تحصیل جڑاں والاں میں پیدا ہوا تھا۔ بھگت سنگھ کے مقدمے کے تمام کاغذات آج بھی لاہور ہائی کورٹ میں موجود ہیں۔"
مگر احمد سلیم کو ان کاغذات تک رسائی نہ دی گئی کیوں کہ ان کاغذات کا سرعام کرنا "پاکستان کی سالمیت کے خلاف تھا۔"

یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ پاکستانی سرکار اس دھرتی کے غیر مسلم حریت پسندوں کے کارنامے کیوں بھلا دینا چاہتی ہے۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بنا تھا، اور آزادی کی اس جدوجہد میں غیر مسلموں کا نام آئے تو پاکستانی سرکار کو یہ بات بہت کھلتی ہے۔

احمد سلیم نے اپنی گفتگو میں دیال سنگھ لائبریری میں موجود نادر کتابوں پہ گزرنے والی قیامت کا حال بھی سنایا۔ دیال سنگھ لاہور کا ایک متمول تاجر تھا۔ دیال سنگھ کی وفات پہ اس کی وصیت کے مطابق اس کی دولت کا ایک بڑا حصہ ایک ٹرسٹ کو دے دیا گیا تھا۔ ٹرسٹ نے دیال سنگھ اسکول، دیال سنگھ کالج اور دیال سنگھ لائبریری قائم کی۔

"جنرل ضیاالحق نے دیال سنگھ لائبریری کی تمام ہندی اور گورمکھی کتابوں کو پھینک دینے کا حکم دیا۔ وہ قیمتی کتابیں لائبریری کے برابر سے گزرنے والے ایک گندے نالے میں پھینک دی گئیں۔"

احمد سلیم نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح پاکستانی معاشرہ تاریخ سے نابلد ہے اور بے شعور ہے اور اس بے شعوری میں کس طرح نادر دستاویزات ضائع کر دی جاتی ہیں۔
"میاں افتخار الدین کانگریس کے لیڈر تھے اور بعد میں مسلم لیگ کے لیڈر ہن گئے۔ وہ پاکستان ٹائمز نامی اخبار کے مالک تھے۔ سنہ 1955 میں جب چین کے پریمئیر چو این لائی پاکستان آئے تو میاں افتخار الدین نے ان کی میزبانی کی۔"

احمد سلیم نے بتایا کہ کس طرح انہیں ایک پرانی کتابوں کی دکان سے ایک فوٹو البم ملا جس میں میاں افتخار الدین اور ان سے متعلق افراد کی تصاویر تھی۔ اس البم میں چو این لائی کی بھی تصاویر تھیں اور طارق علی )انگلستان میں مقیم پاکستانی نژاد مصنف( کی بھی۔ احمد سلیم کو بتایا گیا کہ میاں افتخار الدین کے انتقال کے بہت عرصے بعد جب ان کے اہل خانہ ایک دوسرے گھر میں منتقل ہوئے تو سارے پرانے کاغذات پھینک دیے گئے۔ اور ان کاغذات میں وہ فوٹو البم بھی شامل تھا جو احمد سلیم نے صرف دو سو روپے میں خریدا۔

اسی طرح جب کمیونسٹ لیڈر سردار شوکت علی کا انتقال ہوا تو ان کے اہل خانہ نے سارے پرانے کاغذات ایک کباڑیے کو بیچ دیے۔ ان کاغذات میں سردار شوکت علی کی سوانح کا مسودہ بھی تھا۔ اس وقت وہ سوانح چندیگڑھ سے نکلنے والے رسالے پریت لڑی میں قسط وار چھپ رہی تھی۔
جب احمد سلیم نے سردار شوکت علی کی بیوہ سے اس بارے میں استفسار کیا تو خاتون نے کہا کہ شوکت علی خاندان کی کفالت کا انتظام تو بخوبی کرتے تھے مگر انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کے بارے ميں کبھی گھر پہ کوئی بات نہ کی، اس لیے خاندان والوں کو علم ہی نہ تھا کہ وہ کیا کر رہے تھے اور وہ جو کچھ کر رہے تھے اس کی کیا اہمیت تھی۔
"یہ ہمارے خطے کی سیاسی شخصیات کا خاص طریقہ ہے۔ وہ زمانے کو بدلنے کی باتیں تو کرتے ہیں مگر اپنے اہل خانہ کو اپنے خوابوں میں شامل نہیں کرتے۔"

گو کہ جامعہ برکلی میں احمد سلیم کی گفتگو میں ایسی بہت سی باتیں تھیں جنہیں سن کر سامعین کو جھرجھری آ گئی مگر احمد سلیم نے اپنی تقریر ایک پرامید بات پہ ختم کی۔ احمد سلیم نے بتایا کہ وہ ایک عجائب گھر برائے جنگ آزادی بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بھگت سنگھ کے گھر میں رہنے والا خاندان، جو گورداسپور سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا، وہ گھر خالی کرنے پہ راضی ہو گیا ہے تا کہ وہاں بھگت سنگھ یادگاری عجائب گھر قائم کیا جا سکے۔

ڈائنوسار اور ایسے دوسرے دیو ہیکل جانور کروڑوں سال پہلے ناپید ہوگئے۔ آج ہم جو کچھ ڈائنوسار کے بارے میں جانتے ہیں وہ ہمیں ان جانوروں کی محفوظ شدہ ہڈیوں سے معلوم ہوا ہے۔ ڈائنوسار کی زندگی سادہ تھی۔ انہوں نے نہ تو کوئی عظیم شان معاشرہ تشکیل دیا تھا اور نہ ہی گیت و نغمے لکھے، اس لیے ان جانوروں کے بارے میں زیادہ کچھ جاننے کے لیے ہے ہی نہیں۔ مگر پھر بھی کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر وقت کے اسی دور میں ایک ذہین مخلوق ہوتی جو ان جانوروں کا بغور مطالعہ کرتی اور پھر اپنے اس مشاہدے کو تحریر کر دیتی اور ہمیں آج وہ تحریر مل جاتی۔ اسی خیال کو آگے بڑھایے اور خواہش کیجیے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر قدیم مصر میں مورخین ہوتے اور ہمیں آج ان مورخین کی کتابیں مل جاتیں۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ہر نبی کے ساتھ ایک مورخ چلتا جو اس نبی کی دن بہ دن سرگرمیوں کو تحریر کرتا اور آج ہمیں وہ سب کچھ محفوظ شدہ مل جاتا۔ ہمارے لیے ماضی کے اس وقت کے بارے میں جاننا کس قدر آسان ہوجاتا۔
ان دلیلوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی دور کا ریکارڈ محفوظ کرنا اور خاص طور پہ ایسی شخصیات سے متعلق تاریخی دستاویزات محفوظ کرنا جن کے عمل سے بہت سے لوگ متاثر ہوئے ہوں، ایک احسن کام ہے۔ ایک ایسا احسن کام جس کا اندازہ اس دور میں شاید نہ ہو جس میں یہ کام کیا جارہا ہو مگر وقت کے ساتھ ساتھ جس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے۔ میں برکلی سے واپس گھر آتا ہوا سوچ رہا تھا کہ احمد سلیم ایک بہت اہم آدمی ہیں۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں ہمارے لیے تو اہم ہے ہی مگر آج سے پانچ سو سال بعد کے محققین کے لیے سونے میں تولنے کے قابل کام ہے۔

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?