Wednesday, October 28, 2009

 

کیا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے؟



کیا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے؟




اس بحث میں سب سے پہلے تو یہ پوچھیے کہ اس بات کا کیا مطلب ہے کہ، " اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔"
مذکورہ جملے میں لفظ "مکمل" اور لفظ "ہے" تو سمجھ میں آتے ہیں مگر جملے کے بقیہ دو الفاظ یعنی لفظ "اسلام" اور لفظ "ضابطہ حیات" کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے لفظ ضابطہ حیات۔
ضابطہ حیات سے مراد ہے قوانین اور ہدایات کا ایک ایسا مجموعہ جو پوری انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرے۔ گویا ضوابط کی ایک ایسی فہرست جو پیدائش سے موت تک تمام انسانی موضوعات [روحانی، جسمانی، جنسی، معاشی، عمرانی، وغیرہ، وغیرہ] کے بارے میں کھل کر حکم دے کے اس موضوع سے تعلق رکھنے والے معاملات کس طور سے حل کیے جائیں۔

دوئم لفظ اسلام۔
اسلام سے کیا مراد ہے؟
ایک ارب مسلمانوں سے یہ سوال پوچھا جائے تو ہر شخص اپنے مسلک کے حساب سے اسلام کی ایک نئی تعریف پیش کرے گا۔ مگر کیونکہ بات ضابطہ حیات کی ہو رہی ہے اس لیے یقینا یہاں اسلام سے مراد اسلامی قوانین و ضوابط ہیں۔ تو یہ اسلامی قوانین و احکامات ہمیں کہاں ملیں گے؟ ظاہر ہے کہ یہ ہدایات القرآن میں ملیں گی۔ ان ہدایات میں شاید احادیث کو بھی شامل کر لیا جاتا اگر دین اسلام سے تعلق رکھنے والے تمام مسالک ان احادیث پہ متقق ہوتے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ ایک مسلک کا شخص جس حدیث کو صحیح مانتا ہے، دوسرا اس کو بالکل ضعیف قرار دیتا ہے۔ گویا اگر آپ اسلام کو مکمل ضابطہ حیات جانتے ہیں اور اس ضابطہ حیات کو ایک ارب مسلمانوں پہ یکساں طور سے لاگو کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس ہدایت کے لیے صرف قرآن ہے۔ مگر قرآن میں تو صرف ان موضوعات کا حوالہ ہے جو یا تو عمومی نوعیت کے ہیں یا ایک مخصوص دور سے متعلق تھے۔ مثلا اگر مجھے ٹریفک قوانین کے سلسلے میں قرآن سے ہدایت لینی ہو تو مجھے بتا دیجیے کہ میں کس آیت سے یہ معلوم کروں کہ اسکول کے سامنے سے گزرنی والی سڑک پہ کس رفتار سے گاڑی چلانی چاہیے؟ یا اگر میں کسی ہوائی اڈے کے کنٹرول ٹاور میں کام کرتا ہوں اور یہ استفسار کروں کہ ایک ہوائی اڈے سے بیک وقت پرواز کرنے اور زمین پہ اترنے والے جہازوں کے بارے میں ہدایات کس آیت قرآنی میں درج ہیں، تو ذرا اس سلسلے میں میری مدد فرما دیجیے۔ یا اگر میں جاننا چاہوں کہ قرآن انٹرنیٹ کے ذریعے وائرس بھیجنے والوں کے لیے کیسی سزائیں تجویز کرتا ہے تو اس سلسلے میں لاگو مکی اور مدنی آیات کی نشاندہی فرما دیجیے۔ اور واضح رہے کہ مجھے گول مول جوابات نہیں چاہئیں کہ "شر سے بچو"،"یا شر پھیلانے والا جہنمی ہے۔" میں نے جو مثالیں دی ہیں ان میں فوری اور واضح ہدایت کی ضرورت ہے۔ ان معاملات میں روز جزا کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ اور اگر مجھے کسی عمومی ہدایت ہی سے اپنے لیے تفصیلی احکامات نکالنے ہیں تو پھر درج ذیل جملہ بھی مکمل ضابطہ حیات ہے:
اچھے انسان بنو۔
بس ہو گیا ضابطہ حیات۔ اب آپ نکالتے رہیے اس جملے سے گنجینہ ہائے دانش اور ہدایت کے چشمے۔

قصہ مختصر یہ کہ قرآن سمیت کسی آسمانی کتاب میں ہر دور کے موضوعات کے متعلق احکامات موجود نہیں ہیں۔ با الفاظ دیگر کوئی دین بشمول اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے۔ ہر دور میں تشکیل ضوابط حیات اور قانون سازی کا کام اس عہد کے لوگوں کو ہی کرنا ہے۔ وہ لوگ قانون سازی کے اس عمل میں قرآن سے ہدایت ضرور لے سکتے ہیں اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہر قدم پہ ہمیں قرآن سے ہدایت لینی چاہیے مگر اپنی اس مقدس کتاب کو مکمل ضابطہ حیات سمجھنا جہالت کےعلاوہ کچھ نہیں ہے۔

اور اب کیونکہ یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ "اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے"، اگر کوئی شخص کبھی یہ بات کھل کر کہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے تو بعض جذباتی مسلمان اس بات کا یوں برا مانتے ہیں کہ جیسے ان کے دین کو خدانخواستہ نیچا دکھا دیا گیا ہو۔ یہ ایک لغو بات ہے، ایسی ہی لغو بات ہے کہ جیسے کوئی مولوی یہ مشہور کر دے کہ ہمارے پیارے نبی اڑ سکتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ یہ بات پورے میں پھیل جائے اور بہت سے لوگ اس من گھڑت بات کا یقین کر لیں۔ اور کبھی ایک شخص سچی بات کہے کہ حضور اکرم پرندوں کی طرح ہوا میں پرواز نہیں سکتے تھے تو یہ جذباتی لوگ اس بات کا برا مانیں اور سمجھیں کہ حضور پاک کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے۔ ارے میرے بھائی جو بات سچ ہے وہ سچ ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ نہ ہمارے نبی پاک اڑ سکتے تھے اور نہ ہی اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔

تصویر از
http://www.ummah2.com

Labels:


Friday, October 02, 2009

 

مسافر نواز بہتیرے




مسافر نواز بہتیرے




لوگ پوچھتے ہیں کہ سفر کیسا گزرا۔ دوستو، بس یوں سمجھو کہ یہ سفر اس قدر تیزرفتاری سے ہوا کہ اب ایک خواب سا معلوم دیتا ہے۔ شاید عالم نزاع میں جب انسان موت کے قریب ہوتا ہے تو اسے اپنی پوری زندگی یوں ہی خواب سی معلوم دیتی ہوگی۔
مختصرا یہ کہ سان فرانسسکو سے فرینکفرٹ تک کا ایک سستا ٹکٹ مل گیا تھا اس لیے خرید لیا اور پھر یہ منصوبہ بنایا کہ جرمنی سے جنوب کی طرف جائیں گے اور انگریزی لفظ بیلکانائزیشن کا مطلب سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
جولائی اکیس کے روز سان فرانسسکو سے ائیر کینیڈا سے روانہ ہوئے۔ جہاز دیر سے اڑا لیا اس لیے کیلگری سے فرینکفرٹ والی پرواز کیلگری پہنچنے تک نکل چکی تھی۔ انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ہمیں کیلگری میں ٹہرانے کے بجائے لندن پہنچا دیا جائے جہاں سے فرینکفرٹ کے لیے بہتیری پروازیں تھیں۔ اس طریقے سے لندن سے ہوتے ہوئے فرینکفرٹ پہنچے۔ وہ دن تھا جولائی بائیس کا۔ لندن سے فرینکفرٹ لفتھانسا سے گئے تھے جنہوں نے ہمارا ایک بیک پیک گم کر دیا۔ ہوائی اڈے پہ انتظامیہ نے ہم سے وعدہ کیا کہ وہ بیگ تلاش کر کے ہمارے ہوٹل پہنچا دیں گے۔ ہم ہوائی اڈے سے ٹرین میں چڑھے اور ہاپٹ بان ہوف آگئے۔ وہاں ریلوے اسٹیشن سے کچھ ہی فاصلے پہ ہمارا ہوٹل تھا۔ پورا دن ادھر ادھر سیر میں گزرا۔ رات آگئی مگر لفتھانسا نے ہمارا بیگ ہم تک نہ پہنچایا۔ ہم نے پہلے سے فرینکفرٹ سے میونخ کی ٹرین کی ریزرویشن کروالی تھی چنانچہ اگلے روز ہوٹل چھوڑنے سے پہلے ائیر لائن کو فون کر دیا کہ ہم میونخ جا رہے ہیں، بیگ ہمیں میونخ پہنچایا جائے۔ اس طرح ٹرین سے میونخ پہنچ گئے۔ یہاں دو رات کا قیام تھا۔ اگلے دن ہمارا بیگ ہم تک پہنچا دیا گیا۔ میونخ سے کچھ فاصلے پہ موجود ڈخائو کیمپ گئے جہاں المانیہ کی نازی حکومت سیاسی مخالفین، یہودیوں، جپسیوں وغیرہ کو قید میں رکھتی تھی۔ اگلے دن میونخ سے ویانا کے لیے روانہ ہو گئے۔ ویانا میں بھی دو دن قیام رہا۔ پھر اگلی منزل سلوانیا کا دارالحکموت یوبیانا تھی۔ واضح رہے کہ یوگاسلاویا ٹوٹ کر چھ ملکوں میں تقسیم ہوا ہے اور سلوانیا اس پرانے ملک کا وہ شمال ترین حصہ ہے جو آسٹریا اور اطالیہ سے لگتا ہے۔ یوبیانا میں بھی دو دن قیام رہا۔ وہاں سے جھیل بلید کا بھی چکر لگایا۔ پھر آگے چل دیے اور زغرب پہنچے۔ زغرب نوزائیدہ ملک کروایشیا کا دارالحکومت ہے۔ زغرب کے بعد بلغراد آیا۔ واضح رہے کہ بلغراد یوگاسلاوایکہ کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا اور اب سربیا نامی ملک کا دارالخلافہ ہے۔ بلغراد سے بوسنیا جانا چاہتے تھے مگر معلوم ہوا کہ بوسنیا جانے کے لیے واپس کروایشیا جانا ہوگا۔ منہ اٹھا کر کروایشیا کے ایک قصبے یوکووا پہنچے اور وہاں بھٹک گئے۔ ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن ہے جہاں گنتی کے دو افراد نظر آتے ہیں۔ اشاروں اشاروں میں ان دو افراد سے باتیں ہوتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سے سرایے وو کے لیے ٹرین اگلے دن ملے گی مگر اس قصبے میں ٹہرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے اور نہ ہی وہاں کوئی ٹیکسی ہے۔ پھر ان دو میں سے ایک شخص فرشتہ ثابت ہوا۔ ہم نہ سمجھ پائے کہ وہ فون پہ کس سے کیا بات کر رہا ہے مگر اندازہ ہوا کہ کچھ ہمارے بھلے کے لیے کر رہا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہاں ایک گاڑی آگئی۔ اس گاڑی کو ایک عورت چلا رہی تھی۔ ہمیں گاڑی میں بیٹھنے کو کہا گیا۔ اندازہ ہوا کہ وہ عورت اس شخص کی بیوی ہے جسے اس نے فون کر کے بلایا تھا کہ ہمیں وہاں سے سولہ کلومیٹر کے فاصلے پہ موجود ایک ہوٹل تک پہنچا دے۔ ہم اس فرشتہ صفت شخص کا بہت شکریہ ادا کرتے ہوئے گاڑی میں سوار ہوئے۔ گاڑی اس قصبے سے نکلی اور کھیتوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی دوسرے قصبے میں پہنچ گئی۔ وہاں ہمیں ایک ہوٹل پہ اتار دیا گیا۔
اس ہوٹل کے پیچھے ایک بڑا سوئمنگ پول تھا جہاں نوجوان لڑکے لڑکیاں تیراکی کے لیے آتے تھے۔ اس وقت بھی بہت سے لوگوں کا ہجوم وہاں سے نکل رہا تھا۔ ہوٹل کے اندر بہت سے کمرے خالی تھے۔ وہاں کام کرنے والی عورت نے اچھی انگریزی میں ہمیں مکمل معلومات فراہم کیں۔ یہ کمرہ نوے یورو کا، اور یہ ذرا سا چھوٹا اسی یورو کا، مگر یہ تمھیں آج خصوصی طور پہ ستر یورو کا مل سکتا ہے۔ ہم ایک چھوٹے سے قصبے میں تھے اور اس چھوٹے سے قصبے کے حساب سے ہوٹل کا کمرہ مہنگا تھا۔ پھر اس ہوٹل میں ایک اور قباحت یہ تھی کہ وہ مرکز شہر سے کافی فاصلے پہ تھا۔ ہم نے خاتون سے معذرت کی اور سوال کیا کہ آیا اس قصبے میں اور دوسرے ہوٹل تھے۔ ہاں، ایک اور ہوٹل ہے، وہ شاید تمھیں سستا پڑے۔ ہم نے خاتون سے درخواست کی کہ وہ خود ہی اس دوسرے ہوٹل کو فون کرکے معلوم کر لیں کہ آیا وہاں کمرہ خالی ہے۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ ہم سامان اٹھا کر وہاں پہنچیں اور وہاں ہمیں ٹکا سا جواب مل جائے۔ خاتون نے درخواست قبول کی۔ فون کیا اور ہمیں خوش خبری دی کہ اس دوسرے ہوٹل میں کمرہ موجود تھا۔ ہم خاتون کے بتائے ہوئے راستے پہ چل پڑے۔ وہ ایک لمبی سڑک تھی جو مرکز شہر تک جاتی تھی۔ ہم ڈیڑھ میل کے قریب چلتے ہوئے مذکورہ ہوٹل پہنچے تو مغرب ہو چلی تھی۔ بلو لگون نامی ہوٹل میں ہمیں جھٹ اپنے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ تب ہی ہمیں اندازہ ہوا کہ اس ہوٹل میں ہم واحد گاہک تھے۔ نیچے ریستوراں تھا اور اوپر ہوٹل کے کمرے۔ یہ کمرہ نیچی چھت والا تھا اس لیے پورے دن کی دھوپ کھانے کے بعد اب گرم ہو رہا تھا۔ ہم نے کھڑکی کھولی تو باہر ہوا خوشگوار تھی مگر ہوا چل نہیں رہی تھی اس لیے اس ہوا کو اندر لانے کا انتظام ہمیں خود ہی کرنا تھا۔ ہم نے مالک سے اشارے سے پنکھا طلب کیا جو ایک دوسرے کمرے سے نکال کر ہمیں تھما دیا گیا۔ پنکھے کو کھلی کھڑکی کے قریب رکھا تو اس نے کمال دکھانا شروع کر دیا۔
مگر اب کھانے کا وقت ہو رہا تھا۔ ہم کھانے کی تلاش میں نکلے۔
تفصیلات تو اور بھی ہیں۔ مگر قابل ذکر اس رات کی بارش ہے۔ کتنا زور کا مینہ برسا تھا اور برسنے والی بارش نے کیسے ماحول کو خوش گوار بنا دیا تھا۔
اگلے دن کسی قدر تگ و دو سے سرایے وو پہنچے۔ سرایے وو پہنچتے پہنچتے سورج ڈھل گیا تھا۔ ریلوے اسٹیشن سے باہر نکل کر چند ٹیکسی والوں سے واسطہ پڑا مگر ان کے بتائے ہوئے دام ہوش ربا تھے۔ پھر سامنے ہی ٹرام نظر آگئی۔ جھٹ اس میں چڑھ گئے۔ سرایے وو کا وہ پرانا شہر۔ سحر انگیز۔ چھوٹی چھوٹی دکانوں کی قطاریں۔ پتھروں سے بنی سڑکیں۔ کروایشیا سے چلنے سے پہلے اسکائپ کی مدد سے سرایے وو کے ایک ہوٹل سے بات کی تھی۔ وہاں ہمارا کمرہ محفوظ تھا۔ چیلنج اس ہوٹل کو تلاش کرنا تھا۔ بہت لمبا چکر کاٹتے ہوئے ہوٹل پہنچے۔ سامان کمرے میں ٹکا کر جلدی سے کھانے کے لیے نکلے۔ ہوٹل سے کچھ ہی فاصلے پہ ایک ریستوراں تھا جو بس بند ہی ہوا چاہتا تھا مگر انہوں نے ہمارے لیے پیٹزا کا انتظام کر دیا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک روز ایسا تھا کہ جب ہم بھی سرایے وو میں تھے اور ہمارے دوست عثمان قاضی بھی، مگر ہم دونوں کی ملاقات نہ ہو پائی۔
جس روز سرایے وو سے مونٹے نیگرو کے شہر پوٹگو ریچا کے لیے نکلے اس روز خوب زور کی بارش ہوئی۔ ٹیکسی والے نے ایسے وقت بس اڈے پہنچا جب پوٹگوریچا کے لیے بس پانچ منٹ میں روانہ ہونے والی تھی۔ جلدی جلدی ٹکٹ خرید کر بس میں سوار ہو گئے۔ بس پیچ دار پہاڑی راستوں سے گزری۔ اور بوسنیا اور مونٹے نیگرو کی سرحد پہ ایک وسیع و عریض جنگل دیکھنے کو ملا۔ دوپہر تک پوٹگوریچا پہنچ گئے۔ خیال کیا کہ اس رات پوٹگوریچا میں قیام کرنے کے بجائے کسی ساحلی قصبے میں قیام کریں۔ چنانچہ دوسری بس سے پوٹگوریچا سے السنج پہنچ گئے۔ یہاں ہوٹل کی کوئی ریزرویشن نہ تھی۔ مگر جا بجا کمرہ خالی کے سائن انگریزی، المانوی، اور فرانسیسی میں لگے تھے۔ چالیس یورو میں ایک کمرہ مل گیا۔ کمرے میں سامان رکھ کر ساحل تک پہنچے تو سورج نیچے جا رہا تھا۔ ساحل سے مجمع روانہ ہو چکا تھا۔ سمندر کے پانی میں پائوں ڈالا تو پانی ٹھنڈا تھا۔ کچھ دیر وہاں وقت گزار کر واپس آگئے۔
السنج سے البانیہ کے قصبے شکودر کے سفر میں سرحد پہ گاڑیوں کی ایک نہایت لمبی قطار کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ہماری بس ساری گاڑیوں کو پچھاڑ کر آگے بڑھتی چلی گئی اور ذرا سی دیر میں سرحد پار کر گئی۔
شکودر میں ٹہرنا مقصود نہ تھا چنانچہ وہاں پہنچ کر فورا تے رانا جانے والی ایک وین میں سوار ہو گئے۔ وین میں سوار ہونے کے بعد خاتون نے فورا، ہائے میری رقم بیلٹ کا نعرہ لگایا۔ خاتون نقد سے بھری رقم بیلٹ السنج سے شکودر آنے والی بس میں بھول آئیں تھیں۔ وہ پورا قصہ دلچسپ اور لمبا ہے، اور اسے تفصیلی سفرنامے کے لیے اٹھا رکھنا زیادہ موزوں ہے۔
تے رانا ایک اچھا شہر ہے۔ اس شام ہم نے ایک ایسے ریستوراں میں کھانا کھایا تھا جہاں مقامی لوگ ہی کھانا کھاتے تھے۔
اگلے دن تے رانا سے کروجا نامی تاریخی شہر گئے۔
ہمارے سفر کا جنوب ترین قصبہ بے رات تھا۔ بے رات میں اندھیرا ہونے پہ مرکز شہر میں ٹہرنا اور لوگوں کا ہجوم۔ اور ہمیں اندازہ ہونا کہ اپنے اشتراکی دور میں یہ قصبہ کیا رنگ رکھتا ہو گا اور کس طرح یہاں رہنے والے تمام لوگوں کی سب سے بڑی تفریح یہی ہوتی ہوگی کہ رات کے وقت مرکز شہر میں چہل قدمی کریں۔
پہلے روز ہمارے ہوٹل میں شادی کی تقریب اور رات گئے تک خوب ناچ گانا۔
بے رات سے روانہ ہونا۔ ہم نے تہیہ کیا تھا کہ رات اشکوپیے میں پہنچ کر ہی بسر کریں گے۔
اوپر ریستوراں میں ناشتہ کرنا اور پھر بے رات کے بس اڈے پہ پہنچنا۔ وہاں پہلے رقم تبدیل کروانا۔ پھر بس لینے کے لیے حیران ہونا کہ آیا پہلے ترانا جائیں اور وہاں سے مقدونیہ کی سرحد یا پھر بے رات سے البسان جائیں اور وہاں سے سرحد جائیں۔ بے رات سے البسان کے لیے بھی بس جا رہی تھی مگر وہ بس بالکل ٹھنڈی پڑی تھی اور اس میں کوئی مسافر بھی نہیں تھا جب کہ تے رانا جانے والی بس میں کافی لوگ بیٹھے تھے۔
بس میں بیٹھے مگر پھر فیصلہ کر لیا کہ ترانا تک نہیں جائیں گے بلکہ راستے میں لشنیے اتر جائیں گے۔ ہم نے اپنا فیصلہ کنڈیکٹر کو سنایا تو محسوس ہوا کہ وہ بھی اس فیصلے سے خوش تھا ورنہ اس نے اور ڈرائیور نے ہمیں ورغلا کر ترانا تک جانے کے لیے تیار کر لیا تھا۔
ہمیں لشنیے میں اتار دیا گیا۔ ہمارا خیال تھا کہ وہاں روڈ کے ساتھ کھڑے ہمیں البسان کے لیے بس مل جائے گی۔ مگر کافی دیر گزرنے کے بعد بھی البسان کی بس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ پھر نشے میں چور ایک شخص کا وہاں آنا اور ہم سے زبردستی بات کرنے کی کوشش کرنا۔ پھر ایک اور شخص کا ایک چھوٹی لڑکی کے ساتھ آنا۔ اور پھر ان دونوں حضرات کا مل کر فیصلہ کرنا کہ ہمیں سرحد تک کیسے جانا چاہیے۔ ہمیں ایک چھوٹی وین میں سوار کر دینا جس میں لوگوں کا ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہنا اور ہنستے رہنا۔ اور اس وین کا کچھ فاصلے پہ جا کر رک جانا اور پھر ڈرائیور کا ہمیں دوسری وین میں سوار ہونے کا کہنا۔ اور پھر مسافروں کے بھرنے کے بعد اس وین کا البسان کے لیے روانہ ہونا۔ اور البسان پہنچنا۔ نہ جانے کیا معاملہ تھا کہ بیشتر دکانیں بند تھیں۔ اور پھر وہاں ہماری حمایت میں وہاں ایک عمر رسیدہ عورت کا ٹیکسی والوں سے جھگڑا ہونا۔ اور سامنے اسٹیڈیم میں سیاہ فام کھلاڑیوں کا آنا۔ اور کافی دیر کے بعد بالاخر ایک وین کا آنا اور ہمارا سرحد کے لیے روانہ ہونا۔ اور اس وین میں فرینک سے ملاقات جو نیویارک میں آٹھ سال رہا تھا اور وہاں سے بے دخل ہونے کے بعد اب یہاں اپنے ماں باپ ک ساتھ تھا۔ اس کا باپ ایک شہر سے دوسرے شہر وین چلاتا تھا اور یہ اپنے باپ کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔ سرحد تک فرینک سے بہت ساری باتیں ہوئیں اور اس سے اچھی دوستی ہو گئی۔ اس سے پہلے سفر میں بہتیرے بار ایسا ہوا کہ راستے میں لوگ ملے، ان سے اچھی بات چیت ہوئی مگر پھر وہ اپنی منزل پہ اتر گئے اور ہم آگے روانہ ہو گئے اور کروڑہا لوگوں کی اس دنیا میں ہم ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے مگر اب انٹرنیٹ کی آمد کے بعد معاملہ دوسرا ہے۔ فرینک کو فیس بک پہ اپنا نام بتا دیا تھا چنانچہ اب فیس بک کے ذریعے فرینک سے مستقل رابطہ ہے۔
فرینک کا باپ ہمیں سرحد تک نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ سرحد سے چند کلومیٹر پہلے اس نے وین روک دی۔ وہاں سے گزرنے والی ایک اور وین کو ہاتھ دے کر معلوم کیا۔ وہ سرحد پار کر کے مقدونیہ کے شہر اشتروگا جا رہی تھی۔ اس وین سے اشتروگا۔ مگر اشتروگا پہنچتے پہنچے شام ہو چلی تھی۔ وہاں سے اشکوپیے کے لیے کوئی بس اس وقت نہیں جا رہی تھی۔ ہمیں مشورہ دیا گیا کہ ہم رات اشتروگا میں بسر کریں اور صبح اشکوپیے کے لیے بس پکڑیں مگر ہمیں ہر حال میں اشکوپیے پہنچنا تھا۔ اگر تیسرے دن ہمیں فرینکفرٹ میں ہونا تھا تو اس رات ہمیں ضرور اشکوپیے میں گزارنی تھی اور پھر بیرات سے روانگی سے پہلے ہم نے اشکوپیے کے ایک ہوٹل کی بکنگ بھی کروالی تھی۔ ہمیں کہا گیا کہ ہم اشتروگا کے مرکز شہر سے اشکوپیے کے لیے ٹیکسی تلاش کریں۔ ہمیں اشتروگا کے مرکز شہر میں چھوڑ دیا گیا۔ بہت ساری دلچسپ تفصیلات ہیں جن کا اختتام یہ ہے کہ ہم ایک نجی گاڑی میں اشتروگا سے گوشتی وار کے لیے روانہ تھے۔ گوشتی وار پہنچتے پہنچتے رات نو بجے سے اوپر کا وقت ہو چلا تھا۔ گوشتی وار کا بس اڈہ۔ وہاں مختصر کھانا کھانا اور حدیث نامی نوجوان سے دلچسپ ملاقات۔ گیارہ بجے کی بس سے اشکوپیے کے لیے روانگی۔ اشکوپیے کے بس اڈہ پہ بلغراد جانے کے لیے معلومات۔ ٹیکسی سے اپنے ہوٹل پہنچنا۔
اشکوپیے میں صبح
ہم رات بہت تھکے ہارے سوئے تھے مگر اس دن ہمیں بہت لمبا سفر کر کے بلغراد پہنچنا تھا اور پھر بلغراد سے کوچ کر کے شمال کے لیے روانہ ہو جانا تھا۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری تھا کیونکہ ہم بارہ اگست کو شام تک فرینکفرٹ پہنچ جانا چاہتے تھے۔ تیرہ کو ہمیں ہر صورت میں وہاں موجود ہونا تھا۔
صبح جب ہوٹل سینتوس کے کمرے میں آنکھ کھلی تو بالکل دل نہیں تھا کہ ایک اور دن سفر میں گزارا جائے۔ کتنا اچھا ہو کہ ہم آہستہ آہستہ سفر کریں۔ مگر پھر جیسے جیسے دن چڑھتا گیا بدن میں سفر کے لیے توانائی آتی گئی۔
ہم ہوٹل کے کمرے میں تیار ہو کر باہر نکلے تو وہاں موجود بازار نے ہمارا دل موہ لیا۔ ہم نے ایک بار پھر کوشش کی کہ ہوائی جہاز کے سستے ٹکٹ مل جائیں تو ہم تکلیف سے بچ جائیں اور اشکوپیے سے سیدھے اڑ کر فرینکفرٹ پہنچ جائیں مگر کوئی سستا ٹکٹ دستیاب نہ تھا۔ بس اور ٹرین کا سفر ہی طے کرنا ہماری قسمت میں تھا۔ ہم نے ایک مقامی ریستوراں میں بیٹھ کر شوربہ اور روٹی کھائی۔
ٹیکسی سے بس اڈے۔ بارہ بجے کی بس سے بلغراد کے لیے روانگی۔ بس کا سرحد پار کر کے ہمیں سربیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں چھوڑ دینا۔ پھر وہاں تربوز اور خربوزہ خریدنا۔ پھر جس ریستوراں میں بیٹھے تھے وہاں سے چمچہ مانگ کر تربوز کو چمچے سے کھانا۔ اور پھر آندھی کا چلنا اور زور دار بارش ہونا۔ اور کس قدر جادوئی منظر تھا وہ۔ خوب زور سے بادل گرجے اور آسمان میں بجلی یوں کوندی کہ جیسے آسمان کو چمک دار تلواروں سے کاٹ دیا گیا ہو۔
بس آئی تو سب سے پہلے میں بس میں چڑھ گیا کہ سیٹیں گھیر لوں۔ کچھ ہی دیر میں خاتون اور بچے بھی آگئے۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ تربوز اور چمچہ اسی طرح میز پہ چھوڑ کر آگئے تھے۔ مجھے افسوس ہوا کہ ہم تمیز سے شکریے کے ساتھ چمچہ ریستوراں والے کو نہ دے پائے اور کھائے گئے تربوز کو کوڑے میں نہ ڈال پائے۔
اتنا تربوز کھانے کی وجہ سے تھوڑی دیر بعد مجھے سخت پیشاب لگا۔ بس رکوا کر پیشاب کیا۔ پھر کچھ ہی دیر میں بچے کو بھی زور کا پیشاب آگیا۔ ایک دفعہ پھر بس رکوائی گئی۔ بس ڈرائیور کے ساتھ بات کرنے میں وہ امریکی لڑکی کام آئی جو مقامی زبان جانتی تھی۔
ہم رات کے وقت بلغراد پہنچے۔ خاتون کو پریشانی تھی کہ نہ جانے بلغراد کا ریلوے اسٹیشن بس اڈے سے کتنا دور ہوگا۔ میں نے یقین دلایا تھا کہ وہ دونوں بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔ ہم لوگ پیدل چلتے ہوئے ریلوے اسٹیشن میں داخل ہو گئے۔ صبح کے چلے یہ وقت ہو گیا تھا۔ اور پچھلا پورا دن بھی سفر میں گزرا تھا۔ مجھے خاتون اور خاص طور پہ بچوں پہ ترس آرہا تھا کہ یہ سفر کا شوق دراصل میرا ہی ہے، یہ بے چارے میرے ساتھ قربانی کا بکرا بنتے ہیں۔ سفر کی سختی برداشت کرتے ہیں مگر منہ سے کچھ نہیں کہتے۔
میں بلغراد سے آگے ٹکٹ لینے کے لیے معلومات کے لیے کھڑا ہوا تو خاتون بچوں کو پیشاب کروانے لے گئیں۔ معلومات کی کھڑکی سے یہ خبر ملی کہ ویانا، فرینکفرٹ وغیرہ کے لیے ٹکٹ دوسری جگہ سے ملیں گے۔ کچھ تلاش کے بعد ڈھونڈتا ہوا اس جگہ پہنچا۔ ایک کھڑکی پہ باری آئی تو معلوم ہوا کہ کھڑکی نمبر پانچ پہ جائو۔ بہرحال کھڑکی پانچ پہ باری آئی تو جلدی جلدی دو ٹکٹ ویانا کے لیے حاصل کیے [ان ٹرینوں میں چھ سال سے کم عمر بچے مفت سفر کرتے ہیں]۔ ٹکٹ لے کر نکلا تو دیکھا کہ خاتون اور بچے وہیں تھے جہاں سے وہ مجھ سے روانہ ہوئے تھے۔ خاتون سے کہا کہ وہ کچھ کھانا خریدیں۔ اس وقت نو بجے تھے اور ٹرین کو نو بج کر اکیس منٹ پہ روانہ ہونا تھا۔ پلیٹ فارم پہ پہنچا تو بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ ٹرین موجود تھی مگر اس کے دروازے بند تھے۔ صرف درجہ دوئم کے دروازے بند تھے، درجہ اول کے دروازے کھلے تھے۔ڈبہ کھلنے کا انتظار کرنے والے سب نوجوان لوگ تھے۔ میں نے اتنے میں دیکھا کہ ایک گارڈ درجہ دوئم کے ڈبے سے نکل کر اندر ہی اندر درجہ اول کے ڈبے میں گھس گیا۔ مجھے درجہ دوئم میں گھسنے کا راستہ سمجھ میں آگیا۔ میں درجہ اول کے ڈبے میں گھسا اور درمیانی دروازہ کھول کر درجہ دوئم کے ڈبے میں گھس گیا۔ پہلے ہی کوپے میں اپنا بیک پیک اور ویڈیو کیمرہ چھوڑ کر ٹرین سے اتر گیا کہ خاتون اور بچوں کو دیکھوں۔ خاتون اور بچے وہاں نظر نہ آئے تو بہت گھبرا گیا۔ مگر کچھ ہی دیر میں وہ تینوں آگے ایک دوسرے پلیٹ فارم پہ نظر آگئے۔ خاتون نے بتایا کہ کھانے کے لیے کچھ نہ مل پایا تھا۔ ہم سب واپس اپنی ٹرین پہ پہنچے۔ اب درجہ دوئم کا دروازہ کھل چکا تھا اور ڈبے کے اندر مجمع لگ گیا تھا۔ ہم لوگ ڈبے کے اندر گھسے۔ میں نے جس کوپے میں سامان رکھا تھا وہاں کچھ نوجوان پہلے ہی موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس اس کوپے کی ریزرویشن تھی۔ اب ہم لوگ در بدر ہو چکے تھے۔ اپنا سامان لے کر آگے بڑھے، ہر کوپے میں جھانکا اور ہر ایک کو بھرا پیا۔ بہت آگے ایک کوپے میں صرف ایک لڑکی کو پایا۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ وہاں ٹک سکتے تھے۔ وہیں معلوم ہوا کہ سیٹ کا ٹکٹ الگ تھا اور سونے کے لیے برتھ کا ٹکٹ علیحدہ۔ ٹرین چلنے میں زیادہ وقت نہ تھا مگر میں بچوں کے کھانے کے لیے کچھ لینا چاہتا تھا۔ جلدی سے اتر کر آگے کیفے ٹیریا تک گیا۔ وہاں پہلے تو منع کر دیا گیا کہ بوریک [پنیر والی روٹی جو اس پورے خطے میں عام ہے] صحیح نہیں ہے مگر پھر دے دی گئی۔ ساتھ مائع دہی کے ڈبے لیے۔ گھبراہٹ تھی کہ کہیں ٹرین نکل نہ جائے۔ کیفے ٹیریا میں لگی گھڑی نو بج کر بارہ منٹ دکھا رہی تھی۔ کھانے کا یہ سامان لے کر فورا ٹرین پہ پہنچا۔ بچے کھانے پینے کی چیزیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے جلدی جلدی بوریک کھائی اور ساتھ میں دہی پیا۔ میں ان کی خوشی کو دیکھ کر خوش ہوا۔ ٹرین مقررہ وقت پہ چل دی۔ اسے بوڈا پسٹ سے گزرتے ہوئے صبح ویانا پہنچنا تھا۔
پھر ویانا۔ اور چند گھنٹے ویانا میں گزارنے کے بعد فرینکفرٹ کی ٹرین۔ پھر فرینکفرٹ میں ہوٹل کائیزرہاف میں قیام۔ اور وہ رات کس قدر کٹھن تھی۔ صبح ہی صبح اٹھ کر کراچی میں جرمن قونصل خانے کو فون۔ مگر معاملات نہ نمٹ پائے۔ فیصلہ ہمارے حق میں نہ ہوا۔
پھر ایک اور سفر۔ بے دلی سے۔ فرینکفرٹ ہوائی اڈے سے کرائے کی گاڑی، دو کوششوں میں۔ بارش۔ اور رات گئے انٹرلاکن پہنچنا۔ اگلے دن انٹرلاکن میں تھوڑی سیر و تفریح اور پھر جینیوا پہنچنا۔ جینیوا میں دو دن قیام۔ جھیل جینیوا۔ اقوام متحدہ کا مرکزی دفتر۔ پھر جینیوا سے پیرس۔ پیرس میں شاغ دے گال ہوائی اڈے کے قریب ہوٹل میں ٹہرنا۔ ہر دفعہ گاڑی سے شہر جا کر گاڑی کو زیر زمین پارکنگ میں سب سے نچلے مالے پہ کھڑی کرنا کہ کوئی ٹکر نہ مار دے۔
اور پھر پیرس سے کوچ۔ برسلز۔
برسلز سے فرینکفرٹ جانے والے دن پہلے برسلز سے واٹر لو پہنچنا اور اس تاریخی جنگ کو اپنے سمو لینا۔
فرینکفرٹ میں پھر چونسا آم۔
اور پھر واپسی۔ فرینکفرٹ سے ٹورنٹو۔ ٹورنٹو سے سان فرانسسکو۔ ہوائی اڈے سے بارٹ سے مل برے۔ ایک ٹرین سے اتر کر دوسری ٹرین پکڑنا تھی۔ کیل ٹرین ذرا سی دیر میں آگئی مگر ٹکٹ مشین نے ساتھ نہ دیا۔ جب تک ٹکٹ حاصل کیے ٹرین کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ پلیٹ فارم پہ ٹکٹ لہرا کر ڈرائیور کی توجہ اور ہمدردی حاصل کرنا چاہی مگر ٹرین بے رحمی سے ہمیں چھوڑ کر روانہ ہو گئی۔ اگلی ٹرین گھنٹے بھر میں۔ خنک ہوا سے بچنے کے لیے قریبی ریستوراں پہنچے۔ وہاں کھانا اور یہ خیال کرنا کہ امریکہ میں کھانا کتنا سستا ہے اور سروس کتنی شاندار ہے۔
پھر ٹرین سے سانٹا کلارا۔ اور سانٹاکلارا اسٹیشن کے باہر ایک ٹیکسی کو موجود پانا۔ ٹیکسی سے گھر۔ اور مہینہ بھر بعد گھر میں داخل ہونے کی خوشی۔
سفر تمام۔

Labels:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?