Tuesday, July 20, 2021
بقرعید نہیں خونی عید
میٹھی عید بمقابلہ خونی عید
ایک طرف میٹھی عید ہے اور دوسری طرف خونی عید۔ خونی عید پہ کشت و خون کا بازار گرم ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں گلی محلوں میں قربانی نہیں ہوسکتی؛ عرب امارات میں نہیں ہوسکتی، مگر پاکستان میں جہاں پہلے ہی گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، سڑکوں پہ جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔
Tags: Eid Ul Azha, Eid ul Adha, Bloody Eid
Friday, July 16, 2021
اوجھڑی دفنائیں۔ ہوائی جہازوں کو حادثے سے بچائیں
اوجھڑی دفنائیں۔ ہوائی جہازوں کو حادثے سے بچائیں
گوشت اور چھیچھڑے چیلوں اور دوسرے پرندوں کی مرغوب غذا ہیں۔ بڑے پرندے اگر اڑتے ہوئے ہوائی جہاز سے ٹکرائیں تو یہ جہاز کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں اور مسافروں کی ہلاکت کا سبب بن سکتے ہیں۔
کراچی کوڑے کا شہر ہے۔ اس کوڑے میں عیدالاضحی کا کوڑا شامل کرکے جہازوں کے حادثے کا اہتمام نہ کریں۔ برائے مہربانی قربانی کرنے سے پہلے آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کریں۔ جانوروں کی آلائش کو تلف کرنے کا سب سے آسان اور مثبت طریقہ اسے زمین میں دفن کرنا ہے۔
Thursday, July 15, 2021
اوجھڑی دفنائیں۔ آوارہ کتوں کی کاٹ سے بچیں
اوجھڑی دفنائیں۔ آوارہ کتوں کی کاٹ سے بچیں
حیرت انگیز طور پہ ترقی پذیر ممالک ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ ان ممالک کی مشترکہ اقدار میں ایک واضح قدر شہروں میں آوارہ کتوں کی بہتات ہے۔ اور شہروں میں آوارہ کتوں کی فوج اس لیے پائی جاتی ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں کوڑا اٹھانے کا موثر نظام نہیں ہوتا اور آوارہ کتوں کو جگہ جگہ پھیلے کوڑے سے کھانا ملتا رہتا ہے۔
پاکستان کے ہر شہر میں آوارہ کتے پائے جاتے ہیں۔ گاہے بگاہے یہ کتے لوگوں کو کاٹتے ہیں اور ایسی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اس بقرعید پہ اپنے شہر میں موجود کوڑے میں قربانی کے جانور کی آلائشیں مت شامل کریں۔ برائے مہربانی قربانی کرنے سے پہلے آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کریں۔ جانوروں کی آلائش کو تلف کرنے کا سب سے آسان اور مثبت طریقہ اسے زمین میں دفن کرنا ہے۔
Wednesday, July 14, 2021
اوجھڑی دفنائیں۔ لوگوں کو بیماریوں سے بچائیں۔
اوجھڑی دفنائیں۔ لوگوں کو بیماریوں سے بچائیں۔
دنیا اچھے لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ نیک لوگ کسی کا برا نہیں چاہتے۔ انہیں اگر بتایا جائے کہ ان کے کسی عمل سے دوسروں کو نقصان پہنچ رہا ہے تو یہ لوگ فورا اپنے عمل میں تبدیلی لانا چاہیں گے۔ اس شہر کے رہنے والے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے عیدالضحی کے موقع پہ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ مگر پھر قربانی کے بعد وہ ایسا کام کرتے ہیں جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ قربانی کے بعد جانور کی آلائشوں کو یوں ہی سڑک کے کنارے پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ فضلہ ہر قسم کے جراثیم کی آماجگاہ بنتا ہے؛ وہ جراثیم جو لوگوں کو بیمار کرنے اور انہیں جان سے مارنے کی سکت رکھتے ہیں۔ یہ کہاں کی نیکی ہے کہ آپ اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے ایک کام کریں اور پھر اس کام کے مضمرات سے لوگوں کو تکلیف پہنچے اور قیمتی جانیں ضائع ہونے کا امکان ہو؟ برائے مہربانی قربانی کرنے سے پہلے آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کریں۔ جانوروں کی آلائش کو تلف کرنے کا سب سے آسان اور مثبت طریقہ اسے زمین میں دفن کرنا ہے۔
ط
Tuesday, July 13, 2021
اوجھڑی دفنائیں۔ تعفن دور کریں
اوجھڑی دفنائیں۔ تعفن دور کریں
ہوائی جہاز کا سفر محیر العقل ہے۔ آپ ایک خاص ماحول میں ہوتے ہیں جہاں کی اپنی خوشبو، اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ پھر سفر کے لیے آپ ہوائی جہاز میں سوار ہوتے ہیں۔ اس ہوائی جہاز کا اپنا ایک جدا ماحول ہوتا ہے۔ سفر کے اختتام پہ ہوائی جہاز آپ کو ایک بالکل مختلف جگہ پہنچا دیتا ہے۔ آپ ہوائی اڈے سے نکل کر جب نئی جگہ کو دیکھتے ہیں اور اس نئے ماحول میں سانس لیتے ہیں تو آپ کے لیے اس جگہ کے رنگ و بو کا مقابلہ پچھلی جگہ سے کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ کراچی کے شہریوں کے لیے کتنی شرمندگی کی بات ہے کہ جب آپ کراچی ہوائی اڈے سے باہر نکلیں تو شہر سے آپ کا پہلا تعارف بدبو کے زوردار بھبکے کے ذریعے ہوتا ہے۔ فضا میں رچی بسی یہ بدبو ہوائی اڈے کے چاروں طرف موجود کوڑے کے ڈھیروں سے آرہی ہوتی ہے۔
برائے مہربانی اپنے شہر کی اس ناگوار بدبو میں اوجھڑیوں کا تعفن شامل نہ کریں۔ اس بقرعید پہ اوجھڑیوں اور جانوروں کی دیگر آلائشیں قربانی کے فورا بعد زمین میں دفن کردیں۔
اوجھڑی دفنائیں۔ زمین زرخیز بنائیں۔
اوجھڑی دفنائیں۔ زمین زرخیز بنائیں۔
مجھے میلے ٹھیلے، تہوار بہت پسند ہیں۔ میں خوشی کے ان موقعوں کو رنگوں اور خوشبوئوں کے ساتھ جوڑتا ہوں۔ مگر ایک مذہبی تہوار ایسا ہے جسے ہم نے ، اپنی بے وقوفی سے سخت بدبودار بنا دیا ہے اور وہ ہے بقرعید۔ جیسے جیسے عیدالاضحی قریب آرہی ہے میرے اندر ایک خوف بڑھتا جارہا ہے۔ کیا اب کی بار بھی ایسا ہی ہوگا جیسا ہر دفعہ ہوتا ہے؟ کیا اس دفعہ بھی بقرعید پر قربانی کے بعد مذبح جانور کے ناپسندیدہ حصّے گھروں کے سامنے ہی ڈال دیے جائیں گے؟ اس دفعہ تو بقرعید اور بارش کا ساتھ ہوگا۔ سڑنے والی آلائش بارش کے ساتھ مل کر تیزی سے پھیلنے والی وبائی بیماریوں کا سبب نہ بن جائے؟
پاکستان کی اکثر آبادیوں میں عید الاضحی کے بعد تمام اہل محلہ کی ایک اجتماعی قربانی شروع ہوجاتی ہے اور ہم سڑنے اور تعفن پھیلانے والی آلائشوں کو مستقل سونگھتے رہتے ہیں۔ ہماری یہ اجتماعی قربانی چار مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلے مرحلے میں فقیر اور خانہ بدوش، اوجھڑیوں اور دوسرے پھینکے جانے والے حصوں میں سے اپنی پسند کا مال نوچ کر لے جاتے ہیں اور باقی ماندہ کو وہیں پھیلا جاتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ان ٹکڑوں پہ کتے اور بلیاں حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنی رغبت کے حصّے نوچتے ہیں۔ تیسرا مرحلہ سب سے تکلیف دہ ہوتا ہے جس میں مختلف بیکٹیریا ان آلائشوں پہ جھپٹتے ہیں اور پھر سڑنے کی بو چہارسو پھیل جاتی ہے۔ سڑتی ہوئی یہ اوجھڑیاں مختلف خطرناک بیماریوں کے جراثیم کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔ جلد یا بدیر یہ جراثیم ہوا میں اڑ کر انسانوں تک پہنچتے ہیں اور ان کو بیمار کردیتے ہیں۔ چوتھے مرحلے میں ہوا سے اڑنے والی گرد کے ساتھ یہ فضلہ ذرہ ذرہ ہر سمت میں اڑتا ہے اور تقریباً محرم کے آخر تک لوگ اس اجتماعی قربانی سے فارغ ہوتے ہیں۔
بقرعید کے بعد تعفن سے بچنے کا ’آسان حل یہ ہے کہ آلائش کو دفن کردیں۔ قربانی سے پہلے ساڑھے تین فٹ قطر کا دو فٹ گہرا گڑھا کھودیں۔ اگر جانور زیادہ ہوں تو اسی تناسب سے گڑھے کے حجم میں اضافہ کرلیں۔ عید پہ قربانی کے جانور کو گڑھے پہ ذبح کریں تاکہ تمام خون گڑھے میں چلا جائے۔ مذبح جانور کا گوشت بناتے وقت ایک پلاسٹک فرش پر بچھا لیں تاکہ تمام آلائشوں کو صفائی کے ساتھ ایک جگہ جمع کیا جاسکے اور فرش پر خون بھی نہ لگنے پائے۔ ممکن ہو تو یہ کام گڑھے سے قریب کریں۔ آلائشوں کو گڑھے میں ڈال دیں۔ پلاسٹک کو گڑھے کے اوپر دھو لیں۔ [پلاسٹک کو گڑھے میں نہ ڈالیں۔] یہ کام مکمل کرنے کے بعد گڑھے کو پر کردیں اور اضافی مٹی اس کے اوپر ہی ڈھیر کردیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ یہ تمام مدفون آلائشیں بہترین قسم کی کھاد میں تبدیل ہوجائیں گی۔ آلائشوں کا حجم کم ہونے کی وجہ سے مٹی اندر دھنس جائے گی اور اضافی مٹی تقریباً اپنی سطح پہ واپس آجائے گی۔ اس قسم کی ’آلائش قبروں‘ کے اوپر نہایت موئثر طریقے سے درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ آلائشوں کو دفن کرنے کے لیے یہ گڑھے آپ اپنے باغ میں، یا سڑک کے قریب درخت لگانے کی منصوبہ بندی سے کھود سکتے ہیں۔ اس دفعہ بقرعید سے دو روز پہلے ہی یا تو خود ایسے گڑھے کھود لیں یا کسی مزدور کو رقم دے کر یہ کام کروالیں۔
ہوسکتا ہے آپ مجھے بتائیں کہ آپ کے شہر میں بلدیہ کی کارکردگی بہت بہتر ہوگئی ہے اور علاقے سے اوجھڑیاں فوراً ہی اٹھا لی جاتی ہیں۔ اس صورت میں بھی آلائشوں کو دفن کرنا زیادہ اچھا ہے کیونکہ ایک طرف تو آپ اس طرح اپنی زمین کو زرخیز بنا رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف بلدیہ کے اخراجات کو بچانے کے علاوہ آپ اپنے ماحول کو بہتر بنا رہے ہوتے ہیں کیونکہ جب کوڑا اٹھانے والا ٹرک کم چلے گا تو کم دھواں آپ کے ماحول میں داخل ہوگا۔ مزید یہ کہ ٹرک کم چلنے کی وجہ سے تیل کی بچت ہوگی اور ملک کا زرمبادلہ بچے گا۔
Monday, July 12, 2021
کچرستان کا سب سے بڑا شہر کچراچی
Sunday, July 04, 2021
مرغے کی موجودگی کے بغیر مرغیاں انڈے کیسے دیتی ہیں؟
مرغے کی موجودگی کے بغیر مرغیاں انڈے کیسے دیتی ہیں؟
ہم نے مرحوم کو اپنی مرغیوں کی اعلی پیداواری صلاحیت کے بارے میں بتایا تو مرحوم نے استفسار کیا کہ مرغیاں تو پانچ بتا دیں تم نے، یہ بتائو کہ مرغے کتنے ہیں۔ ہم نے مرحوم کو بتایا کہ ہمارے پاس صرف مرغیاں ہیں، مرغا کوئی نہیں ہے۔ "تو پھر بغیر مرغے کے یہ انڈے کیسے؟ یہ انڈے تو ناجائز ہوئے۔"
ہمیں گاہے گاہے ایسے لوگ ملتے ہیں جو حیران ہوتے ہیں کہ ہماری مرغیاں بغیر کسی مرغے کی موجودگی کے، انڈے کیسے دی رہی ہیں؟ وہ نہایت سنجیدگی سے، اور معصومت سے سوال کرتے ہیں کہ آیا مرغیوں کے دانے میں کوئی ایسی دوا ملی ہے جس کی وجہ سے مرغیوں کو انڈے دینے کے لیے ازدواجی تعلقات کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ بلاگ پوسٹ اسی تذبذب کو ختم کرنے لیے لکھی جارہی ہے۔
وہ تمام جانور، چرند پرند جو نر اور مادہ کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں، مادہ جانور کا ایک خاص تولیدی نظام رکھتے ہیں۔ مادہ اپنے نظام تولید میں انڈے رکھتی ہے اور یہ انڈے ایک ایک کر کے خارج ہوتے ہیں۔ ہر ماہواری مدت [اس مدت کا اٹھائیس دن ہونا ضروری نہیں] میں ایک انڈہ تولیدی نظام سے نکلتا ہے اور نر مادے کے ملاپ کا انتظار کرتا ہے۔ اگر ماہواری مدت میں اس انڈے کے ساتھ نرمواد کا اشتراک ہوجائے تو انڈہ زرخیز ہوجاتا ہے اور اس انڈے سے بچہ پیدا ہوسکتا ہے۔ ممالیا میں یہ زرخیز انڈہ مادہ کے تولیدی نظام کے اندر ہی موجود رہتا ہے اور بچے کے پورے طور پہ تیار ہونے کے بعد بچہ تولیدی نظام سے نکال کر دنیا میں آتا ہے۔ پرندوں اور کیڑوں میں انڈہ ماہواری مدت ختم ہونے کے بعد باہر آجاتا ہے اور زرخیز انڈہ باہر ہی بچہ سازی کی مدت پوری کرتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ انڈہ زرخیز ہو یا نہ ہو، انڈہ ماہواری مدت پوری ہونے پہ جسم سے خارج ہوجاتا ہے۔ پرندوں اور کیڑوں میں سادہ یا زرخیز انڈہ ماہواری مدت ختم ہونے پہ جسم سے باہر نکل جاتا ہے جب کہ ممالیا میں صرف سادہ انڈہ ماہواری مدت پوری ہونے پہ جسم سے باہر خارج ہوتا ہے۔ ممالیا میں زرخیز انڈہ جسم کے اندر ہی رہتا ہے اور بچہ مکمل ہوجانے پہ بچے کا اخراج جسم سے ہوتا ہے۔
انسانوں کی ماہواری مدت اٹھائیس دن کے قریب ہے۔ یعنی ہر جوان عورت اٹھائیس دن میں ایک سادہ انڈہ ماہواری کی شکل میں جسم سے خارج کرتی ہے۔ اگر ان اٹھائیس دنوں کے اندر انڈہ نر مواد کے اشتراک سے زرخیز ہوجائے تو پھر بچے کی نشو نما اگلے نو ماہ تک مادہ کے جسم کے اندر ہی ہوتی ہے۔
مرغیوں کی 'ماہواری مدت' پچیس گھنٹے ہے یعنی ایک دن اور ایک گھنٹہ۔ ہر جوان مرغی پچیس گھنٹوں میں ایک انڈہ جسم سے خارج کرتی ہے۔ اگر مرغے کا ساتھ نہیں ہے تو یہ انڈہ سادہ رہے گا اور اگر مرغے کا ساتھ ہے تو یہ انڈہ زرخیز ہوجائے گا اور اس سے چوزہ بننے کا امکان ہوگا۔
ہمارے پاس صرف مرغیاں ہیں اس لیے ہماری مرغیاں جو انڈے دے رہی ہیں وہ سادہ ہیں، زرخیز نہیں ہیں۔