Sunday, February 18, 2024

 

دھاندلی کے الزامات۔ ثبوت ندارد

 
دھاندلی کے الزامات۔ ثبوت ندارد



آٹھ فروری کو ہونے والے پاکستانی انتخابات کے سلسلے میں بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں خدشات وتحفظات ہیں۔ کیا چنائو کے سرکاری نتائج عوامی جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کیا ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور نگراں حکومت/بااثر ادارے اپنی مرضی کے امیدواروں کو جتانے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟ ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی انتخابات میں ہارنے والے شور مچا رہے ہیں کہ چنائو میں دھاندلی ہوئی ہے اور ہارنے والے کو زبردستی ہرا گیا ہے۔ مگر دھاندلی کیسے ہوئی ہے، اس کا کیا ثبوت ہے، اس بارے میں دھاندلی کا شور مچانے والے بات نہیں کرتے۔
آئیے پاکستانی انتخابی عمل کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ انتخابات میں دھاندلی کیسے ممکن ہے۔

پاکستانی انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے میں کئی پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں۔ ہر پولنگ اسٹیشن میں الیکشن کمیشن کے حکام کے علاوہ انتخابی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹ بھی موجود ہوتے ہیں۔ حق رائے دہی استعمال کرنے کا عمل ان تمام لوگوں کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ پولنگ کے اختتام پہ تمام پولنگ ایجنٹ کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے، پولنگ اسٹیشن میں موجود الیکشن حکام اس گنتی کو فارم پینتالیس پہ نقل کرتے ہیں، اور ہر انتخابی جماعت کا پولنگ ایجنٹ اس فارم پینتالیس کی نقل حاصل کرسکتا ہے۔

اگلے مرحلے میں حلقے میں موجود تمام پولنگ اسٹیشن سے فارم پینتالیس اکٹھا کیے جاتے ہیں اور ان کی مدد سے فارم سینتالیس بھرا جاتا ہے جس میں موجود گنتی سے واضح ہوتا ہے کہ حلقے سے کونسا امیدوار صوبائی اسمبلی کے لیے اور کونسا امیدوار قومی اسمبلی کے لیے کامیاب ہوا۔

کیونکہ ہر پولنگ اسٹیشن میں موجود کسی بھی سیاسی جماعت کے پولنگ ایجنٹ اپنے پولنگ اسٹیشن کے فارم پینتالیس کی نقل اپنی سیاسی جماعت کو فراہم کرسکتے ہیں اس لیے کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دیکھ سکے کہ آیا الیکشن کمیشن کی طرف سے شائع ہونے فارم سینتالیس میں لکھی گئی ووٹوں کی تعداد صحیح ہے یا نہیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ اس انتخابی عمل میں دھاندلی کہاں ممکن ہے؟
۱۔ دھاندلی پولنگ اسٹیشن کی سطح پہ ممکن ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پولنگ اسٹیشن پہ کسی خاص جماعت کے ووٹروں کو حق رائے دہی استعمال نہ کرنے دیا جائے۔ کیا آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں کسی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی احتجاج کیا؟ ہرگز نہیں۔
 
۲۔ دھاندلی پولنگ اسٹیشن کی سطح پہ اس طرح سے بھی ممکن ہے کہ پولنگ اسٹیشن پہ کسی خاص جماعت کے ایجنٹ کو پولنگ اسٹیشن میں نہ بیٹھنے دیا جائے۔ کیا کسی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی احتجاج کیا؟ ہرگز نہیں۔

۳۔ دھاندلی پولنگ اسٹیشن کی سطح پہ اس طرح سے بھی ممکن ہے کہ پولنگ کے اختتام پہ کسی خاص جماعت کے ایجنٹ کو یا ایک مخصوص جماعت کے ایجنٹ کے علاوہ باقی سب کو ووٹوں کی گنتی کے عمل میں نہ شامل کیا جائے۔ کیا کہیں ایسا ہوا؟ کیا کسی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی احتجاج کیا؟ ہرگز نہیں۔

۴۔ دھاندلی اس طرح سے بھی ممکن ہے کہ ہر پولنگ اسٹیشن سے فارم پینتالیس تو صحیح گنتی سے الیکشن کمیشن تک پہنچائے جائیں مگر فارم سینتالیس میں گڑبڑ کی جائے۔ ایسا ممکن ہے مگر اس سلسلے میں دھاندلی کا شور مچانے والے امیدواروں کو ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ اپنے حلقے سے بھیجے جانے والے تمام فارم پینتالیس کی نقول ہمیں فراہم کرنا ہونگی اور ثابت کرنا ہوگا کہ تمام فارم پینتالیس کے ووٹوں کا حاصل جمع فارم سینتالیس میں دکھائے جانے والے حاصل جمع سے مختلف ہے۔

پاکستان الیکشن کمیشن نے تمام فارم سینتالیس اپنی ویب سائٹ پہ شائع کردیے ہیں۔
https://www.elections.gov.pk/sindh-assembly

اب دھاندلی کا شور مچانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دھاندلی کا ثبوت فراہم کریں۔



Wednesday, August 09, 2023

 

نو آبا دیاتی دور میں ہمارے علاقے میں بنائے جانے والے ادارے

یہ بات غالبا پہلے بھی لکھی جا چکی ہے مگر دوبارہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ نوآبادیاتی طاقتوں کے لیے  محکوم علاقوں میں ترجیحات اپنے ملک میں ترجیحات سے مختلف تھیں۔ مثلا نوآبا دیاتی طاقتوں کے لیے یہ اہم نہیں تھا کہ مضبوط تعلیمی نظام قائم کیا جائے جس سے پورے علاقے میں خواندگی کی شرح سو فیصد حاصل ہو سکے، یا یہ بات اہم نہیں تھی کہ صحت عامہ کا خیال کیا جائے۔ نوآبادیاتی طاقتوں کی سب سے بڑی ضرورت اپنی حفاظت تھی۔ اسی لیے برطانوی سامراج نے ہمارے علاقے میں جو ادارے بنائے ان میں سب سے مضبوط ادارہ فوج کا تھا اور آج بھی یہ ادارہ بہت مضبوط ہے بلکہ اتنا زیادہ مضبوط ہے کہ باقی اداروں کو ڈنڈے کے زور پہ اپنے قابو میں رکھتا ہے۔



Monday, July 24, 2023

 

روز کی ٹٹی ٹو ڈو لسٹ میں شامل ہو گئی

 

 

 گزر گئے وہ دن جب نظام ہاضمہ خودکار تھا۔ اب تو روز کی ٹٹی بھی ٹو ڈو لسٹ میں شامل ہے۔

 

You know you are old when your daily bowl movement becomes a part of 'Things to do' list


Saturday, June 24, 2023

 

اوجھڑیاں دفنائیں، زمین زرخیز بنائیں۔

اوجھڑیاں دفنائیں، زمین زرخیز بنائیں۔




مجھے میلے ٹھیلے، تہوار بہت پسند ہیں۔ میں خوشی کے ان موقعوں کو رنگوں اور خوشبوئوں کے ساتھ جوڑتا ہوں۔ مگر ایک مذہبی تہوار ایسا ہے جسے ہم نے ، اپنی  بے وقوفی سے سخت بدبودار بنا دیا ہے اور وہ ہے بقرعید۔ جیسے جیسے  عیدالاضحی قریب آرہی ہے  میرے اندر ایک خوف بڑھتا جارہا ہے۔ کیا اب کی بار بھی ایسا ہی ہوگا جیسا ہر دفعہ ہوتا ہے؟ کیا اس دفعہ بھی  بقرعید پر قربانی کے بعد مذبح جانور کے ناپسندیدہ حصّے گھروں کے سامنے ہی ڈال دیے جائیں گے؟ اس دفعہ تو بقرعید اور بارش کا ساتھ ہوگا۔ سڑنے والی آلائش بارش کے ساتھ مل کر تیزی سے پھیلنے والی وبائی بیماریوں کا سبب نہ بن جائے؟
پاکستان کی اکثر آبادیوں میں  عید الاضحی کے بعد تمام اہل محلہ کی ایک اجتماعی قربانی شروع ہوجاتی ہے اور ہم سڑنے اور تعفن پھیلانے والی آلائشوں کو مستقل سونگھتے رہتے ہیں۔ ہماری یہ اجتماعی قربانی چار مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلے مرحلے میں فقیر اور خانہ بدوش، اوجھڑیوں اور دوسرے پھینکے جانے والے حصوں میں سے اپنی پسند کا مال نوچ کر لے جاتے ہیں اور باقی ماندہ کو وہیں پھیلا جاتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ان ٹکڑوں پہ کتے اور بلیاں حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنی رغبت کے حصّے نوچتے ہیں۔ تیسرا مرحلہ سب سے تکلیف دہ ہوتا ہے جس میں مختلف بیکٹیریا ان آلائشوں پہ جھپٹتے ہیں اور پھر سڑنے کی بو چہارسو پھیل جاتی ہے۔ سڑتی ہوئی یہ اوجھڑیاں مختلف خطرناک بیماریوں کے جراثیم کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔ جلد یا بدیر یہ جراثیم ہوا میں اڑ کر انسانوں تک پہنچتے ہیں اور ان کو بیمار کردیتے ہیں۔ چوتھے مرحلے میں ہوا سے اڑنے والی گرد کے ساتھ یہ فضلہ ذرہ ذرہ ہر سمت میں اڑتا ہے اور تقریباً محرم کے آخر تک لوگ اس اجتماعی قربانی سے فارغ ہوتے ہیں۔
بقرعید کے بعد تعفن سے بچنے کا ’آسان حل یہ ہے کہ آلائش کو دفن کردیں۔ قربانی سے پہلے ساڑھے تین فٹ قطر کا دو فٹ گہرا گڑھا کھودیں۔ اگر جانور زیادہ ہوں تو اسی تناسب سے گڑھے کے حجم میں اضافہ کرلیں۔ عید پہ قربانی کے جانور کو گڑھے پہ ذبح کریں تاکہ تمام خون گڑھے میں چلا جائے۔ مذبح جانور کا گوشت بناتے وقت ایک پلاسٹک فرش پر بچھا لیں تاکہ تمام آلائشوں کو صفائی کے ساتھ ایک جگہ جمع کیا جاسکے اور فرش پر خون بھی نہ لگنے پائے۔ ممکن ہو تو یہ کام گڑھے سے قریب کریں۔ آلائشوں کو گڑھے میں ڈال دیں۔ پلاسٹک کو گڑھے کے اوپر دھو لیں۔ [پلاسٹک کو گڑھے میں نہ ڈالیں۔] یہ کام مکمل کرنے کے بعد گڑھے کو پر کردیں اور اضافی مٹی اس کے اوپر ہی ڈھیر کردیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ یہ تمام مدفون آلائشیں بہترین قسم کی کھاد میں تبدیل ہوجائیں گی۔ آلائشوں کا حجم کم ہونے کی وجہ سے مٹی اندر دھنس جائے گی اور اضافی مٹی تقریباً اپنی سطح پہ واپس آجائے گی۔ اس قسم کی ’آلائش قبروں‘ کے اوپر نہایت موئثر طریقے سے درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ آلائشوں کو دفن کرنے کے لیے یہ گڑھے آپ اپنے باغ میں، یا  سڑک کے قریب درخت لگانے کی منصوبہ بندی سے کھود سکتے ہیں۔ اس دفعہ  بقرعید سے دو روز پہلے ہی یا تو خود ایسے گڑھے کھود لیں یا کسی مزدور کو رقم دے کر یہ کام کروالیں۔
ہوسکتا ہے آپ  مجھے بتائیں کہ آپ کے شہر میں  بلدیہ کی کارکردگی بہت بہتر ہوگئی ہے اور علاقے سے اوجھڑیاں فوراً ہی اٹھا لی جاتی ہیں۔ اس صورت میں بھی آلائشوں کو دفن کرنا زیادہ اچھا ہے کیونکہ ایک طرف تو آپ اس طرح اپنی زمین کو زرخیز بنا رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف بلدیہ کے اخراجات کو بچانے کے علاوہ آپ اپنے ماحول کو بہتر بنا رہے ہوتے ہیں کیونکہ جب کوڑا اٹھانے والا ٹرک کم چلے گا تو کم دھواں آپ کے ماحول میں داخل ہوگا۔ مزید یہ کہ ٹرک کم چلنے کی وجہ سے تیل کی بچت ہوگی اور ملک کا زرمبادلہ بچے گا۔

اوجھڑیاں دفناتے ہوئے آپ کو ہرگز اس شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ جہاں اوجھڑی دفن کی جارہی ہے وہاں سے بو آئے گی۔ جس طرح قبرستان میں آپ کو کوئی بو نہیں آتی حالانکہ ہر طرف سینکڑوں لاشیں زمین کے نیچے گل سڑ رہی ہوتی ہیں، اسی طرح اوجھڑی کی ان قبروں سے بھی بدبو آنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔

ہوائی جہاز کا سفر محیر العقل ہے۔ آپ ایک خاص ماحول میں ہوتے ہیں جہاں کی اپنی خوشبو، اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ پھر سفر کے لیے آپ ہوائی جہاز میں سوار ہوتے ہیں۔ اس ہوائی جہاز کا اپنا ایک جدا ماحول ہوتا ہے۔ سفر کے اختتام پہ ہوائی جہاز آپ کو ایک بالکل مختلف جگہ پہنچا دیتا ہے۔ آپ ہوائی اڈے سے نکل کر جب نئی جگہ کو دیکھتے ہیں اور اس نئے ماحول میں سانس لیتے ہیں تو آپ کے لیے اس جگہ کے رنگ و بو کا مقابلہ پچھلی جگہ سے کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ کراچی کے شہریوں کے لیے کتنی شرمندگی کی بات ہے کہ جب آپ کراچی ہوائی اڈے سے باہر نکلیں تو شہر سے آپ کا پہلا تعارف بدبو کے زوردار بھبکے کے ذریعے ہوتا ہے۔ فضا میں رچی بسی یہ بدبو ہوائی اڈے کے چاروں طرف موجود کوڑے کے ڈھیروں سے آرہی ہوتی ہے۔
برائے مہربانی اپنے شہر کی اس ناگوار بدبو میں اوجھڑیوں کا تعفن شامل نہ کریں۔ اس بقرعید پہ اوجھڑیوں اور جانوروں کی دیگر آلائشیں قربانی کے فورا بعد زمین میں دفن کردیں۔

دنیا اچھے لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ نیک لوگ کسی کا برا نہیں چاہتے۔ انہیں اگر بتایا جائے کہ ان کے کسی عمل سے دوسروں کو نقصان پہنچ رہا ہے تو یہ لوگ فورا اپنے عمل میں تبدیلی لانا چاہیں گے۔ اس شہر کے رہنے والے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے عیدالضحی کے موقع پہ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ مگر پھر قربانی کے بعد وہ ایسا کام کرتے ہیں جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ قربانی کے بعد جانور کی آلائشوں کو یوں ہی سڑک کے کنارے پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ فضلہ ہر قسم کے جراثیم کی آماجگاہ بنتا ہے؛ وہ جراثیم جو لوگوں کو بیمار کرنے اور انہیں جان سے مارنے کی سکت رکھتے ہیں۔ یہ کہاں کی نیکی ہے کہ آپ اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے ایک کام کریں اور پھر اس کام کے مضمرات سے لوگوں کو تکلیف پہنچے اور قیمتی جانیں ضائع ہونے کا امکان ہو؟ برائے مہربانی قربانی کرنے سے پہلے آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کریں۔ جانوروں کی آلائش کو تلف کرنے کا سب سے آسان اور مثبت طریقہ اسے زمین میں دفن کرنا ہے۔

گوشت اور چھیچھڑے چیلوں اور دوسرے پرندوں کی مرغوب غذا ہیں۔ بڑے پرندے اگر  اڑتے ہوئے ہوائی جہاز سے ٹکرائیں تو یہ جہاز کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں اور مسافروں کی ہلاکت کا سبب بن سکتے ہیں۔
کراچی کوڑے کا شہر ہے۔ اس کوڑے میں عیدالاضحی  کا کوڑا شامل کرکے جہازوں کے حادثے کا اہتمام نہ کریں۔ برائے مہربانی قربانی کرنے سے پہلے آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کریں۔ جانوروں کی آلائش کو تلف کرنے کا سب سے آسان اور مثبت طریقہ اسے زمین میں دفن کرنا ہے۔

حیرت انگیز طور پہ ترقی پذیر ممالک ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ ان ممالک کی مشترکہ اقدار میں ایک واضح قدر شہروں میں آوارہ کتوں کی بہتات ہے۔ اور شہروں میں آوارہ کتوں کی فوج اس لیے پائی جاتی ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں کوڑا اٹھانے کا موثر نظام نہیں ہوتا اور آوارہ کتوں کو جگہ جگہ پھیلے کوڑے سے کھانا ملتا رہتا ہے۔
پاکستان کے ہر شہر میں آوارہ کتے پائے جاتے ہیں۔ گاہے بگاہے یہ کتے لوگوں کو کاٹتے ہیں اور ایسی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اس بقرعید پہ اپنے شہر میں موجود کوڑے میں قربانی کے جانور کی آلائشیں مت شامل کریں۔ برائے مہربانی قربانی کرنے سے پہلے آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کریں۔ جانوروں کی آلائش کو تلف کرنے کا سب سے آسان اور مثبت طریقہ اسے زمین میں دفن کرنا ہے۔



Sunday, May 21, 2023

 

ہمارا سچا قائد، عمران خان

 ہمارا سچا قائد، عمران خان



عمران خان کے بدترین دشمن بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ عمران خان مغربی سامراجی طاقتوں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکتا ہے۔ مسلمانوں کی قوت سے خوفزدہ، ان طاقتوں کو اچھی طرح پتہ ہے کہ عمران خان کی قیادت میں اگر مسلم امہ جاگ گئی تو ان کی خیر نہیں۔

کیا عمران خان کی مخافت میں حد سے گر جانے والے لوگوں کو عمران خان کا وہ چار سالہ دور حکومت یاد نہیں جب ملک میں میں مکمل امن و امان تھا؟  یہ وہ سنہری دور تھا جب زیورات سے لدی پھندی ایک عورت سہراب گوٹھ سے حیات آباد تک بے خوف و خطر، تنہا سفر کرتی تھی اور اور کسی کی مجال نہ ہوتی تھی کہ اسے میلی آنکھ سے دیکھے۔
یہ وہ قابل رشک زمانہ تھا جب شیر اور بکری حقیقتا ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔
دنیا بھر میں پاکستان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا تھا۔ ملک سے غربت کا خاتمہ ہو چکا تھا تھا اور ڈھونڈ نے سے ایسے ضرورت مند نہ ملتے تھے جنہیں کسی قسم کی مالی مدد درکار ہو اور اسی وجہ سے اس دور میں زکوۃ کی رقم سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک بھیجی جاتی تھی۔
اس عہد بے مثال کے چند نا قابل تردید حقائق  ملاحظہ فرمائیے:
پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 10 کھرب  ڈالر سے تجاوز کر چکے تھے۔
دنیا بھر میں چاول کی پیداوار میں پاکستان پہلے نمبر پہ پہنچ گیا تھا۔
گندم کی برآمد میں پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر تھا۔
گاڑیوں کے ریڈیٹر کی برآمد میں پاکستان پہلے نمبر پہ تھا۔

 یوں تو اس دور میں پورا ملک ہی جنت نظیر تھا مگر ہمارے کپتان کی ذاتی توجہ کی وجہ سے خیبر پختونخوا کو الگ ہی مقام حاصل تھا۔
خیبرپختونخوا میں ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ دس دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں۔

نیویارک ٹائمز اور دوسرے بین الاقوامی اخبارات اور جرائد لکھ چکے ہیں کہ کس طرح ہمارے قائد کے سنہری دور میں مغربی دنیا کے ہر ملک میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگتی تھی اور غیر ملکی، پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کے لیے بڑی سے بڑی رقم دینے کو تیار نظر آتے تھے۔ مگر ہمارے کپتان کی ہدایت پہ ہر پاکستانی سفارتخانے نے سیاحتی ویزوں کا کوٹہ مقرر کر دیا تھا کیونکہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ سیاحتی ویزے پہ پاکستان جانے والے غیر ملکی، غیر قانونی طور پہ ملازمت تلاش کریں گے اور ان کی پوری کوشش ہوگی کہ کسی طرح پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرلیں۔
 
ہمارے قائد کے دنیاوی کارنامے تو ضرب المثل ہیں مگر یہ بات  بھی لوگوں کے علم میں ہے کہ  عمران خان ایک نہایت پہنچے ہوئے  بزرگ ہیں جن کا شجرہ نسب خلفائے راشدین سے ملتا ہے۔
سینکڑوں بے اولاد جوڑے کپتان کی دعاؤں سے اولاد کی نعمت حاصل کر چکے ہیں۔ عمران خان مردے کو زندہ کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔
اور کون بھول سکتا ہے کہ کس طرح ہمارے کپتان کے دور حکومت سے پہلے دریائے سندھ میں مستقل سیلاب آتے تھے؟ یہ سیلاب بہت تباہی مچاتے تھے۔ پھر جب امیر مدینہ ثانی کا دور شروع ہوا تو ہمارے قائد نے ایک خط دریائے سندھ کے نام لکھا  اور اس خط کو دریائے سندھ میں ڈال دیا گیا۔ اس خط میں ہمارے کپتان نے لکھا تھا کہ 'اے دریا، تجھے پاک پروردگار کی قسم جو آئندہ تو نے خلق خدا کو تنگ کیا'۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ کس طرح دریائے سندھ میں سیلاب آنے بند ہوگئے۔


ان اوصاف کے باوجود ہمارے قائد میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ کپتان کے کمرے میں ایک چٹائی پڑی ہے جس پہ بیٹھ کر وہ دن کا بیشتر حصہ عبادت و ریاضت میں گزارتے ہیں۔ تقوی کا یہ عالم ہے کہ عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے ہیں۔
پچھلے رمضان ستائیسویں شب جب ساری رات عبادت کے بعد ہمارے کپتان نے روزہ رکھنے کا قصد کیا تو بی بی بشری نے بتایا  کہ گھر میں سوکھی روٹی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ ہمارے قائد نے سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھائی اور روزہ رکھ لیا۔ پھر جب افطار کا وقت آیا تو بی بی بشری نے بتایا کہ اب تو سوکھی روٹی بھی نہیں ہے۔ ہمارے قائد نے نمک سے روزہ کھولا اور رات گئے تک زاروقطارروتے رہے اور کہتے رہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔
 
عمران خان کے دشمن کان کھول کر سن لیں کہ ہمیں عمران خان پہ مکمل اعتماد ہے۔ اقبال نے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر، مسلم امہ کے جاگنے اور ایک ہونے کا جو خواب دیکھا تھا عمران خان اس کی تعبیر میں سرگرم عمل ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب امت مسلمہ عمران خان کی قیادت میں  یوں اٹھے گی کہ ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں ایٹم بم  ہوگا، اور دنیا ہماری ہیبت سے کانپ رہی ہوگی۔


Friday, May 05, 2023

 

کراچی کس نے بنایا؟

 



کراچی کس نے بنایا؟

 

کچھ کچھ عرصے بعد سوشل میڈیا پہ یہ بحث دیکھنے میں آتی ہے کہ کراچی کس نے بنایا۔ اس بحث کے پیچھے دو گروہ کارفرما نظر آتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جس کا کہنا ہے کہ کراچی سنہ سینتالیس کے بعد کراچی آنے والوں نے بنایا ہے۔ جب کہ دوسرا گروہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ کراچی سندھ کا ایک پرانا شہر تھا۔ سنہ سینتالیس کے بعد موجودہ بھارت سے آنے والوں نے اس شہر کو تباہ و برباد کردیا۔

 

کراچی کس نے بنایا؟

مختصر جواب یہ ہے کہ کراچی انگریزوں نے بنایا۔

 

مفصل جواب طویل ہے۔

یورپی نوآبادیاتی طاقتوں اور بالخصوص انگریز کے آنے سے پہلے ہمارے علاقے میں  ساحلی بستیاں زیادہ اہم نہیں خیال کی جاتی تھیں۔ سمندری تجارت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہمارے علاقے یعنی جنوبی ایشیا میں تجارت زمینی راستوں سے ہوتی تھی اور سمندر کے ساتھ بسنے والی آبادیاں ماہی گیر بستیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔  رنگون سے لے کلکتہ، بمبئی اور کراچی تک یہی حال تھا۔

زمینی تجارت کے راستے ہمارے علاقوں سے نکل کر، شمال میں جا کر ریشم رستوں سے مل جاتے تھے۔ ریشم راستے تجارتی قافلوں کے وہ راستے تھے جو چین سے مشرق وسطی اور یورپ کے ساتھ تجارت میں استعمال ہوتے تھے۔

یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی آمد سے پہلے ہمارے علاقوں میں وہ بستیاں اہم تھیں جو بڑی زرعی اراضیوں کے ساتھ جڑی ہوتی تھیں اور عموما ایسی ہی کوئی بستی دارالحکومت بنتی تھی اور یوں شہر بننا شروع ہوتے تھے۔ زراعت سے جڑے شہروں کی مثالوں میں موجودہ برما کا قدیم دارالحکومت مانڈلے یا ہندوستان کا دارالحکومت دہلی یا انگریز کے آنے سے پہلے سندھ کا دارالحکومت حیدرآباد شامل ہیں۔

انگریز کیونکہ سمندری راستے سے ہمارے علاقے میں آیا اس لیے انگریز کے لیے ساحلی بستیاں اہم تھیں۔ انہیں اسی راستے سے واپس وطن جانا ہوتا تھا۔ اور اسی وجہ سے نوآبادیاتی طاقتوں نے ساحلی بستیوں کو جدید شہروں کی صورت میں تشکیل دیا اور یہاں ایسی بندرگاہیں بنائیں جہاں بڑے بحری جہازوں کی آمد و رفت ممکن ہوسکی۔

سنہ 1843 میں تالپوروں کو شکست دینے کے بعد انگریزوں نے حیدرآباد کے بجائے کراچی کو سندھ کا درالحکومت بنادیا۔ واضح رہے کہ سنہ 1857 کی جنگ آزادی تک نہر سوئیز تعمیر نہیں ہوئی تھی اور انگریز جہاز پورے افریقہ کا چکر کاٹ کر جنوبی ایشیا پہنچتے تھے۔ سنہ 1869 میں نہر سوئیز کی تعمیر مکمل ہونے پہ صورتحال تبدیل ہوگئی اور انگریزوں کے لیے جنوبی ایشیا کی مغربی بندرگاہیں اہمیت اختیار کر گئیں۔ کراچی کی بندرگاہ جنوبی پنجاب سے حاصل ہونے والی کپاس کی تجارت کے لیے بہت اہم ہوگئی۔ انگریزوں نے کراچی کو ایک جدید شہر کی شکل دی اور کراچی کی بڑھتی اہمیت کی وجہ سے اندرون سندھ اور گجرات سے مخیر تاجر ]جن میں محمد علی جناح کے والد بھی شامل تھے[ وہاں آکر بسنا شروع ہوئے۔

انگریز کی جنوبی ایشیا سے روانگی کے وقت جن علاقوں کو پاکستان میں شامل ہونا تھا وہاں لاہور اور ڈھاکہ دو اہم شہر تھے مگر جناح نے کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے پہ زور دیا اور یوں سنہ سینتالیس میں ننھا شہر کراچی ایک وسیع نوزائیدہ ریاست کا دارالحکومت بن گیا۔

قیام پاکستان کے بعد جو لوگ موجودہ بھارت سے یہاں آئے وہ کراچی کے دارالحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں آئے۔

یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ انیس سو سینتالیس کے بعد پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں اور بھارت کے دارالحکومت دہلی میں آبادی کا تناسب یکسر تبدیل ہو گیا۔ سنہ سینتالیس کےبعد دہلی راتوں رات ایک پنجابی شہر بن گیا کیا جب کہ کراچی میں اترپردیش، سی پی، اور بہار سے لاکھوں کی تعداد میں آنے والوں کی وجہ سے کراچی کے سندھی اور گجراتی بولنے والے شہری اقلیت میں تبدیل ہوگئے۔

دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح کراچی بھی مستقل تبدیل ہورہا ہے۔ آج [سنہ 2023 میں[ کراچی میں اردو کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پشتو ہے ۔

 

A short history of Karachi

 


Friday, April 14, 2023

 

رمضان میں دھونس دھڑپا

 ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں ریستوراں رمضان میں بھی دن کے وقت کھلے ہوتے اور مسافروں، بیماروں، اور کفار کے لیے کھانے پینے کا سامان کرتے۔ ہر ریستوراں کے باہر ایسا بورڈ لگا ہوتا۔

مگر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ رمضان میں ریستوراں دن کے وقت بند ہوتے ہیں اور جن کا روزہ نہ بھی ہو انہیں بھوکا رہنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔



Wednesday, October 19, 2022

 

کارخانے

 کارخانے



کیا آپ کسی کارخانے میں کام کرنا پسند کریں گے جہاں کارخانے کے مالک کی کوئی خبر نہ ہو، ایک منتظم [سپروائزر] کارخانے کے سارے معاملات کا ذمہ دار ہو اور منتظم آپ کو بتائے کہ آپ کو کیا کام کرنے ہیں اور یہ بتائے کہ یہ سارے احکامات دراصل منتظم کے نہیں بلکہ کارخانے کے مالک کے ہیں؟ آپ چاہیں کہ مالک سے آپ کی براہ راست بات ہوجائے مگر ایسا ممکن نہ ہو۔ آپ کی بات صرف منتظم سے ہو سکے جو کارخانے کے مالک کی منشا آپ تک پہنچاتا ہو۔

اور ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ ایک ایسے کارخانے میں کام کریں جہاں مالک کی کوئی خبر نہ ہو اور کارخانے میں ایک سے زائد منتظمین ہوں۔ اور ان منتظمین کی آپس میں چپقلش ہو اور ہر منتظم کا دعوی ہو کہ کارخانے میں  کام کیسے ہونا ہے اس کے احکامات صرف اسے مالک کی طرف سے موصول ہوئے ہیں۔

اور یوں بھی تو ممکن ہے کہ آپ ایک ایسے کارخانے میں کام کریں جہاں مالک کی کوئی خبر نہ ہو مگر کارخانے میں ایک کتاب موجود ہو جس کے بارے میں منتظم کا کہنا ہو کہ کارخانے کے مالک نے اپنی منشا اس کتاب میں لکھ دی ہے مگر جب آپ کتاب پڑھیں تو سر کھجاتے رہ جائیں کہ کیا احکامات دیے جارہے ہیں اور لامحالہ مالک کی مرضی جاننے کے لیے آپ کو منتظم کی مدد حاصل کرنا پڑَے۔



دنیا کے مذاہب ایسے ہی کارخانے ہیں۔


Saturday, October 08, 2022

 

سفر ایران کے

 
اپریل گیارہ،
1995
ہم زاہدان سے کرمان کے لیے روانہ ہوئے تو بس میں گنتی کے پندرہ، بیس مسافر تھے۔
یہ پورے دن کا سفر تھا۔ مجھے بس اور ٹرین کا طویل سفر پسند ہے بشرطکہ وہ سفر دن کی روشنی میں کیا جائے۔ آپ کھڑکی سے لگ کر بیٹھیں اور باہر مستقل بدلتے نظارے سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔

ہم دو دن پہلے زاہدان پہنچے تھے۔ یعنی کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز تربت اور پھر دالبندین اور پھر دالبندین سے ٹیکسی کے طور پہ چلنے والے ٹویوٹا ٹرک کے ذریعے تفتان۔ تفتان پہ موجود پاکستانی چوکی پہ کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے بعد پیدل ایرانی سرحدی چوکی، میرجاوہ، اور وہاں پاسپورٹ میں دخول کی مہر لگوانے کے بعد بس سے زاہدان۔

دالبندین ہوائی اڈے سے تفتان جانے والے ڈرائیور نے ہمیں بتایا تھا کہ اس کے وسیع خاندان کے افراد ایران پاکستان سرحد کے دونوں طرف رہتے تھے اور اسے سرحد عبور کرنے کے لیے پاسپورٹ درکار نہ تھا۔ دالبندین سے تفتان جاتے ہوئے ڈرائیور کا ایک دوست بھی ہمارے ساتھ تھا۔ وہ بنگالی تھا۔ دالبندین سے تفتان کے راستے میں حد نظر کوئی آبادی، کوئی سبزہ نظر نہ آتا تھا۔ جگہ جگہ تپتی مٹی پہ کالے پائوڈر کی ایک تہہ موجود تھی۔ نہ جانے وہ کالا پائوڈر کہاں سے آیا تھا، یا کس قسم کی معدنیات تھیں؟

ہم راستے میں نوک کنڈی میں تھوڑی دیر کے لیے رکے جہاں ڈرائیور اور اس کے دوست نے کھانا کھایا تھا۔ کھانے کا بل ہمارے ذمے تھا۔ نوک کنڈی میں قابل ذکر ہندو آبادی بھی موجود تھی جو دکانوں کے ناموں سے ظاہر تھی۔

پاکستان سے ایران میں داخل ہوں تو آپ کو اچھا احساس ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ آپ کسی نسبتاً تمیزدار جگہ آگئے ہیں۔ زاہدان میں ہمارا قیام خاور ہوٹل میں تھا جہاں استقبالیے پہ موجود نوجوان کو انگریزی بولنے کا بہت شوق تھا۔ شاید وہ سیاحوں سے بات کر کے انگریزی کی مشق کررہا تھا۔

زاہدان میں ایک ٹاٹا ٹرک دیکھ کو ہم خوش ہوئے۔ ٹاٹا کے ٹرک افریقہ میں عام طور سے نظر آتے ہیں مگر ہمیں افریقہ سے آئے ایک عرصہ ہو چلا تھا۔ زاہدان میں نل سے آنے والا پانی ذائقے میں کڑوا تھا اور پینے کے قابل نہیں تھا۔ شاید تہذیب کی پہلی سیڑھی یہی ہے کہ ملک وہاں پہنچ جائے کہ اپنے شہریوں کو پینے کے قابل پانی نل سے فراہم کرسکے۔ پھر تہذیب کی ایک اور منزل کا مشاہدہ سڑکوں پہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹریفک کیسے رواں ہے، یہ عام لوگوں کی تعلیم اور سمجھ بوجھ ظاہر کرتی ہے۔ ٹریفک کے معاملے میں زاہدان پاکستان کے شہروں سے مختلف نہ تھا۔ اگر کوئی تبدیلی تھی تو وہ یہ کہ سڑکوں پہ کوئی گھوڑا گاڑی، گدھا گاڑی نظر نہیں آتی تھی۔ مگر ایران اتنا ترقی یافتہ ضرور تھا کہ وہاں سڑک پہ ملنے والی اشیائے خوردونوش صاف ستھری تھیں اور انہیں کھا کر ہم بیمار نہیں پڑے۔

میں ایران کا سفر ایک خاص وجہ سے کررہا تھا۔ میں کراچی سے دور جانا چاہتا تھا۔ دراصل مجھے ساری زندگی یہ گمان رہا ہے کہ میں لطیف بادلوں پہ سوار ہوں، میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کیا ہے، اور مجھے یہ خیال رہا ہے کہ جیسے خدا کی مرضی میری ذات میں، میرے ہر فیصلے میں حلول ہے۔ مگر پچھلے نومبر سے کراچی میں قتل و غارت گری کا جو طوفان آیا تھا اس نے میرے وجود کو بھاری کردیا تھا۔ خوف کے اس ماحول میں مجھے یہ لگنے لگا تھا جیسے میری روح کی آزادی سلب کی جارہی ہو۔ ہر بلکتی ماں کے آنسوئوں کے ساتھ میری آنکھ سے بھی آنسو ٹپکتے۔ میں نے بارہا اپنے آپ سے سوال کیا کہ یہ سب کیوں ہورہا تھا اور کب تک ہوتا رہے گا۔ مگر مجھے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا اور مجھے لگا کہ شہر میں جاری خوں ریزی میرے وجود میں سرائیت کر کے مجھے ایک خونیں درندہ بنا دے گی۔ میں خود اپنے آپ سے بہت دور چلا جائوں گا۔ مجھے یہ دوری گوارا نہ تھی اور ماحول کی تبدیلی کے لیے میں ایران میں سفر کررہا تھا۔

زاہدان سے کرمان کا سات گھنٹے کا سفر چار سو پچپن تومان میں برا سودا نہ تھا اور میں کھڑکی سے لگا بیٹھا باہر دیکھ رہا تھا۔  بس ابھی دو گھنٹے ہی چلی ہوگی کہ آہستہ ہونا شروع ہوئی اور ایک جگہ پہنچ کر رک گئی۔ وہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں تھی۔  میں نے تجسس میں کھڑکی سے آگے کی طرف دیکھا۔ ہم ایک ناکے پہ پہنچ گئے تھے۔ پاسداران انقلاب کے مسلح جوان بس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ حکم ہوا کہ سارے مسافر مع سامان بس سے اتر جائیں۔ ہم اپنا اپنا سامان لے کر بس سے اتر گئے اور حکم کے مطابق ایک قطار میں کھڑے ہونے لگے۔ ہمارا نامانوس چہرہ دیکھ کر ایک سپاہی نے تعجب سے پوچھا۔
شما بلوچ ہستید؟
ہم نے نفی میں جواب دیا اور وضاحت پیش کی کہ ہم خارجی ہیں، سیاحت کے لیے کرمان جارہے ہیں۔

اب سب لوگوں کی تلاشی شروع ہوئی۔ سامان کے ساتھ جسمانی بھی۔ باہر مسافروں کی تلاشی ہورہی تھی اور بس کے اندر دو سپاہی نشستوں کے نیچے جھانک رہے تھے اور بالا خانوں میں ہاتھ ڈال کر اطمینان کررہے تھے وہاں کوئی سامان موجود نہیں تھا۔  غیر بلوچ ہونے کی وجہ سے ہماری رسمی تلاشی ہوئی جب کہ بس کے بلوچ مسافر خصوصی تلاشی کا نشانہ بنے۔ مگر اچھا ہوا کہ بس کے تمام مسافر جانچ کا یہ امتحان پاس کرگئے۔ کسی کے پاس سے کوئی اسلحہ، کوئی آتش گیر مواد برآمد نہ ہوا۔ مسافر پھر سے بس میں سوار ہونا شروع ہوئے۔ جن بلوچ نوجوانوں کی زوردار تلاشی ہوئی تھی وہ اس ہتک آمیز سلوک پہ خوش نہ تھے۔ وہ کسی قدر خفت سے، دوسرے مسافروں سے نظریں چراتے ہوئے اپنی سیٹوں پہ بیٹھ گئے۔ بس پھر سے اسٹارٹ ہوئی اور اپنی منزل کی طرف چلنا شروع ہوگئی۔



Thursday, October 06, 2022

 

سندھی ٹوپی

سندھی ٹوپی وسطی ایشیا سے آنے والے حملہ آوروں کے ساتھ آنے والے طرز تعمیر سے متاثر ہو کر وجود میں آئی ہے۔


This page is powered by Blogger. Isn't yours?