Saturday, August 25, 2007

 

قرہ العین حیدر




میں باقاعدگی سے ڈائری لکھتا ہوں۔ میری اس سال کی ڈائری میں مارچ پچیس اور چھبیس کے دن ناامیدی سے عبارت ہیں۔ ایسی ناامیدی کہ جس کا احساس اس سمے نہ تھا مگر آج ہے۔ کہ ان تاریخوں میں میں دلی میں تھا مگر اپنی خواہش اور ارادے کے باوجود قرہ العین حیدر سے نہ مل پایا۔
قرہ العین حیدر دنیا سے گزر گئیں۔
مگر ان کی تحریریں ہمارے پاس موجود ہیں، زندہ ہیں۔ ، اور زندہ رہیں گی۔
اور یہی آرٹسٹ کا کمال ہے کہ وہ اپنے پیچھے ایسا خزانہ چھوڑ جاتا ہے کہ جس سے لوگ مستقل مستفید ہوتے رہتے ہیں اور اس استفادے کی بنیاد پہ آرٹسٹ کو یاد رکھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ادب کیا ہے اور قرہ العین حیدر کا فن ہمارے لیے کیوں اہم ہے؟
ادب زندگی کی کہانی ہے۔ زندگی کے تمام موضوعات ادب کے موضوعات ہیں۔ خوشی، غم، موت، پیدائش، نفرتیں، محبتیں، جنسی تعلقات، رقابتیں، رنجشیں، جشن۔ ادب ان تمام موضوعات اور ان کے متعلق خیالات اور محسوسات کا محاکمہ کرتا ہے۔
انسان کو اپنے آغاز کی جستجو ہے۔ وہ اپنی انتہا کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ ادب اپنے آپ کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔
جب جب ایک انسان دوسرے انسان سے معاملہ کرتا ہے، ایک کہانی جنم لیتی ہے۔ انسان سے انسان کے معاملے کے بہت سے دائوپیچ ہیں۔ اور ہر دائو پیچ کی ایک الگ جہت ہے۔ کبھی مرد اور عورت کے تعلقات کی گہماگہمی ہے، کبھی لوگون کا نسل، زبان، مذہب، یا تمدن کی بنیاد پہ ٹکرائو ہے۔
زندگی شروع کیسے ہوئی ، یہ ایک راز ہے۔ مگر ایک دفعہ زندگی کے آغاز کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر ارتقائی عمل کے سہارے آگے بڑھتے بڑھتے حال کے اس لمحے تک پہنچنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ کہ ارتقائی عمل کا لاکھوں برس جاری رہنا اور پھر انسان کا درختوں سے نیچے اتر آنا۔
پھر لاکھوںسال پہلے لوسی کے بچوں کا افریقہ سے نکلنا اور دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل جانا۔ کچھ لوگوں کا برفانی علاقوں میں بس جانا، اور کچھ کا گرم و مرطوب علاقوں میں رہ جانا۔ اور پھر ان مختلف گروہوں کا ان جغرافیائی خطوں میں ہزاروں سال رہتے رہنا۔ اور ان جغرافیائی خطوں کی آب و ہوا کا وہاں رہنے والوں کے جسموں پہ اثرانداز ہونا۔ اور یوں چند ہزار سالوں کے ایک دوسرے سے بچھڑنے پہ لوگوں کا نسلوں میں بٹ جانا۔ اور پھر جب لوگوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا تو طویل عرصے پہلے اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کی شکلیں دیکھ کر حیران ہونا۔ اور پھر نسلی فرق کو لڑائی جھگڑے کا سبب بنا لینا۔ اور اس سے ایک کہانی کا جنم لینا۔
اور ایک اور جہت یہ کہ انسان کا بستیوں کی صورت میں بسنا۔ اور زراعت دریافت کرنا۔ اور غلہ بانی کے طریقے جان جانا۔ اور پھر کھانے پینے کا سہارا ہوجانا تو زندگی کا مقصد تلاش کرنا۔ اور پھر اپنی سوچ سے خدا تک پہنچنے کی جستجو کرنا۔ اور سوچ کے ان راستوں کو مختلف مذاہب کی شکل دینا۔ اور پھر ایک گروہ کا دوسرے گروہ سے مذہبی اختلاف پہ لڑنا۔ اور اس سے ایک اور کہانی کا جنم لینا۔
اور ایک اور جہت وہ کہ انسان کا دوسرے جانوروں پہ اس طرح بھاری ہونا کہ منہہ سے نکلنے والی آوازوں کو طرح طرح کی صوتی شکلیں دینا۔ اور پھر بولی ایجاد کرنا۔ اور پھر پرتنوع حالات میں اس ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنا۔ اور پھر ایک انسانی گروہ کا دوسرے انسانی گروہ سے سامنا ہونا تو زبان کی بنیاد پہ ایک دوسرے سے لڑجانا۔ اور اس لڑائی سے ایک اور کہانی کا جنم لینا۔
اور ایک اور جہت وہ کہ انسان کا اپنے جسم کو سردی اور دھوپ سے بچانے کے لیے پتوں سے ڈھانپنا۔ اور بزاروں سال کے عمل سے کپڑے ایجاد کرنا۔ اور پھر اپنے اپنے علاقوں کی آب و ہوا کے حساب سے ان کپڑوں کی تراش خراش کرنا۔
اور پھر اپنے گروہ کو دوسرے گروہ کے حملے سے محفوظ کرنے کے لیے سیاسی نظام وضع کرنا۔ اور معاشرے میں نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے اخلاقی اقدار وضع کرنا۔ اور پھر زبان، رہن سہن، سیاسی نظام اور اخلاقی اقدار کو اپنی ثفاقتی پہچان بنا لینا۔ اور پھر ایک انسانی گروہ کا دوسرے انسانی گروہ سے ثقافتی فرق پہ لڑجانا۔ اور اس محاذ آرائی سے ایک اور کہانی کا جنم لینا۔
جب جب ایک انسان دوسرے انسان سے معاملہ کرتا ہے، ایک کہانی جنم لیتی ہے۔ ادب انسانی معرکوں کی اس وسیع کائنات پہ محیط دستاویزہے۔
قرہ العین حیدر کا فن یہ ہے کہ انہوں نے ادب کے اس وسیع و عریض کینوس کے مختلف گوشوں پہ اپنی جاندار تحریروں سے خوب صورت نقش نگاری کی ہے۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?