Friday, October 31, 2008
نوشی گیلانی رشتہ ازدواج میں بندھ گئیں
فریمونٹ، کیلی فورنیا میں مقیم مشہور اردو شاعرہ نوشی گیلانی حال میں رشتہ ازدواج میں بندھ گئیں۔ ان کا نکاح سڈنی، آسٹریلیا میں مقیم شاعر سعید خان سے اکتوبر پچیس کے روز بھاولپور میں ہوا۔ ولیمہ نومبر دو کو خان پور، ضلع ہزارہ میں ہونا قرار پایا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دو شاعروں کا یہ جوڑا آسٹریلیا، امریکہ، اور پاکستان میں سے کس جگہ مستقل قیام کرتا ہے۔
[تصویر بشکریہ سعید خان۔]
Labels: Noshi Gilani marries Saeed Khan
Sunday, October 12, 2008
دبئی: ہندوستانی پاکستانی غلاموں کی مزدوری سے تراشہ ہیرا
دبئی: ہندوستانی پاکستانی غلاموں کی مزدوری سے تراشہ ہیرا
تحریر: غائث عبدالاحد
ترجمہ: علی حسن سمندطور
چمکدار عمارتوں، مصنوعی جزیروں، اور عظیم الجثہ مراکز خریداری سے پر دبئی اب دنیا کا سب سے اونچا برج بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن اس حیرت انگیز عمارت سازی کے پیچھے مزدوروں کی ایک ایسی فوج ہے جسے سبز باغ دکھا کر دبئی لایا جاتا ہے اور غلاظت اور استحصال کے مستقل چنگل میں رکھا جاتا ہے۔
سورج ڈوب رہا ہے اور ڈوبتے سورج کی کرنیں ہندوستانی مزدوروں کے جسموں پہ ٹیڑھی ترچھی لکیریں بنا رہی ہیں۔ دو مزدور نہا رہے ہیں، وہ مزدور کیمپ کے بیت الخلا کے قریب ٹب سے پانی نکال کر اپنے اوپر انڈیل رہے ہیں۔ دوسرے مزدور اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک آدمی ایک بالٹی میں اپنے پائوں ڈالے کھڑا ہے۔ گرمی سے دم گھٹا جاتا ہے اور ریتیلی ہوا ہمارے چہروں پہ تھپیڑے مار رہی ہے۔
سکھائے جانے والوں کپڑوں سے ٹپکتی پانی کی بوندیں گرمیوں کی خوش آئند بارش کے طور پہ گر رہی ہیں۔ ریگستان کے بیچوں بیچ ہمارے چاروں طرف دور تلک مزدور کیمپوں کا ایک شہرآباد ہے۔ ایک ایسا شہر جوسیمنٹ کے بلاکوں، لوہے کی چادروں،پنجرے کی جالی، خاردار تاروں، رنگ کے خالی ڈبوں، پرانی زنگ آلود مشینری اور تھکے افسرہ چہرہ ہزاروں مزدوروں سے مل کر بنا ہے۔ میں دبئی شہر کے اونچے برجوں، مصنوعی جزیروں، اور عظیم الجثہ مراکز خریداری سے نکل کر ریگستان سے گزرتا ابوظہبی کے مضافات میں پہنچ گیا ہوں۔ زاہا حدید پل سے پہلے دائیں طرف مڑ جائیں تو چند سو میٹر کا فاصلہ طے کرنے پہ آپ مصفح نامی علاقے میں پہنچ جائیں گے۔ یہ آبادی سیاحوں کی نظروں سے چھپی ہوئی ہے۔ یہ علاقہ خلیج فارس میں موجود ایسی بہت سی آبادیوں میں سے ایک ہے جہاں مزدوروں کی ان فوجوں کو رکھا جاتا ہے جو اس علاقے میں ایک کے بعد ایک خوب صورت عمارتیں تعمیر کر رہی ہیں۔
غسلخانے سے پرے، آہنی چادروں سے پٹے ایک صحن میں مزدور اپنے لیے کھانا تیار کر رہے ہیں۔ پسینے کی لڑیاں مستقل ان کے ماتھے اور گردن سے لڑھک رہی ہیں، پسینے سے بھیگی ان کی قمیضیں ان کی پیٹھوں سے چپکی ہوئی ہیں۔ فضا پسینے اور مصالحوں کی بھاری بو سے شرابور ہے۔
غلاظت کے ایک ڈھیر کے پاس ایک آدمی اپنا کھانا لیے کھڑا ہے: چند مرچیں، ایک پیاز اور تین ٹماٹر، جو مصالحوں کے ساتھ تلے جائیں گے اور روٹی کے ساتھ کھائے جائیں گے۔ قریب ہی ایک دوسرے کیمپ میں شمالی اور جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مزدور ہیں جو چائے پی رہے ہیں، ان کا ایک ساتھی کھانا تیار کر رہا ہے۔ ایک ایسے کمرے کے وسط میں جہاں دس لوگ سوتے ہیں ایک آدمی گندی تہ بند پہنا زمین پہ بیٹھا ہے اور خلا میں گھورتے ہوئے ہاون دستے کی مدد سے پیاز اور لہسن پیس رہا ہے۔
کابل کے مضافات میں موجود میدان نامی گائوں سے تعلق رکھنے والا حمیداللہ نامی ایک منحنی شخص مجھے بتاتا ہے: "میں نے ایران میں پانچ سال گزارے اور ایک سال سے یہاں ہوں۔ مگر یہ ایک سال دس سال جتنا لگتا ہے۔ جب میں نے افغانستان چھوڑا تھا تو میرا خیال تھا کہ میں چند ماہ میں واپس پلٹ جائوں گا مگر اب مجھے کچھ نہیں پتہ کہ واپسی کب ہوگی۔"
برابر والے بستر پہ موجود ایک شخص بات آگے بڑھاتا ہے: "اس نے کل گھر فون کیا تھا۔ اس کو بتایا گیا کہ لڑائی میں اس کے گائوں کے تین لوگ مارے گئے۔یہ وجہ ہے ہم لوگوں کے یہاں رہنے کی۔"
حمیداللہ عمارت سازی میں ساڑھے چارسو درہم [ تقریبا ایک سو دس امریکی ڈالر] فی ماہ بناتا ہے۔
زندگی کیسی ہے؟ میں اس سے پوچھتا ہوں۔
وہ جواب دیتا ہے: "کیسی زندگی؟ یہاں ہماری کوئی زندگی نہیں ہے۔ ہم تو قیدی ہیں۔ صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں، کام پہ سات بجے پہنچتے ہیں اور پھر کیمپ پہ واپسی رات کے نو بجے ہوتی ہے۔ ہر دن کا یہی معمول ہے۔"
باہر صحن میں ایک شخص ایک ٹوٹے آئینے کے سامنے رد لکڑی سے بنائی کرسی پہ بیٹھا ہے۔ اس کے گلے سے پلاسٹک کی ایک چادر لٹک رہی ہے، کیمپ کا نائی اس کے گھنی داڑھی تراش رہا ہے۔ افلاس کے ماحول کے باوجود آج جشن کی رات ہے۔ ایک مزدور پاکستان میں دو ہفتے کی چھٹی گزار کر آیا ہے۔ وہ پاکستان سے اپنے ساتھ چاولوں کی ایک بوری لایا ہے۔ آج گوشت کا پلائو بنایا جا رہا ہے۔ چاول کھانے کی استطاعت اختتام ہفتہ پہ ہی ہوتی ہے: معمولی تنخواہیں، ایک کمزور ڈالر اور اشیائے خوردونوش کی گرانی سے اور بھی پٹی ہوئی ہیں۔
"اب زندگی اورخراب ہو گئی ہے۔ پہلے ایک مہینہ ایک سو چالیس درہم [ تقریبا چالیس ڈالر] میں، گزر جاتا تھا۔ اب تین سو بیس سے ساڑھے تین سو درہم تک چاہیے ہوتے ہیں۔"
درجن سے اوپر مزدور ایسے اخباروں کے اوپر بیٹھے ہیں جن میں پرتعیش گھڑیوں، موبائل فونوں، اور اونچے برجوں کے اشتہارات ہیں۔ پلاسٹک کی تین ٹرے آتی ہیں، ان میں زرد چاول اور گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں۔ مزدور کم مقدار گوشت مل بانٹ کر کھاتے ہیں۔
یہ سارے لوگ اس بڑے فراڈ کا حصہ ہیں جس سے خلیج الفارس کی عظیم الشان تعمیر کا کام ہو رہا ہے۔ اپنے جیسے لاکھوں مزدوروں کی طرح ان لوگوں نے ہندوستان اور پاکستان میں ایجنٹوں کو سترہ سو ڈالر کے لگ بھک ادا کیے ہیں۔ ان لوگوں کو ان کی موجودہ تنخواہوں سے دگنی تنخواہوں کے علاوہ چھٹیوں میں جہاز کے ٹکٹ کا لالچ دیا گیا تھا، مگر کمرے میں موجود کسی شخص نے بھی دستخط کرنے سے پہلے معاہدے کونہ پڑھا تھا۔ ان میں سے صرف دو خواندہ ہیں۔
لمبی داڑھی والا ایک شخص کہتا ہے: "انہوں نے ہم سے جھوٹ بولا۔ وہ جھوٹ بول کر ہمیں یہاں لائے ہیں۔ ہم سے کئی لوگوں نے اپنی زمینیں بیچیں۔ دوسروں نے یہاں آنے کے لیے قرضہ لے کر ایجنٹ کو رقم دی۔"
عرب امارات میں پہنچنے پہ ان مزدوروں سے بھیڑ بکریوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ نہ انہیں طبی سہولیات دی جاتی ہیں اور نہ ہی ان کے دوسرے بنیادی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ انہیں یہاں لانے والی کمپنی ان کا پاسپورٹ اپنے قبضے میں رکھتی ہے، اور اس بات کا یقین رکھنے کے لیے کہ مزدور یہاں سے بھاگ نہ جائیں، اکثر ان کی ایک دو ماہ کی تنخواہیں بھی اپنے پاس دبا کر رکھتی ہے۔ اور اس سب کے بعد ان میں سے کئی صرف چارسو درہم [تقریبا ایک سو دس ڈالر] ماہانہ بناتے ہیں۔
مزدوروں کا ایک گروہ بغیر کسی جھجک کے مجھے بتاتا ہے کہ اگر کوئی مزدور بیمار پڑ جائے تو چند دن کے بعد اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ "مزدور سب سے سستا ہے۔ لوہا، گارا، ہر شے کے دام بڑھے ہیں، مگر مزدور وہیں کھڑا ہے۔"
کھانے کے دوران مزدور باتیں کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے:
"کہنے کو تو میری شفٹ آٹھ گھنٹے کی ہے اور دو گھنٹے اوور ٹائم کے، مگر درحقیقت میں اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہوں۔ سپروائزر ہم سے جانوروں کا سا سلوک کرتا ہے۔ نہ جانے کمپنی کے مالکان کو یہ بات معلوم ہے یا نہیں۔"
ایک دوسرا مزدور کہتا ہے:
"یہاں جنگ نہیں ہو رہی اور پولیس ہم سے ٹھیک برتائو کرتی ہی۔ لیکن تنخواہ اچھی نہیں ہے۔"
باورچی کی خدمات انجام دینے والا شخص احمد ایک جاندار نوجوان کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے، "یہ آدمی چار سال سے گھر نہیں گیا ہے۔ اس کے پاس جہاز کے کرائے کے لیے رقم نہیں ہے۔"
لوہے کا کام کرنے والا ایک شخص کہتا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے واپسی کے ٹکٹ کا ذمہ دار کون ہے۔ بھرتی کرنے والی ایجنسی نے اسے بتایا تھا کہ کنسٹرکشن کمپنی اس کے لیے جہاز کا کرایہ دے گی لیکن اسے لکھت میں ایسی کوئی چیز نہیں ملی۔ ایک تجربہ کار آدمی جو چشمہ لگائے ہوئے ہے اور سر پہ گول ٹوپی پہنے ہے مجھے بتاتا ہے کہ حالات پہلے سے بہتر ہوئے ہیں۔ پانچ سال پہلے جب وہ یہاں آیا تھا تو کمپنی کی طرف سے اسے کچھ نہیں ملا تھا۔ "اب وہ ہر مزدور کو ایک بستر دیتے ہیں اور کمرے میں اے سی بھی لگا ہے۔"
گو کہ مزدوروں کو یونین بنانے کا حق نہیں ہے مگر حال میں اس پورے علاقے میں ہڑتالیں بھی ہوئیں اور ہنگامہ آرائی بھی؛جس کا کہ چند سال پہلے تک تصور محال تھا۔ مصفح میں ایک اور جگہ مجھے ایک غیر قانونی یونین سے سابقہ پڑتا ہے۔ یہاں مزدوروں نے وطن کے قبائلی خدود پہ تشکیل شدہ ایک زمین دوز انشورینس پروگرام بنایا ہے۔ اس پروگرام کا ایک شریک مجھے بتاتا ہے، "یہاں آنے سے پہلے ہم لوگ اپنے قبائلی بزرگوں کے پاس نام لکھواتے ہیں۔ پھر اگر ہم میں سے کوئی زخمی ہوتا ہے اور گھر بھیجا جاتا ہے، یا مر جاتا ہے، تو بزرگ باقی لوگوں سے تیس درہم فی کس جمع کرتے ہیں اور یہ رقم متعلقہ شخص کے گھر والوں کو دی جاتی ہے۔"
ایک طور سے مصفح میں موجود مزدور خوش قسمت ہیں۔ پرانی دبئی کے ڈیرا نامی علاقے میں، جہاں شہر کے بہت سے غیر قانونی طور پہ مقیم مزدور رہتے ہیں، ہر کمرے میں بیس کے قریب لوگ بھرے ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کا تخمینہ ہے کہ امارات میں تین لاکھ سے زائد غیر قانونی طور پہ مقیم مزدور ہیں۔
ایک اور گرم شام کے وقت، کام ختم ہونے پہ سینکڑوں لوگ گلیوں میں جمع ہیں، وہ چائے پی رہے ہیں اور ٹوٹی کرسیوں پہ بیٹھے ہیں۔ ایک شخص کوڑے کے ایک بڑے ڈھیر کے قریب اپنے چھکڑے کے ہینڈل سے پیٹھ ٹکایا بیٹھا کھانا کھا رہا ہے۔ ایک گھر میں ایک مزدور باورچی خانے کے سنک کے اوپر اپنے دھلے کپڑے ٹانگ رہا ہے، ایک قریبی بیت الخلا سے بدبو کے بھبکے اڑ رہے ہیں۔ اس سے اگلے گھر میں مزدور زمین پہ لیٹے ہیں۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ وہ غیر قانونی طور پہ مقیم ہیں۔ وہ خوف زدہ ہیں اور مجھے وہاں سے چلے جانے کو کہتے ہیں۔ باہر پاکستانی اور سری لنکن مزدوروں کے درمیان ہاتھا پائی ہو جاتی ہے۔
ان گلیوں میں جا بجا ایسے کارخانے ہیں جہاں ہندوستانی مزدور رات گئے تک کام کرتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی میزوں پہ جھکے ہار بنا رہے ہوتے ہیں۔ چند میل دور یہ غلام منڈی اور بھی گھنائونا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ سنگ مرمر اور شیشے سے سجے ایک چمکدار ہوٹل کے باہر درجنوں طوائفیں نسلی گروہوں میں بٹی کھڑی ہیں: سیدھے ہاتھ پہ ایشیائی، ان کے بعد افریقی، اور الٹے ہاتھ پہ، ماضی کے سوویت یونین سے آنے والی سفید فام عورتیں۔ وہیں کچھ عرب عورتیں بھی ہیں۔ مجھے بتایا جاتا ہے کہ ایرانی خواتین کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔ ایرانی خواتین کا نرخ سب سے اونچا ہے اور ایرانی طوائفیں مہنگے ترین ہوٹلوں میں پائی جاتی ہیں۔
خلیج فارس کے دوسرے علاقوں کی طرح دبئی اور ابوظہبی بھی تارکین وطن مزدوروں کی محنت سے چمک دمک حاصل کررہے ہیں۔ یہ تارکین وطن پرانے وقتوں سے میل کھانے والے طریقے کے حساب سے ایک دوسرے سے جدا رہتے ہیں۔ سب سے اوپر مقامی لوگ ہیں، جن کے پاس تیل کا پیسہ ہے اور جو اپنے سفید یا سیاہ عبایوں میں آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ پرتعیش زندگی جینے والے ان لوگوں کے پاس سب کچھ ہے۔ مگر فری زون کے باہر اماراتی شریک کے بغیر کاروبار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا شریک اکثر صورتوں میں کاروبار کو صرف اپنا نام دیتا ہے۔ مقامی کفیل کے بغیر کسی کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
مقامی لوگوں سے نیچے مغربی دنیا کے لوگ ہیں جو ماہرین کے فرائض انجام دیتے ہیں اور اپنے ملک کے مقابلے میں یہاں دگنی سے زائد تنخواہیں، بلا ٹیکس، حاصل کرتے ہیں۔ ان سے نیچے دوسرے عرب ہیں، لبنانی، فلسطینی، مصری، اور شامی۔ نسل پرستی اور جھوٹی شان اس گروہ کو یکجا رکھنے میں معاونت کرتی ہے۔
"آپ یہاں آئیں تو آپ کے ساتھ ناقابل یقین چیزیں ہوتی ہیں،" ایک لبنانی عورت جو اکثر دبئی آتی ہے نئی سیاہ ایس یو وی چلاتے ہوئے مجھے بتاتی ہے، "اچانک آپ فی ماہ پانچ ہزار ڈالر بنانے لگتے ہیں۔ آپ کو آسانی سے قرضہ مل جاتا ہے اور آپ اپنے خوابوں کو پا سکتے ہیں۔ آپ کھل کر خریداری کرتے ہیں۔ اور بھوک لگے تو آپ سیدھے ہوٹل جاتے ہیں۔ کسی اور جگہ آپ اس طرح کی زندگی نہیں جی سکتے۔"
اس اہرام مزدوری میں سب سے نیچے ہندوستان، پاکستان، سری لنکا، حبشہ، فلیپین، اور پرے کے مزدور، بیرے، ہوٹل کے ملازمین اور بے ہنر محنت کش ہیں۔ یہ لوگ وسیع مراکز خریداری، ہوٹلوں اور ریستورانوں سے ڈرے سہمے گزرتے ہیں اور دوسروں کو "سر" اور "میڈم" کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ گرم ترین دنوں میں بیچ دوپہر آپ ان کو پارکوں میں درختوں کے نیچے سوتا پائیں گے، یا انہیں دبئی مسجد کے سنگ مرمر فرش پہ یا پتلی گلیوں میں بنچوں یا کارڈبورڈ کے ٹکڑوں پہ بیٹھا دیکھیں گے۔ یہ لوگ اس نسل پرستی کا شکار ہیں جو نہ صرف امارات میں پھل پھول رہی ہے بلکہ تیزی سے باقی مشرق وسطی میں برآمد کی جا رہی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر پچھلی صدی کی تیسری دہائی کا جنوبی ریاست ہائے متحدہ امریکہ یاد آتا ہے۔
ابوظہبی میں ایک شام مجھے عراق سے تعلق رکھنے والے علی نامی ایک انجینئیر کے ساتھ کھانا کھانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ علی سے میری دوستی کئی دہائیوں پہ مشتمل ہے۔ کھانے کے بعد کہ جب اس کی بیوی زعفران کی خوشبو والی چائے پیش کرتی ہے، علی کرسی پیچھے کھسکا کر ایک سگار سلگا لیتا ہے۔ ہم اسٹاک مارکیٹ، مشرق وسطی میں سرمایہ کاری وغیرہ کے بارے میں بات کرتے نسل پرستی کے موضوع تک پہنچتے ہیں۔
"اگر میٹرو میں نسلی گروہوں کو جدا نہ رکھا گیا تو ہم اس میں کبھی سفر نہیں کریں گے۔" علی اس کثیرالمالیاتی زیر زمین منصوبے کی بات کر رہا ہے جو دبئی میں مکمل کیا جارہا ہے۔
علی کی بیوی بات مکمل کرتی ہے: "ہم کبھی ان بدبودار ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے برابر میں نہیں بیٹھیں گے۔"
یہ بات مجھے بارہا بتائی گئی ہے کہ گو کہ تارکین وطن مزدور یہاں نہایت خراب حالات میں رہ رہے ہیں مگر ان کی یہ حالت ان کے وطن میں ان کی حالت سے پھر بھی بہتر ہے؛ یوں جیسے کہ ایک جگہ کی غربت دوسری جگہ کے استحصال کو صحیح ثابت کرتی ہو۔
میرا دوست مجھ سے کہتا ہے: "ہمیں غلاموں کی ضرورت ہے۔ ہمیں عظیم الشان عمارتیں بنانے کے لیے غلام چاہئیں۔ اہرام مصر بھی تو غلاموں نے بنائے تھے۔"
خواتین کے لیے مدینہ امید نامی ادارہ چلانے والی انسانی حقوق کی علمبردار شارلا مصابیح سوچ کی اس کڑی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ، "ایک دفعہ آپ کو غریبوں کی محنت سے امیر ہونے کا لطف آجائے تو اس انداز زندگی کو چھوڑنا آسان نہیں ہے۔ یہ لوگ انسان کی حیثیت گرا رہے ہیں۔ ممکن ہے تارکین وطن مزدور اپنے گھر میں صرف ایک وقت کا کھانا کھانے کی استطاعت رکھتے ہوں مگر ان کے اطراف ان کے چاہنے والے تو ہوتے ہیں۔ وہاں ان کی عزت تو ہے۔ یہ لوگ کسی ہوٹل میں کمرہ نہیں مانگ رہے۔ یہ صرف اتنا تقاضہ کر رہے ہیں کہ انہیں انسان سمجھا جائے۔"
ایک اور دن کے اختتام پہ دبئی مرینا کے قریب ایک بہترین ساحل پہ سمندرکی موجیں خوب صورت ریت پہ اپنا سر پٹک رہی ہیں۔ چند لوگ نیلے سمندر کے اوپر پیرا گلائڈنگ کر رہے ہیں۔ نوساز جزیروں پہ دیوقامت عمارتیں خلائی جہازوں کی مانند کھڑی ہیں۔ مغربی سیاح ریت پہ آرام سے لیٹے ہیں۔ کچھ فاصلے پہ موجود ریت کے ایک ٹیلے سے فلیپینو، ہندوستانی اور پاکستانی مزدور یوں خاموشی سے کھڑے یہ نظارہ کررہے ہیں کہ جیسے ان کے اور رنگ رلیاں منانے والوں کے درمیان ایک نادیدہ دیوار ہو۔ ان کے پیچھے چند اور نئے برج کھڑے ہو رہے ہیں۔
آئی ٹی سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان عرب مجھے بتاتا ہے: "یہ کھلا کھاتہ ذہنیت ہے۔ یہاں لوگ پیسہ بنانے آتے ہیں۔ وہ مخصوص دائروں میں رہتے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ بنا کر یہاں سے روانہ ہونا چاہتے ہیں۔"
مصفح میں ایک پاکستانی مزدور مجھے اپنے محلے کی سیر کراتا ہے۔ دھول اڑاتی اس گلی کے دونوں طرف محنت کشوں کے بیرک اور آشنہ مفلوک الحالی ہے: گٹر کا پانی، کوڑے کے ڈھیر، اور ردی دھات۔ ایک آدمی اپنی گاڑی دھو رہا ہے اور ایک پنجرے میں مرغیاں پھڑپھڑا رہی ہیں۔
ہم ایک کمرے میں داخل ہوتے ہیں، دروازے کے ساتھ چپلوں کا ایک ڈھیر ہے۔ اندر ایک مزدور کاغذات کا ایک پلندہ میری طرف بڑھا دیتا ہے۔ وہ اپنی کمپنی پہ تنخواہ کی غیر ادائیگی کا مقدمہ کر رہا ہے۔
"میں تین ماہ سے عدالت کے چکر لگا رہا ہوں۔ ہر دفعہ مجھ سے کہا جاتا ہے کہ میں دو ہفتے کے بعد آئوں۔"
اس کے ساتھی تائید میں اپنے سر ہلاتے ہیں۔
"پچھلی بار کمپنی کے وکیل نے مجھ سے کہا تھا کہ کمپنی ہی قانون ہے اور مجھے ایک دھیلا نہیں ملے گا۔"
مصابیح کا کہنا ہے کہ، "بظاہر پچھلے دس سالوں میں دبئی نے غیر معمولی ترقی کی ہے مگر عمرانی طور پہ یہ بہت پیچھے ہے۔ یہاں مزدور کی حالت بیسویں صدی میں امریکہ کے مزدور سے مختلف نہیں ہے، لیکن اکیسویں صدی میں یہ صورتحال قطعی ناقابل قبول ہے۔"
اصل مضمون:
http://www.guardian.co.uk/world/2008/oct/08/middleeast.construction
تصویر بشکریہ
http://tagpuan.com
Labels: Exploitation, Ghaith Abdul-Ahad, Indian Pakistani Migrant Workers, The lie that is Dubai, We need slaves to build monuments