Tuesday, April 26, 2011
گریگ مورٹینسن اور ہم بستر صحافی
گریگ مورٹینسن اور ہم بستر صحافی
سی بی ایس کی حالیہ رپورٹ کے بعد گریگ مورٹینسن لوگوں کی تنقید کا شکار ہیں۔ اس کالم کے قارءین گریگ مورٹینسن سے یقینا واقف ہوں گے۔ گریگ مورٹینسن اپنی کتاب چاءے کی تین پیالیاں "تھری کپس آف ٹی" کی کامیابی سے مقبول ہوءے۔ ان کی کتاب پڑھ کر لوگوں کو معلوم ہوا کہ گریگ مورٹینسن پاکستان اور افغانستان کے دور دراز علاقوں میں اسکول بناتے رہے ہیں۔ کتاب کی مقبولیت سے ان کے کام کی مقبولیت بھی بڑھی۔ لوگوں نے مورٹینسن کے فلاحی ادارے وسطی ایشیا انسٹیٹیوٹ کو بڑھ چڑھ کر عطیات دیے تاکہ یہ ادارہ پاکستان اور افغانستان میں زیادہ سے زیادہ اسکول بنا سکے۔ اور گریگ مورٹینسن امریکہ بھر میں ایک مقبول مقرر کی حیثیت سے گردش کرنے لگے۔ گریگ مورٹینسن کی مقبولیت یورپی نژاد امریکیوں میں شروع ہوءی اور پھر ایک وقت آیا کہ پاکستان نژاد امریکی ایک دوسرے کو طعنے دینے لگے کہ دیکھو ایک امریکی تمھارے آباءی وطن کے لیے اتنا کام کر رہا ہے اور دوسرے امریکیوں میں اتنا مقبول ہے جب کہ پاکستانی امریکی اس کو جانتے بھی نہیں، کس قدر شرم کا مقام ہے۔ اور یوں پاکستانی نژاد امریکی بھی گریگ مورٹینسن کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے۔ اور اس پورے عمل میں کسی صحافی نے اپنی صحافیانہ ذمہ داری پوری نہیں کی۔ یعنی کسی ذمہ دار شخص نے اپنے ذمے یہ کام نہ لیا کہ وہ گریگ مورٹینسن کی کتاب میں موجود دعووں کی آزادانہ تحقیق کرتا۔
اگر چند صحافی مثلا نیویارک ٹاءمز کے کالم نویس نکولس کرسٹوف یا فلاڈلفیا انکواءرر کی ٹروڈی روبن گریگ مورٹینسن کے کام کی تصدیق کے لیے پاکستان گءے بھی تو گریگ مورٹینسن کے ساتھ ہی گءے۔ پچھلی خلیجی جنگ میں ایک نءی اصطلاح، ایمبیڈڈ جرنلسٹ وضع کی گءی تھی۔ یہ اصطلاح ان صحافیوں کے لیے استعمال کی گءی تھی جو عراق جنگ میں امریکی فوجی دستوں کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ وہ صحافی اپنے آپ کو ایمبیڈڈ جرنلسٹ کہیں مگر میں ان کو پیار سے ان بیڈ جرنلسٹ، یعنی ہم بستر صحافی کہتا تھا۔ اگر آپ جنگ کا مشاہدہ کرنے کے لیے ایک طرف کی فوج کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں تو آپ اپنے ساتھ کے ان فوجیوں پر آزادانہ تبصرہ کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ تو ان کا حصہ ہیں، ان کا نمک کھارہے ہیں ہیں، ان کے ساتھ سو رہے ہیں، جاگ رہے ہیں، آپ بھلا کیسے ان پہ تنقید کریں گے؟ گریگ مورٹینسن کے ساتھ جا کر ان کے فلاحی کام کا تجزیہ کرنے والے صحافی بھی اسی طرح کے ہم بستر صحافی تھے۔ گریگ مورٹینسن نے ان صحافیوں کو جو دکھانا تھا دکھایا اور جس طرح دکھانا تھا دکھایا۔ اتنی تصدیق ان صحافیوں کے لیے کافی تھی۔ یہ صحافی گریگ مورٹینسن کے لیے رطب اللسان ہو گءے۔ مغربی صحافیوں نے تو پھر بھی تھوڑی بھاگ دوڑ کی، پاکستانی صحافیوں نے تو اتنا بھی نہیں کیا۔ پاکستانی صحافی گریگ مورٹینسن کی کتاب پڑھ کر مورٹینسن کے دعووں کو من و عن اپنی تحریروں میں نقل کرنے لگے۔ میں نے ایک دو پاکستانی صحافیوں سے پوچھا کہ کیا آپ نے گریگ مورٹینسن کا بنایا ہوا کوءی اسکول دیکھا ہے؟ کیا آپ نے اس گاءوں کے لوگوں کے انٹرویو کیے ہیں جہاں گریگ مورٹینسن نے اسکول بناءے ہیں؟ میری اس جرح پہ مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ میں منفی سوچ رکھتا ہوں۔ منفی سوچ! ارے، صحافیوں کی پیشہ ور دیانت داری بھی کوءی شے ہے یا نہیں؟ کیا صحافی کا یہی کام ہے کہ جو بات بہت سے لوگ کہہ رہے ہوں اسے من و عن بلا تصدیق لکھ دے؟
صحافی تو اپنی پیشہ ور دیانت داری میں ناکام رہے ہی اس عمل میں پاکستانی حکومت نے بھی اپنا مذاق اڑانے کا خوب اہتمام کیا۔ جب مغربی ذراءع کے ذریعے گریگ مورٹینسن کی مقبولیت کی خبر پاکستانی حکومت کو پہنچی تو یقینا کسی سیانے نے ایوان صدر کو شرم دلاءی کہ سرکار پوری دنیا میں اس آدمی کے کام کا ڈنکا بج رہا ہےاور شور مغربی ممالک میں ہو رہا ہے تو یقینا تصدیق کے بعد ہی ہو رہا ہوگا کیونکہ گورے لوگ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں؛ یہ شخص ہمارے لوگوں کی بھلاءی کے لیے کام کر رہا ہے، اس شخص کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہے۔ چنانچہ پاکستانی حکومت نے گریگ مورٹینسن کو ستارہ پاکستان کا اعزاز دے دیا۔ اس خبر کی اطلاع مغربی ممالک میں پہنچی تو گریگ مورٹینسن کے کام کی اور بھی "تصدیق" ہو گءی کہ گریگ مورٹینسن جس ملک میں کام کررہا ہے وہاں کی حکومت نے اسے اعزاز بخشا ہے تو پھر گریگ مورٹینسن کے دعوے یقینا صحیح ہوں گے۔ اور اس طرح یہ سلسلہ بلا آزادانہ تحقیق کے چلتا رہا۔ مگر گریگ مورٹینسن کے دعووں کی آزادانہ تحقیق کا کام کچھ عرصے کے لیے تو ٹل سکتا تھا، مگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہیں۔ وسطی ایشیا انسٹیٹیوٹ سے قطع تعلق کرنے والے ایک شخص غلام پاروی نے انٹرنیٹ پہ گریگ مورٹینسن کے جھوٹ کا پلندہ کھولا۔ سی بی ایس نے اس شخص کو اپنے ساتھ ملایا اور پاکستان جا کر ان جگہوں کا دورہ کیا جہاں گریگ مورٹینسن نے اسکول بنانے کا دعوی کیا تھا، اور پھر ساٹھ منٹ نامی ایک ٹی وی پروگرام میں گریگ مورٹینسن کے کام پہ بھرپور تنقید دنیا کے سامنے پیش کر دی گءی۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ سی بی ایس کی رپورٹ سے صرف گریگ مورٹینسن کی کہانی کی قلعی ہی نہیں کھلی ہے بلکہ اس رپورٹ سے بہت سے مغربی اور پاکستانی صحافیوں کے کرتوت بھی سامنے آگءے ہیں کہ یہ لوگ بلا تصدیق بات کو آگے بڑھا دیتے ہیں۔ سبق واضح ہے، صحافت میں دیانت داری کے لیے محنت سے کام کرنا ضروری ہے۔ ہم بستر صحافی، صحافی نہیں۔
Labels: CBS 60 Minutes, Central Asia Institute, Embedded Journalists are In-bed journalists, Ghulam Parvi, Greg Mortenson, Gulf War Embed Journalism, Pennies for Peace, Schools in Pakistan and Afghanistan
Tuesday, April 12, 2011
حشمت سہیل، ایک خطرناک شاعر
حشمت سہیل کی کتاب کرن کرن تبسم کءی اوصاف سے مزاحیہ شاعری کی اور کتابوں سے منفرد ہے۔ ایک انفرادیت تو یہ ہے کہ شاعری کی شاید ہی کسی اور کتاب میں آپ اس قدر بڑی تعداد میں نثری مضامین پاءیں گے جتنے حشمت سہیل کی کتاب میں ہیں۔ حشمت سہیل نے ان مضامین کو بہت سوچ سمجھ کر اپنی کتاب میں ترتیب دیا ہے۔ سب سے پہلا مضمون بیگم صاحبہ کا ہے۔ یہ بر محل ہے اور اس کے محل سے اندازہ ہوتا ہے کہ مزاح اپنی جگہ مگر حشمت سہیل ان سنجیدہ نکتوں کی آگہی رکھتے ہیں جو ازدواجی زندگی کی صحت کے ضامن ہیں۔
حشمت سہیل نے اپنی نظم کولسٹرول میں لکھا ہے
مری ہی طرح سے وہ بھی ذرا بیگم سے ڈرتے تھے
نہ دل چاہے مگر بیگم جو کہہ دیں بس وہ کرتے تھے
پھر کرن کرن تبسم کا دوسرا امتیاز ہاتھ سے بناءے حشمت سہیل صاحب کی والدہ اور والد کے اسکیچ ہیں۔ ان خاکوں کو دیکھ کر کتاب پڑھنے والا مستقل قیاس آراءی کرتا رہتا ہے کہ آیا حشمت سہیل کی شکل اپنی والدہ سے زیادہ ملتی ہے یا اپنے والد سے۔
اس کتاب کا تیسرا منفرد پہلو اس میں شامل رنگین تصاویر ہیں۔ یہ تصاویر ہوم لینڈ سیکیورٹی کی آسانی کے لیے ہیں تاکہ جب کبھی حشمت سہیل صاحب سے ان کی شرپسند سرگرمیوں کے متعلق پوچھ گچھ ہو تو نہ صرف یہ کہ تفتیشی افسر کو یہ معلوم ہو کہ حشمت سہیل مرزا غالب کا بہروپ بنا کر پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہو سکتے ہیں بلکہ تفتیش کا داءرہ وسیع کرنے کے لیے کتاب میں روپذیر تصاویر میں موجود دوسرے احباب کو بھی قابو میں کیا جاءے کہ یہ سب لوگ حشمت سہیل کے جراءم میں یقینا معاون رہے ہوں گے۔
اور پھر کتاب کا چوتھا اور سب سے خطرناک وصف اس کے اندر موجود حشمت سہیل کی شاعری کے نمونے ہیں جو دراصل دہشت گردی کی ایک شکل ہیں۔ اس شاعری کو کتابی شکل میں چھاپنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ آپ اسے پڑھ کر اس قدر زور سے ہنسیں کہ آپ کی سانس رک جاءے اور آپ وہیں گر کر مر جاءیں۔
قصہ مختصر یہ کہ حشمت سہیل ایک خطرناک شاعر ہیں اور ان کی کتاب کرن کرن تبسم مزاح کا وہ منبع ہے جس سے نکلی ہر کرن محفل میں صرف تبسم بکھیرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتی، بلکہ یہ شعاعیں جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔
Labels: Hashmat Sohail, Kiran Kiran Tabassum, Urdu humorous poetry, किरन किरन तबस्सुम, हशमत सोहेल, हसिया लिख