Sunday, September 21, 2014

 

مدرسہ جامعہ کراچی



اعتقاد اور ساءنس میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اعتقاد میں سوال کرنے کی گنجاءش نہیں ہوتی۔ جو بتایا جا رہا ہے اس کو چپ چاپ مانو۔ اعتقاد کے مقابلے میں ساءنس انسانی نفسیات سے قریب تر ہے۔ انسان کا ذہن آزاد ہے۔ ذہن میں کبھی ایک خیال آتا ہے اور کبھی دوسرا۔ ذہن پرانے، مانے گءے اعتقادات پہ بھی سوال کرتا ہے۔ یہ انسان کا چوکڑیاں مارتا ذہن ہے جو کسی بھی مذہب میں مختلف مکتبہ فکر پیدا کرتا ہے۔ آگے چل کر یہی مکتبہ فکر جدا فرقے بناتے ہیں اور پھر ان فرقوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ فرقے کی بنیاد میں موجود اصل آزاد خیالی سے انحراف کرتے ہوءے سخت تقلید اور اعتقاد کا راستہ اپناتے ہیں۔

 مدرسوں میں اعتقادات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہاں سوال کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔ جدید دور کی جامعات میں ساءنسی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس تعلیم میں کوءی اعتقاد، کوءی مذہب، کوءی خدا، کوءی پیغمبر سوال کی پہنچ سے دور نہیں ہے۔ پروفیسر شکیل اوج کا قتل اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جہاں پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے اور آزادی راءے کی جگہ تنگ ہورہی ہے وہیں ہر جامعہ کو مدرسہ بنانے کی کوششیں بھی  جاری ہیں۔ اس ناگفتہ بہ صورتحال میں اصلاح کی صورت یوں نظر نہیں آتی کہ معاشرے کے زیادہ تر لوگ اعتقاد پسند ہیں اور فتنہ پرور مذہبی راہ نماءوں کی اخلاقی قیادت تسلیم کرتے ہیں۔ معاشرے کے بہت سے لوگ نہایت اطمینان سے ان 'مذہبی علما' کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں جو اپنے سے اختلاف راءے رکھنے والوں پہ واجب القتل ہونے کے فتوے جاری کرتے ہیں اور معاشرے میں فساد کا اصل منبع ہیں۔

تصویر بہ شکریہ نیوز ڈاٹ کام

Labels: , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?