Wednesday, June 20, 2007
اچھی حکومت کی تلاش
چند ہی روز پہلے میری بات فون پہ پاکستان میں ان لوگوں کے ساتھ ہو رہی تھی جن کے ساتھ میں آج کل کام کررہا ہوں۔ کراچی میں بلا کی گرمی پڑ رہی تھی اور اس کے ساتھ بجلی بارہ بارہ گھنٹے غائب تھی۔ میرے ساتھ کام کرنے والے وہ لوگ بہت پریشان تھے اور یہ پریشانی ان کا مقدر صرف اس لیے بنی ہے کہ وہ ایک نااہل حکومت کے زیراثر زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ بات کی تہہ تک جائیں تو دراصل ملک سے فرار ہونے والے ہم سب لوگ نااہل اور کم عقل حکمرانوں سے ہی تو بھاگے ہیں۔
زمانہ قدیم میں لوگ ایک اچھے بادشاہ کی دعا مانگا کرتے تھے۔
اچھا بادشاہ میسر آجائے تو رعایا خوش ہو جاتی تھی اور لوگ بادشاہ کی درازی عمر کی دعائیں مانگتے نہ تھکتے تھے۔ اور اچھا بادشاہ ہونے کی کسوٹی یہ نہ تھی کہ بادشاہ اپنے خزانے سے لوگوں کو مفت چیزیں بانٹے۔ بلکہ اچھا بادشاہ وہ تھا جس کے دور میں لوگ محفوظ محسوس کریں اور کوئی انہیں تنگ نہ کرے۔ لوگ محنت سے کام کرنا چاہیں اور حق حلال سے اپنا حصہ حاصل کرنا چاہیں تو انہیں ایسا کرنے دیا جائے۔ ایک ایسا بادشاہ جو اصول و قانون سے ملک کا انتظام چلائے اور انصاف سے حکومت کرے۔
پھر زمانہ آگے بڑھا اور یہ خیال ہوا کہ حاکم اپنی مرضی سے نہ آئے بلکہ ایک شوری کی مرضی سے چنا جائے۔ اور کم و بیش ایسا ہونے لگا۔ پھر بات اور آگے بڑھی، بادشاہت کا زمانہ ختم ہوا اور پڑھے لکھے لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ خاموشی سے بیٹھ کر ایک ایسے مطلق العنان کی راہ دیکھنا جو منصف بادشاہ بن کر حکومت کرے بہت بڑا جوا ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ مشاورت کا ایسا وسیع نظام قائم کیا جائے جس میںسب کے مشورے سے ایک شخص کو محدود مدت کے لیے حکمرانی کا اختیار دیا جائے اور حکمران کو مسقل احتساب کے عدسے میں رکھا جائے۔ مشاورت کے اسی انتظام کا نام جمہوریت ہے۔
آج دنیا بھر میں لوگ زمانہ قدیم سے زمانہ جدید تک کے مختلف نظریات حاکمیت کے تحت اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
مگر نظام حکومت کسی طرز کا ہو، عوام کی توقعات وہی پرانی ہیں۔ انہیں ایسا حاکم چاہیے جو انصاف سے حکومت کرے، نظام مملکت چلانے کا اہل ہو، اور لوگوں کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے۔
وہ سارے ممالک جہاں سے لوگ نکل نکل کر بھاگ رہے ہیں ایسے ہی ہیں جہاں حکومت نااہل اور غیر منصف ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ایسی جگہوں پہ کیا کام کیا جائے کہ وہاں کے لوگوں کو اس نااہلی سے بچا لیا جائے۔ اس سوال کے کئی جوابات ممکن ہیں۔ ایک جواب، ایک حل میرے پاس بھی ہے جو میں اس خیال کی اگلی قسط میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔