Saturday, August 18, 2007

 

ساٹھ سال




میں اکثر اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ لوگ اپنی شناخت کے سلسلے میں دوسروں کے دیے ہوئے ناموں کواپنے آپ سے یوں والہانہ کیوں چمٹا لیتے ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ ہندو ہیں،یا پاکستانی ہیں،یا مسلمان ہیں، یا بنگلہ دیشی ہیں اور وہ یہ باتیں بغیر سوال کیے مان جاتے ہیں۔ پھر وہ اس شناخت پہ اتراتے ہیں، فخر کرتے ہیں، اور دوسروں سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

یہ تو محض اتفاق ہے کہ آپ کسی گروہ میں پیدا ہوگئے۔ پھر اس گروہ کی شناخت کو اپنی شناخت بنا لینا کہاں کی عقلمندی ہے؟
شناخت کے یہ لیبل، یہ بھاری بھرکم پیراہن تو دراصل خود سلاسل ہیں بیڑیاں ہیں جو انسان کو ماضی کی زنداں میں مقید رکھتی ہیں۔
کہ انسان اپنی اصل شناخت تو خود بناتا ہے۔
کہ خود آگہی کا یہ سفر آپ طے کرنا ہے، کسی سہارے کے بغیر، اپنے شعور کی صلیب خود اپنے کاندھے پہ ڈال کر آگے بڑھنا ہے۔
اور خود آگہی اور خود شناسائی کے اس سفر میں ایک ایک قدم آگے بڑھتے جب انسان اوروں کے پہنائے شناخت کے پیراہن اتارتا جاتا ہے، پھینکتا جاتا ہے، تو آزاد ہوتا جاتا ہے۔

Labels: ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?