Tuesday, March 31, 2015

 

ستیہ پال آنند





مارچ انتیس،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چونتیس


ستیہ پال آنند

ستیہ پال آنند کا نام پہلی بار میں نے مرحوم امرائو طارق سے سنا تھا۔ مارچ کا مہینہ تھا اور موسم گرمی کی طرف مائل تھا۔ میں امرائوطارق کے پاس انجمن ترقی اردو کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ امرائو طارق نے اشتیاق سے مجھے بتایا کہ ستیہ پال آنند پاکستان آنے والے تھے۔ میری چڑھی بھویں اور چہرے پہ سوالیہ نشان دیکھ کر امرائو طارق سمجھ گئے کہ میں ستیہ پال آنند کے نام سے واقف نہ تھا۔ "ستیہ پال آنند بہت اعلی پائے کے نقاد ہیں، نظمیں بھی خوب لکھتے ہیں"، امرائو طارق نے مجھے بتایا، اور یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان آتے رہتے ہیں۔  میں نے امرائوطارق سے یہ نہ پوچھا کہ ستیہ پال آنند کہاں سے پاکستان آرہے تھے بلکہ اس حماقت کا شکار رہا جس کا شکار بیشتر پاکستانی رہتے ہیں کہ لوگوں کے ناموں سے ان کے قومی تعلق کا اندازہ لگاتے ہیں۔  البتہ یہ تعجب میرے دل میں رہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے کشیدہ حالات میں جس کا سارا نزلہ بیچارے عام مسافروں پہ گرتا ہے، ستیہ پال آنند کوپاکستان کا ویزا اس قدر آسانی سے کیسے مل رہا تھا کہ وہ پاکستان کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔

اس سال کراچی ادبی میلے کی کاروائی میں جب میں نے ستیہ پال آنند کا نام دیکھا تو ان کو دیکھنے اور سننے کی خواہش میں اس محفل میں شریک ہوا جس کا محور ستیہ پال آنند کی ذات اور تصانیف تھیں۔ محفل کی نظامت حارث خلیق کررہے تھے اور مہمان کی نظموں کے انتخاب میں ان کی مدد کرنے کے لیے ڈاکٹر فرزانہ حسن موجود تھیں۔
ستیہ پال آنند اپنی کتاب "کتھا چار جنموں کی" کے بارے میں بتا رہے تھے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں اپنا، یا اپنے بچوں کا کوئی حال نہیں لکھا ہے۔
ستیہ پال آنند نے بتایا کہ وہ ضلع چکوال کے گائوں کوٹ سارنگ میں پیدا ہوئے تھے۔ دس بارہ سال کی عمر میں انہیں اپنے دادا کے بھائی لال میدی رام کے گھر سے پرانے کاغذات ملے جو ٹاکرے نامی رسم الخط میں لکھے گئے تھے۔ ستیہ پال آنند کا کہنا تھا کہ ٹاکرے خط کو بھلا دیا گیا ہے؛ گویا اب نہ تو ٹاکرے میں کچھ لکھا جاتا ہے اور شاید نہ ہی کوئی طریقہ تحریر پڑھ سکتا ہے۔ ان ہی کاغذات کو پڑھ کر ستیہ پال آنند کو اپنے بارے میں جاننے کی خواہش ہوئی۔ ستیہ پال آنند نے بتایا کہ ان کی ذات گوتر ہے جس کا تعلق کھوکھرقبیلے سے ہے۔  اس علاقے میں ظہور اسلام کے بعد کھوکھر قبیلے کے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ جو نہیں ہوئے وہ خود کو کھوکھرائن کہنے لگے۔ گوتر کھوکھرائن ہی کی ایک ذات ہے۔ یہ باتیں تو ستیہ پال آنند کو باآسانی سمجھ میں آگئیں مگر ان کے نام میں آنند کہاں سے آیا، یہ جاننے کے لیے انہوں نے عمر کے دس بارہ سال لگائے، اور یہ گیان حاصل کرنے کے لیے ہمالیہ کی ترائی تک بھی گئے۔
ستیہ پال آنند کی یہ باتیں سنتے ہوئے یہ خیال خود بخود دل میں آیا کہ ان کی اپنی شناخت اور جڑوں کی تلاش میں نکلنے کے عمل کا بہت کچھ تعلق ہجرت کے تکلیف دہ واقعے سے رہا ہوگا۔ جس جگہ ان کا خاندان صدیوں سے رہتا آیا تھا وہاں سے محض دھرم کی بنیاد پہ دیس نکالا ملنے کے بعد شناخت کے پورے سلسلے کو جانچنے کی کوشش تو عین فطری تھی۔
ستیہ پال آنند کا کہنا تھا کہ لوگ انہیں ائیرپورٹ پروفیسر کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے دنیا کے سات آٹھ ملکوں میں پڑھایا ہے۔
ستیہ پال آنند نے اس محفل میں تقسیم پنجاب کے واقعے کا تذکرہ نہیں کیا مگر یہ حکایت عام ہے کہ سنہ سینتالیس کے فسادات میں مسلمان غنڈوں کے ڈر سے ستیہ پال آنند کے گھر والے در بدر ہوئے اور پنڈی سے لدھیانہ کے سفر میں ان کے والد ہلاک ہوئے۔ کراچی ادبی میلے کی اس محفل میں ستیہ پال آنند نے انگلستان، امریکہ، اور کینیڈا میں تدریس کے بارے میں جو کچھ بتایا اس سے اندازہ ہوا کہ وہ ایک عرصے سے مغرب میں آباد ہیں۔
اس محفل میں ستیہ پال آنند کی گفتگو کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ ہوا جس میں ایک سوالی نے جب مہمان عالم کے نام کی وجہ سے انہیں زبردستی ہندومت کی طرف کھینچنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا وہ پیدا تو ہندو ہوئے تھے مگر اب وہ آل فیتھس مین [ہر مذہب کے ماننے والے] ہیں۔



Labels: , , , , , ,


Tuesday, March 24, 2015

 

بل گیٹس اور پولیو کا قلعہ












مارچ بائیس،  دو ہزار پندرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو تینتیس


بل گیٹس اور پولیو کا قلعہ
 
جو لوگ پاکستان سے باہر رہتے ہیں اور کچھ کچھ عرصے بعد وہاں جاتے ہیں ان کو لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی آبادی پچھلی بار سے دگنی ہوگئی ہو۔ آبادی میں اس طرح کے اضافے کے باوجود پاکستان میں رہنے والے لوگوں کو ڈر ہے کہ کہیں کسی حیلے بہانے سے مغربی طاقتیں ان کی نس بندی نہ کروادیں، کہیں ان کے بچے ہونا نہ بند ہوجائیں۔ چند برس پہلے اس خوف کا مظاہرہ میرے سامنے اس وقت ہوا تھا جب کراچی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کافی بے تکلف گفتگو کے دوران اس شخص نے روڈ پہ لگے ایک اشتہار کی طرف اشارہ کر کے مجھے سمجھایا تھا کہ، اب اس سوراخ والی گولی کا اشتہار دیکھیں۔ اتنی کم قیمت والی چیز کے لیے اتنی اشتہار بازی۔ آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے کوئی چکر ہے؟
میں نے کریدا کہ آخر اس شخص کو اس ٹافی کے اشتہار میں کیا چکر نظر آرہا ہے۔ اس شخص نے مجھے رازداری سے سمجھایا کہ، ضرور اس گولی میں کوئی ایسی چیز ملی ہے جس سے مرد نامرد ہوجائیں اور عورتیں بانجھ ہوجائیں؛ مغربی طاقتوں کو یہ بات بالکل پسند نہیں آرہی کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا میں بڑھ رہی ہے۔
شرح آبادی میں ممکنہ کمی کا یہ خوف کچھ دن پہلے ایک ایسے مضمون میں نظر آیا جو گلوبل سائنس نامی پاکستانی جریدے میں شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون دہری شخصیت رکھتا ہے کیونکہ مضمون کا پہلا حصہ پڑھ کر قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ مصنف پولیو کی ویکسین کے سخت خلاف ہے، مصنف کے خیال میں اس ویکسین میں ایسی کیمیات ہیں جو بانجھ پن کا سبب بن سکتی ہیں۔ مگر پھر مضمون کے دوسرے حصے میں مصنف ان ناقدین کا بیان لکھتا ہے جنہوں نے مضمون کا پہلا حصہ پڑھ کر مصنف کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں مضمون کا دوسرا حصہ، پہلے حصے کی نفی کرتا ہے۔
قصہ مختصر، پورا مضمون پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ ایک بار پھر ایک سائنسدان نما مولوی (یا مولوی نما سائنسدان) میری زندگی کے دس بارہ منٹ ضائع کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
اس مضمون کے اول حصے میں پولیو کی ویکسین پہ شک کی دو وجوہات کا بیان ہے۔  اول یہ کہ پولیو کے علاوہ اور بھی تو موذی بیماریاں ہیں جن کا شکار بہت سے لوگ ہوتے ہیں، پھر پولیو پہ اتنا زور کیوں؟ اور دوسرا شک یہ کہ آخر پولیو کی ویکسین کی حمایت میں مولویوں سے کیوں فتوے لیے جارہے ہیں؟
اس مضمون کے لکھاری اور ان جیسے بھٹکے ہوئے ذہنوں والے دوسرے لوگوں کے لیے عرض ہے کہ ہاں دنیا میں بہت سی بیماریاں ہیں، ہاں پاکستان میں پولیو کے علاوہ ایسے متعدد امراض ہیں جن سے متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد پولیو سے گھائل ہونے والے بچوں سے کہیں زیادہ ہے، مگر پولیو ایک ایسا مرض ہے جو دنیا سے قریبا ختم ہوچکا ہے۔ ہندوستان جیسی بڑی آبادی والے ملک سے ختم ہونے کے بعد اب یہ مرض دنیا کے چند ہی حصوں میں بچا ہے۔ اسلام کا قلعہ ہرممکن کوشش کررہا ہے کہ اس مرض کو اپنی امان میں رکھے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف ایک امیر کبیر شخص ہے جسے نہ تو حوروں کا لالچ ہے اور نہ آگ کا خوف۔ اس مالدار شخص کی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے اس کے منہ پہ ایک گہری مسکراہٹ ہو، اور وہ مسکراہٹ یہ سوچ کر ہو کہ اس نے ایک بیماری، صرف ایک بیماری کو دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ وہ شخص اپنی اس آخری مسکراہٹ کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کو تیار ہے۔ اب اگر کسی کا خیال ہے کہ معاشرے میں پولیو کے بجائے کسی دوسری بیماری کے خلاف کام  ہونا چاہیے تو اس شخص کو چاہیے کہ وہ سینہ ٹھونک کر سامنے آئے اور اپنی رقم اور محنت سے اپنے خوابوں کی تعبیر پالے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پولیو کی ویکسین کے لیے مولوی سے کیوں فتوی لیا جارہا ہے تو اس کی وجہ واضح ہے۔ نیاز فتح پوری کا کہنا تھا کہ مولویوں کی اتنی ہی قسمیں ہوتی ہیں جتنی سانپوں کی ہوتی ہیں، مگر بعض سانپ زہریلے نہیں ہوتے۔ نیاز فتح پوری کے اس مشاہدے میں ایک اضافے کی گنجائش ہے اور وہ یہ کہ ایک مولوی کے زہر کا توڑ دوسرا مولوی ہی کرسکتا ہے۔ ارے بھائی مصنف، پولیو کارندوں پہ حملے کرنے والے لوگ وہ نہیں ہیں جن کا پولیو ویکسین سے کوئی سائنسی اختلاف ہے۔ حملے مولوی کے بھڑکانے پہ کیے جارہے ہیں۔ چنانچہ ان حملوں کو روکنے کے لیے، گویا زہر کے تریاق کے لیے، دوسرے مولوی کا استعمال ناگزیر ہے۔
بے چارے بل گیٹس کو کیا خبر تھی کہ وہ پولیو پہ حملہ کرتے کرتے وہاں پہنچ جائے گا جہاں اس کا مقابلہ ایک نہیں دو بیماریوں سے ہوگا۔ اور یہ دوسری بیماری پولیو سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ بیماری ذہنی ہے۔ یہ وہ بیماری ہے جو زندگی کو اعتقادات کی دلدل میں دھنسا دیکھنا چاہتی ہے۔
بل گیٹس کو یقینا کچھ لوگ سمجھا رہے ہوں گے کہ حضور، ان احمقوں کو ان کے حال پہ چھوڑ دیجیے اور ڈارون کی روح کو ان سے خود ہی نمٹنے دیجیے۔ جو لوگ بے وقوف ہیں ان کی نسل معذوریوں سے اور بیماریوں سے رفتہ رفتہ خود ہی ختم ہوجائے گی۔ آپ کیوں اپنا وقت اور پیسہ برباد کرتے ہیں؟
پھر دوسری طرح کے مشیر بل کی ہمت بڑھا رہے ہوں گے کہ نہیں حضور، اپنی کوششیں جاری رکھیے۔ یہ لوگ مکمل طور پہ بے وقوف نہیں ہیں۔ ان میں اتنی عقل ہے کہ یہ آپ کا بنایا ہوا آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتے ہوئے، آپ کے بنائے ہوئے ورڈ سافٹ وئیر پہ لکھ کر آپ کے اچھے کاموں پہ قرآن اور سنت کی روشنی میں تنقید کرتے ہیں۔ اگر یہ بالکل ہی جاہل ہوتے (یا اگر ان میں ذرہ برابر بھی شرم ہوتی) تو کمپیوٹر اور دوسری مغربی ایجادات کی سہولیات چھوڑ کر اونٹوں پہ جا چڑھتے اور تلواریں لہرتے ہوئے ہمارے مقابلے پہ آتے۔
اور بیچارا بل یہ سب کچھ سن کر سوچتا ہوگا کہ کاش میں اپنی دولت سے لوگوں کے لیے عقل خرید سکتا۔

Labels: , , , ,


Tuesday, March 17, 2015

 

دختر ہند





مارچ پندرہ،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو بتیس


دختر ہند

 
مجھے پیدل چلنا اچھا لگتا ہے۔ میں گھنٹوں، میلوں پیدل چل سکتا ہوں۔ میں اکثر گھر سے نکل کر کسی بھی سمت پیدل چلنا شروع ہوجاتا ہوں۔ پیدل چلنے سے آپ کو بہت سی ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو گاڑی کے سفر میں گاڑی کی رفتار کی وجہ سے واضح طور پہ نظر نہیں آتیں۔
امریکہ میں بڑے شہروں سے باہر اگر آپ پیدل چلیں تو آپ کو اپنے جیسے پیادہ کم ہی نظر آتے ہیں۔ پیدل چلتے ہوئے میں غور کرتا ہوں کہ میرے علاوہ اور کون راہ گیر ہیں۔ اس مشاہدے سے میں نے کئی نتائج اخذ کیے ہیں۔ ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ فٹ پاتھ پہ چلنے والوں میں اکثریت مردوں کی ہوتی ہے۔ عورتیں خال خال نظر آتی ہیں۔ اندھیرا ہوتا ہے تو پیدل چلنے والی عورتوں کی تعداد اور بھی کم ہوجاتی ہے۔ واضح رہے کہ بات شمالی کیلی فورنیا کی ہورہی ہے۔ کوئی استدلال کرسکتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو پیدل چلنا اچھا نہیں لگتا مگر میرے خیال میں بات اس سے بھی زیادہ عام فہم ہے۔ اور بات ہے ہماری اجتماعی ناکامی کی۔ ہم ایک ایسا محفوظ معاشرہ  نہیں قائم کرسکے ہیں جہاں عورت بلا خوف و خطر روڈ پہ چل سکے۔ اب اسی مشاہدے کو مغربی معاشرے سے نکال کر جنوبی ایشیا میں استعمال کیجیے جہاں عورت کو اور بھی زیادہ جبر میں رکھا گیا ہے اور معاشرے کے رائج رجحانات بھی زن مخالف ہیں۔
میں نے اب تک بی بی سی کی فلم ۔دختر ہند۔ (انڈیاز ڈاٹر) نہیں دیکھی ہے، مگر اخباری اطلاعات سے جو کچھ اس فلم کے بارے میں معلوم ہوا ہے اس پہ مجھے تعجب نہیں ہوا۔ اس فلم کی خاص بات مکیش سنگھ کا انٹرویو ہے؛ واضح رہے کہ مکیش ان مجرموں میں شامل ہے جن پہ دہلی کی ایک لڑکی، جیوتی سنگھ ، کے ساتھ اجتماعی عصمت دری  کا جرم ثابت ہے۔ مکیش نے اس ڈاکیومینٹری فلم میں جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے کہ جیوتی کے ساتھ جو کچھ ہوا ٹھیک ہی ہوا  کیونکہ اندھیرا ہونے کے بعد شریف لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکلتیں اور جو لڑکیاں اس طرح رات کو نکلیں ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جاہل مکیش کی اس بات پہ ہر باشعور شخص غصے میں ہے۔ مکیش کی اس بات پہ غصہ تو مجھے بھی آیا مگر اس گھٹیا سوچ پہ مجھے تعجب نہیں ہوا کیونکہ میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے مردوں کے اس قسم کے فضول خیالات سے بخوبی واقف ہوں۔
عورت کے بارے میں فرسودہ معاشرتی رجحانات اس وقت کے خیالات ہیں جب مقابلہ جسمانی طاقت کا ہوا کرتا تھا۔ جانور کا شکار کرنا ہو یا بھاری بھرکم چیز کو ادھر سے ادھر کرنا ہو، عام زندگی کے بہت سے کام طاقت سے ہوتے تھے۔ اس معاشرے میں مرد کو عورت پہ برتری حاصل تھی۔ آج کے معاشرے میں طاقت سے کہیں زیادہ عقل کا کام ہے اور عقل میں مردوزن کی برابری مسلم ہے۔ عقل کی حکمرانی کے معاشرے میں طاقت کی حکمرانی کے پرانے معاشرے کے قوانین لاگو کرنا حماقت ہے۔
کسی بھی انسانی معاشرے کی اخلاقی حدود معاشرے میں رہنے والے سب لوگ مل کر بناتے ہیں۔ پرانی روایات اور بالخصوص وہ پرانی روایات جو عقیدے یا دین کے ساتھ جڑی ہوں انسانی معاشرے کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ ان روایات کی کوشش ہوتی ہے کہ معاشرہ اسی طرح چلتا رہے جس طرح پرانے وقتوں سے چل رہا ہے۔
جو معاشرے جدید دنیا میں عورت کی مرد کے ساتھ برابری سمجھ گئے ہیں وہاں عورت سے متعلق معاشرتی رجحانات میں رفتہ رفتہ تبدیلی آرہی ہے اور وہ معاشرے اکیلی عورت کے لیے بتدریج محفوظ اور منصف ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایسی جگہیں ہیں جہاں صدیوں پرانی روایات کا مقابلہ جدید سوچ سے ہے اور مرد عورت کو مستقل نیچا رکھنا چاہتا ہے؛ وہاں عورت غیرمحفوظ ہے اور مرد کے رحم و کرم پہ ہے۔ خوش خبری یہ ہے کہ فرسودہ خیالات والے ایسے معاشرے بہت دیر تک اپنی ناگفتہ بہ حالت میں چل نہ پائیں گے۔ ان کی جلد وقوع پذیر ہونے والی شکست دیواروں پہ جلی حروف میں لکھی ہے۔


Labels: , , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?