Tuesday, January 24, 2017
کچھ باتیں جاپان کی
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار
تین سو پندرہ
جنوری بائیس، دو ہزار سترہ
کچھ باتیں جاپان کی
جنگ کی بودی اخلاقیات
اوتسوکا سے شیبویا جاتے ہوئے ٹرین کے
سفر میں ایک پروفیسر کا ساتھ تھا۔ میرے لیے جاپانیوں کی شکل سے ان کی عمر کا اندازہ لگانا
مشکل ہوتا ہے۔ میں نے
پروفیسر کے سفید بالوں اور چہرے پہ موجود جھریوں کو دیکھ کر ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ
کیا ان کو وہ دن یاد تھا جب ہیروشیما پہ ایٹم بم گرایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ
ہاں، وہ دن انہیں اچھی طرح یاد تھا۔ اس وقت ان کی عمر گیارہ برس تھی۔ ان کا کہنا
تھا کہ وہ اس وقت کوکورا نامی شہر میں تھے۔ واضح رہے کہ ایٹم بم لے جانے والے جہاز
کو کوکورا پہ بم گرانا تھا۔ مگر کوکورا اس وقت دھند میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس لیے
آخری وقت پہ ایٹم بم کا عذاب گرانے کے لیے کوکورا کی جگہ ہیروشیما کا انتخاب کیا گیا۔
میں نے پروفیسر سے کہا کہ امریکہ میں
ہیروشیما پہ ایٹم بم گرانے کا یہ بہانہ رائج ہے کہ اگر ہیروشیما پہ ایٹم بم نہ
گرایا جاتا تو جنگ اور دیر تک چلتی اور جتنے لوگ ہیروشیما میں ایٹم بم سے مرے اس
سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگ جنگ جاری رہنے کی وجہ سے مرتے۔ پروفیسر یوں مسکرائے
کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ، اچھا اگر اپنے ضمیر کو بہلانے کے لیے نئی نسل کے امریکی
یوں سمجھتے ہیں تو یوں ہی سمجھتے رہیں۔ میں نے کہا کہ اس جرح سے ہیروشیما والے
ایٹم بم کی تاویل تو ملتی ہے مگر پھر کچھ ہی دنوں بعد ناگاساکی پہ دوسرا ایٹم بم
کیوں گرایا گیا؟ اپنے ضمیر کو تھپکیاں دے کر سلانے کے لیے ناگاساکی والے ایٹم بم
کا کیا بہانہ ہے؟ میرا ذہن اس بارے میں صاف نہ تھا۔ پروفیسر نے کہا کہ ناگاساکی پہ
ایٹم بم اس لیے گرایا گیا کیونکہ ناگاساکی والے ایٹم بم کا ڈیزائن ہیروشیما والے
ایٹم بم کے ڈیزائن سے مختلف تھا اور اس دوسرے ڈیزائن والے ایٹم بم کا تجربہ کرنا
ضروری تھا۔ میں بات سمجھ گیا۔ اور اگر ناگاساکی کے معاملے میں ایسا تھا تو پھر
پہلے ایٹم بم کے پیچھے بھی اسی قسم کا تجربہ کرنا مقصود رہا ہوگا۔ باقی سب تو بہانے
ہیں۔
نصف ایمان
جاپانی آدھے مومن ہیں۔ جاپانیوں نے
ایمان کا وہ نصف مضبوطی سے تھاما ہوا ہے جو دنیا والوں کے لیے ڈھکوسلے کے نماز
روزے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ آپ کو جاپان میں ہرجگہ صاف ستھری نظر آئے گی۔ کہیں
کوڑا کرکٹ نظر نہیں آئے گا۔ پاکستان میں اگر کبھی یورپ یا امریکہ کی مثال دے کر لوگوں
کو احساس دلانے کی کوشش کی جائے کہ شرم کرو، کس قدر غلاظت میں رہتے ہو، تو لوگ
مغرب کی اخلاقی برائیاں بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ نیویارک میں
فلاں سال آدھے گھنٹے کے لیے بجلی چلی گئی تھی؛ اس درمیان عصمت دری کی اس قدر وارداتیں
ہوئیں کہ نہ پوچھیے۔ کس تاریخ کو، کتنی وارداتیں، کس علاقے میں؟ ان تفصیلات میں نہ
جائیے۔ بس اتنا سمجھ جائیے کہ مغرب سے سڑے ہوئے ان لوگوں کو مغرب کی اچھی باتوں کی
طرف مائل کرنا بے سود ہے۔
اصلاح معاشرہ کا شوق رکھنے والے لوگوں
سے درخواست ہے کہ اس بیمار معاشرے کوامریکہ کا نہیں بلکہ جاپان کا ٹیکہ لگائیے۔
بتائیے کہ ارے، امریکہ کی طرح نہ بنو، تو کم از کم جاپان کی طرح ہی ہوجائو۔ جاپانی
تو ہمارے اپنے، ایشیائی لوگ ہیں۔
جاپان بمقابلہ لکھنئو
مغربی سیاحوں سے سننے کو ملتا ہے کہ
جاپانی ملنسار نہیں ہوتے، وہ غیرملکیوں سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ میرا خیال ہے
کہ جاپانی مغرب سے آنے والے لوگوں سے کتراتے ہیں کیونکہ جاپانیوں کو مغرب کی
اقدار سمجھ میں نہیں آتیں۔ جاپانیوں کو ایسے اجڈ لوگ جو دوسرے سے جھک کر نہ ملیں
عجیب لگتے ہوں گے۔ جاپانی سمجھتے ہوں گے کہ ایسے بدتہذیب لوگوں سے بات نہ ہی کی
جائے تو بہتر ہے۔
بہت سے معاملات میں جاپانی اقدار ہماری
پرانی اقدار سے میل کھاتی ہیں۔ جاپان میں بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے۔
یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بزرگوں کا احترام کیا جاتا تھا اور وہ لوگ جو
مغربی ثقافت کے زور میں نہیں بہے جارہے وہ آج بھی ان ہی پرانی اقدار پہ ڈٹے ہوئے
ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بڑی عمر کے آدمی یا عورت کو دیکھ کر ٹرین میں فورا
اپنی نشست سے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کرسی بزرگ کو پیش کردیتے ہیں۔
کسی جاپانی قصبے کا واقعہ ہے، ہمارے
جیسے ایک غیرملکی نے دیکھا کہ فٹ پاتھ پہ ایک بوڑھیا بہت آہستہ رفتار سے چلی
جارہی ہے۔ جوان لوگ جو جلدی میں ہیں بوڑھیا سے کچھ فاصلہ رکھ کر اس سے آگے بڑھ
جاتے ہیں۔ مگر پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بوڑھیا کے کان میں کچھ کہتے ہیں،
بوڑھیا سرہلاتی ہے۔ بوڑھیا کے سرہلانے پہ یہ لوگ شکریے کے لیے جھکتے ہوئے بوڑھیا
سے آگے نکل جاتے ہیں۔
تیز قدموں سے چلنے کی خواہش رکھنے والے
لوگ، سست رو بوڑھیا کے کان میں کیا کہہ رہے تھے؟
معلوم ہوا کہ پرانی اقدار کے وہ لوگ بوڑھیا سے اجازت مانگتے ہیں کہ کیا ہم
آپ سے آگے نکل جائیں؟
Labels: Atom Bomb, Hiroshima, Japan, Nagasaki, Otsuka, Shibuya
ڈاکٹر کمال مصطفی صدیقی کی یاد میں
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار تین
سو چودہ
دسمبر ستائیس، دو ہزار سولہ
ڈاکٹر کمال مصطفی صدیقی کی یاد میں
پھر چہار سو پھیلا جنگل ہے اور ہر روز سفر کا ہے۔ ایک کے بعد نامانوس ناموں
والے قصبے ہیں۔ نامتھا، اودون سائے، اور پھر موانگ پاک بینگ۔ یہ سفر ڈاٹسن پک اپ
سے طے ہورہے ہیں۔ ان پک اپ میں ایک دو خاص مسافر ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھتے ہیں،
باقی مسافر کھلے میں پیچھے بیٹھتے ہیں۔ یہ پک اپ جہاں سے گزرتی ہے گرد کا ایک غبار
اڑاتی جاتی ہے۔ گو کہ گرد کا بگولا گاڑی کے پیچھے ابھرتا نظر آتا ہے مگر ہم مستقل
ناک پہ رومال رکھے بیٹھے ہیں۔ ہم تواتر سے گھنے بن باراں سے گزر رہے ہیں۔ ایک جگہ
جنگلی مرغ اڑتا نظر آتا ہے۔ جثے میں یہ مرغ انسان کی پالتو مرغیوں سے کچھ کم نہیں
ہے۔ مرغ کو سدھائے چار ہزار سال سے اوپر کا عرصہ ہوگیا ہے مگر اس عرصے میں مصنوعی
چنائو [آرٹیفیشل سلیکشن] سے مرغ کے جثے میں بہت زیادہ فرق نہیں پڑا ہے۔ مرغ کو
سدھانے سے پہلے انڈے کھانے کے لیے جنگل جانا پڑتا تھا اور ایسے گھونسلوں کی تلاش
ہوتی تھی جہاں سے انڈے چرائے جا سکیں۔ پھر شاید کبھی ایسا ہوا ہوگا کہ کسی گھونسلے
میں انڈے کی جگہ چوزے ملے ہوں گے۔ ان چوزوں کو گھر لایا گیا ہوگا اور پھر ان کو
کھلایا پلایا ہوگا اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ چوزے مالک سے مانوس ہوتے گئے ہوں گے۔
اور پھر جب مرغیاں بننے پہ انہوں نے انڈے دینے شروع کیے ہوں گے تو خوشی منائی گئی
ہوگی۔ اور پھر یوں مرغ بانی کا آغاز ہوا ہوگا۔
ٹھوس شواہد سے انسان کی اس دنیا میں جو تاریخ ملتی ہے اس کی بڑی منازل درج ذیل
ہیں۔
انسان کا موجودہ شکل میں افریقہ سے نکلنا، آگ پہ قابو پانا اور آگ کا
استعمال، کتے کو ساتھ ملانا، کاشت کاری کا استعمال اور اپنے لیے غذا کا انتظام
کرنا، اور پھر ایک ایک کر کے کام کے جانور کو سدھانا تاکہ اناج کے ساتھ گوشت،
دودھ، اور انڈے بھی گھر بیٹھے حاصل ہوجائیں۔ ایک جگہ بیٹھ کر غذا کا اس طرح انتظام
ہونے پہ انسان کا بستیوں کی صورت میں بس جانا۔ لکھائی کا ایجاد ہونا اور پھر
تجارتی قافلوں کے ذریعے ایجادات اور خیالات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیلنا۔
موانگ پاک بینگ پہنچنے پہ ہم دریائے میکانگ تک پہنچ گئے تھے۔ یہ دریا تبت سے
شروع ہوتا ہے اور چین، برما، لائوس، کمبوڈیا، اور ویت نام سے ہوتا ہوا چینی سمندر
میں گرتا ہے۔ ویت نام کی جنگ کے دوران اس دریا کی بڑی اہمیت تھی کیونکہ گھنے جنگل
میں جانے کے لیے دریا ہی آمد و رفت کا بہترین ذریعہ تھا۔
موانگ پاک بینگ سے لوانگ پرابانگ جانے والی کشتی اب تک ملنے والے ڈاٹسن ٹرک سے
ہرگز مختلف نہیں تھی۔ کشتی کے اندر کوئی باقاعدہ نشستیں نہیں تھیں۔ مسافر اپنا
سامان لے کر اندر گھستے تھے اور پھر اپنے سامان کو بچھا کر، ادھر ادھر کر کے اپنے
لیے بیٹھنے کا انتظام کرتے تھے۔ موانگ پاک بینگ سے لوانگ پرابانگ تک ہم مستقل گھنے
جنگل کے ساتھ چلتے رہے۔
لائوس کے شمال میں اکا دکا ہی سیاح نظر آتے تھے مگر لوانگ پرابانگ پہنچ کر
اچانک منظر بدل گیا۔ لوانگ پرابانگ سیاحوں سے بھرا ہوا تھا۔ زیادہ تر سیاح انگریزی
بول رہے تھے۔ لوانگ پرابانگ سینکڑوں سال مقامی شاہی خاندان کا پایہ تخت رہا ہے اور
اسی وجہ سے وہاں کے آثار قدیمہ دیدنی ہیں۔ ایشیا کے پورے جنوبی خطے میں سلطنتوں
کے روایتی دارالحکومت کھیتی باڑی کے قابل زرخیز زمین کے قریب ہوتے تھے اور اکثر یہ
جگہ سمندر سے سینکڑوں میل دور ہوتی تھی۔ یورپ سے آنے والے فاتحین سمندر کے راستے
آئے، اس لیے انہوں نے اپنی آسانی کے حساب سے سمندر کے قریب موجود قصبوں کو فروغ
دیا اور کئی جگہ پایہ تخت بھی سمندر کے قریب منتقل ہوگیا۔
یوں تو لائوس میں ہم اپنے وطن سے ہزاروں میل دور تھے مگر وہاں ہمارے ایک ایسے
عزیز تھے جن سے ملنے کی خواہش ہم رکھتے تھے۔ ڈاکٹر کمال مصطفی صدیقی سے دراصل
ہمارا براہ راست رشتہ نہ تھا؛ وہ ہمارے
جگری دوست شاہد ضیا کے والد کے گہرے دوست تھے۔ مگر پاکستان سے اتنی دور یہ رشتہ
بہت تھا۔
کمال مصطفی صدیقی صاحب نوعمری میں اپنے خاندان کے ساتھ یوپی سے راوالپنڈی
آگئے تھے۔ وہاں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ انگلستان گئے جہاں سے انہوں نے
میکینیکل انجینئیرنگ میں پی ایچ ڈی حاصل کی۔ پھر وہ دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک
میں نئی بننے والی جامعات کے شعبہ انجینئیرنگ قائم کرنے کے کام میں لگ گئے۔ اسی
سلسلے میں وہ اس وقت لائوس میں تھے۔
ہم نے ویان چیان پہنچنے پہ کمال مصطفی صدیقی صاحب کو فون کیا تو وہ اسی وقت
اپنے دفتر سے نکل کر گھر جانے والے تھے۔ وہ فورا ہمیں لینے پہنچ گئے اور یوں ہمارے
اگلے کئی روز ان کے گھر گزرے۔ ڈاکٹر کمال مصطفی صدیقی بہت اچھی نثر لکھتے تھے۔ انہیں
کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔ بہت عرصے بعد ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ غالبا لال
حویلی کے نام سے شائع ہوا تھا۔
کمال مصطفی صدیقی صاحب سے وہ ہماری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔لائوس سے کام
مکمل کر کے وہ کراچی آئے تو یہاں ان کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
Labels: Dr. Kamal Mustafa Siddiqui, Laos