Friday, September 26, 2025

 

نئے دور کی خیرات

 



نئے دور کی خیرات
 یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر اس وقت اس کو ڈھونڈ نہیں پا رہا کہ ہر دور میں خیرات نکالنے کا طریقہ الگ ہوتا ہے۔ 
کسی بھی دور میں خیرات اس شے کی نکالی جاتی ہے جس کی لوگوں کو طلب ہو، ضرورت ہو، مانگ ہو، اور جس چیز سے آپ خود استفادہ کرتے ہوں یا آپ اس سے کبھی مستفید ہوئے ہوں۔
جس دور میں ہم زندہ ہیں اس دور میں ہم سب سے زیادہ استفادہ جس چیز سے اٹھاتے ہیں وہ انٹرنیٹ ہے۔ وہ سارا مواد جو ہم انٹرنیٹ سے حاصل کرتے ہیں کسی نہ کسی نے، کبھی نہ کبھی محنت سے انٹرنیٹ پہ ڈالا ہوتا ہے۔ نئے دور کی خیرات یہ ہے کہ ہم انٹرنیٹ کے خزانے میں اپنا حصہ شامل کریں تاکہ دوسرے اس سے استفادہ کر سکیں۔
 


Thursday, September 25, 2025

 

کیا آپ چاہیں گے کہ اپ کے کسی عمل سے دوسروں کو تکلیف پہنچے؟

 


 



کیا آپ چاہیں گے کہ اپ کے کسی عمل سے دوسروں کو تکلیف پہنچے؟ سمجھدار لوگوں کی اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔ کوئی بھی بااخلاق شخص ہرگز یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے کسی عمل سے دوسرے تکلیف میں مبتلا ہوں۔ اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو کیا آپ جانتے ہیں کہ اپ کے ایک روزمرہ عمل سے دوسروں کو سخت تکلیف پہنچتی ہے؟ اور ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ کے اس عمل سے کوئی سخت بیمار پڑ جاتا ہو یا کسی کی جان چلی جاتی ہو۔ آپ کا وہ عمل ہے اپنے باورچی خانے کے کوڑے کو باہر پھینک دینا۔ اس سے قطع نظر کہ آپ اپنا گیلا گھوڑا خود اپنے ہاتھوں سے باہر پھینکتے ہیں یا آپ کے گھر سے کوئی جمعدار کوئی کوڑا اٹھانے والی گاڑی اسے لے جاتی ہے۔ شہر کراچی میں کوڑا اٹھانے کا نظام انتہائی ناقص ہے اور آپ کے گھر سے اٹھایا جانے والا کوڑا بھی کہیں بہت دور نہیں جاتا۔ اس کوڑے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا بلکہ وہ کوڑا کسی ویران جگہ پہ ڈھیر کر دیا جاتا ہے۔ اپ کے گھر یا دفتر سے نکلنے والے کوڑے میں گیلا کوڑا سب سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اس گیلے کوڑے پہ مکھِیاں مچھر سمیت طرح طرح کے جراثیم پلتے ہیں۔ آوارہ کتے اور چیلیں کوڑے کے ڈھیر میں اپنی خوراک تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کوڑے پہ پلنے والے جراثیم بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ اس کوڑے پہ پلنے والے کتے راہگیروں کو، چھوٹے بچوں کو کاٹ لیتے ہیں۔ اور اس کوڑے پہ پلنے والی چیلیں کسی ہوائی جہاز سے ٹکرا کر بہت سے لوگوں کی موت کا سبب بن سکتی ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپ کے اس روز مرہ کے عمل سے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچے تو آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے گیلے کوڑے کو اپنے گھر یا دفتر میں ہی دفن کر دیں۔ اگر آپ کے پاس کچی زمین ہے تو آپ کچی زمین میں گڑھا کھود کر کوڑے کو دفن کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کچی زمین نہیں ہے تو آپ بڑے گملوں میں یہ کام کر سکتے ہیں۔ طریقہ بہت اسان ہے۔ تین یا زائد بڑے گملوں کا انتظام کیجیے۔ باورچی خانے کا گیلا کوڑا سارا دن ایک الگ برتن میں جمع کیجئے۔ دن کے اختتام پہ اس گیلے کوڑے کو خالی گملے میں انڈیل دیجیے اور کوڑے پہ مٹی کی ایک موٹی تہہ ڈال دیجئے تاکہ کوڑے پہ مکھیاں نہ آئیں۔ اگلے دن پھر یہی کام کیجیے اور پھر کوڑے کو مٹی کی موٹی تہہ سے چھپا دیجیے۔ ایسا کرتے جائیے حتی کہ پہلا گملہ بھر جائے۔ پھر یہی کام دوسرے گملے میں شروع کیجئے اور دوسرا گملہ بھرنے کے بعد تیسرے گملے میں۔ کراچی کی آب و ہوا ایسی ہے کہ گملہ بھرنے کے بعد 30 سے 40 دن میں سارا گیلا کوڑا گل سڑ کر کھاد بن جائے گا اور پھر آپ اس کھاد کو اس گملے سے نکال کر اس عمل کو دوبارہ سے پہلے گملے سے شروع کر سکتے ہیں۔

 

 

 

 


Friday, August 22, 2025

 

کراچی میں سڑکوں پہ بانی کا بارش کیوں کھڑا ہوجاتا ہے؟


 

مکالمہ

کراچی میں سڑکوں پہ بانی کا بارش کیوں کھڑا ہوجاتا ہے؟ ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
کراچی میں سڑکوں پہ بارش کا پانی اس لیے کھڑا ہوجاتا ہے کیونکہ اس شہر میں سڑکوں کے ساتھ برساتی نالے نہیں بنے ہیں۔


برساتی نالوں کی کیا ضرورت ہے؟ بارش کا پانی گٹر لائن سے کیوں نہیں نکالا جاسکتا؟
برساتی نالوں کا مقصد بارش کے پانی کی نکاسی ہے جب کہ سیاہ پانی کی نکاسی کے لیے گٹر لائن استعمال کی جاتی ہے۔ بارش کا پانی براہ راست جھیل، دریا، یا سمندر میں ڈالا جاسکتا ہے۔ گٹر کے پانی کے ساتھ ایسا نہیں کیا جاتا۔ آبی حیات کے تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے گٹر کے پانی کو چھاننے اور اس کی تیزابیت کو معتدل بنانے کے بعد اس پانی کو جھیل، دریا، یا سمندر میں ڈالا جاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے برساتی نالوں کو گٹر لائن سے الگ رکھنا ضروری ہے۔


کراچی میں سڑکوں کے ساتھ برساتی نالے کیوں نہیں بنائے جاتے؟
کراچی میں برساتی نالے بنانے کے تجربات مستقل ناکام ہوئے ہیں۔ عام دنوں میں برساتی نالے خشک پڑے ہوتے ہیں۔ جہاں کہیں سڑک کے ساتھ برساتی نالے بنائے گئے، لوگون نے عام دنوں میں ان نالوں کو خشک دیکھ کر ان میں کوڑا پھینکنا شروع کردیا اور یوں بارش کے موسم سے بہت پہلے یہ برساتی نالے کوڑے سے بھر گئے۔ پھر بارش ہوئی تو کوڑے سے بھرے برساتی نالوں کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔


لوگ برساتی نالوں میں کوڑا کیوں پھینکتے ہیں؟
اول یہ کہ اس شہر کی اکثریت جاہل ہے۔ یہ لوگ جدید دنیا کے نظام کو نہ تو سمجھتے ہیں اور نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں۔ دوئم یہ کہ ان لوگوں کی دنیا کے کاموں میں دلچسپی واجبی ہے؛ ان کی زیادہ دلچسپی جنت میں دودھ اور شہد کی نہروں کے سنگم پہ بیس مرلے کا گھر بنانے میں ہے۔
 


Monday, July 21, 2025

 

کراچی، کوڑے کا ڈھیر

 



 دوزخ میں سخت گرمی ہوگی اور جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر ہوں گے۔

کراچی کے رہائشی دوزخ پہنچ کر اپنائیت محسوس کریں گے۔

کوڑے کی شکایت سب کرتے ہیں مگر کچرے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہ کام بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں جو ان کے اختیار میں ہیں۔

آپ کراچی میں کتنے لوگوں کو جانتے ہیں جو گھر سے اپنے تھیلے لے کر خریداری کے لیے نکلیں؟

آپ کتنے لوگوں کو جانتے ہیں جو اپنا گیلا کوڑا زمین میں گاڑتے ہوں اور اسے باہر نہ پھینکتے ہوں؟
 

پلاسٹک کی تھیلیوں سے متعلق ایک لطیفہ ہے جو میں اپنی حماقت کی سند کے طور پہ پیش کرتا ہوں۔
میں کچھ عرصہ کراچی سے باہر رہنے کے بعد واپس وطن پہنچا تو بہت کچھ تبدیل ہوچکا تھا۔ ملک کے مختلف علاقوں سے کروڑ کے لگ بھگ اور لوگ کراچی میں آ بسے تھے۔ کوڑے کے ڈھیروں میں اضافہ ہوا تھا، ٹریفک بے ہنگم تر ہوگئی تھی اور زبان بھی بدل گئی تھی۔ ایک روز مجھے خیال آیا کہ گرم موسم کی مناسبت سے ایک آدھی آستین والی سفید قمیض خریدنا چاہیے۔ اس خریداری کی نیت سے صدر پہنچا۔ کپڑوں کی دکانوں کی طرف جاتے ہوئے پھلوں کا ایک ٹھیلا نظر آیا۔ اس سے کچھ پھل خریدے۔ اپنے ساتھ اپنا تھیلا لے جانا بھول گیا تھا اس لیے ناگواری کے احساس کے ساتھ اس کا پلاسٹک کا تھیلا قبول کیا۔ کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچ گیا جہاں قطار سے کپڑوں کی دکانیں تھیں۔ ایک دکان میں داخل ہونے لگا تو اندر سے آواز آئی، 'شاپر باہر، شاپر باہر۔' میں ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا۔ سمجھ نہ آیا کہ دکان کے اندر جائے بغیر قمیض کیسے پسند کروں گا۔  باہر کھڑے کھڑے جھانک تانک کرتا رہا اور پھر آواز لگائی، وہ سامنے جو نیلے رنگ کی قمیض ٹنگی ہے، اس میں سفید رنگ دکھائیں۔ دکاندار نے مجھے تعجب سے دیکھا اور کہا، 'آپ اندر آئیں۔' میں نے اس سے زیادہ تعجب سے پوچھا، 'اندر آئیں؟ اپ نے تو کہا تھا کہ شاپر باہر۔'  
'آپ کو نہیں کہا۔ آپ کے ہاتھ میں جو شاپر ہے اسے باہر رکھنے کو کہا ہے۔' اس نے جواب دیا۔
مجھے فورا اپنی بے وقوفی کا احساس ہوا اور معلوم ہوا کہ میری غیر موجودگی میں کراچی کی انگریزی بہت آگے نکل گئی ہے اور میں بہت پیچھے رہ گیا ہوں۔


Sunday, July 06, 2025

 

مسائل اور خوشیوں کی از خود واقع ہونے والی موت

 مسائل اور خوشیاں وقت کے ایک چھوٹے حصے میں قید ہیں۔ وقت کی سوئی اس حصے سے آگے نکل جائے تو گزر جانے والے حصے کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ اس حصے میں موجود مسائل اور خوشیاں اپنی موت آپ مرچکے ہوتے ہیں۔


 

مقدس کتابوں سے بلند ہوتی آوازیں

 پنڈت جی کہہ رہے تھے، 'دھیان سے سنو۔ یہ میں نہیں کہہ رہا۔ یہ گیتا کہہ رہی ہے۔' اور یہ کہنے کے بعد پنڈت جی دیر تک بولتے رہے۔ بھگود گیتا کا ایک نسخہ میرے پاس بھی ہے۔ میں گیتا نکال کر لایا اور دیر تک کان لگائے سننے کی کوشش کرتا رہا کہ گیتا کچھ بولے۔ گیتا کچھ نہ بولی۔ پنڈت جی غلط کہہ رہے تھے۔ گیتا کچھ نہیں کہتی۔ کوئی کتاب کچھ نہیں کہتی۔ پڑھنے والے اس پڑھ کر جو کہنا چاہیں کہہ دیں، کتاب احتجاج نہیں کرسکتی۔

 


Wednesday, June 04, 2025

 

تم واجب القتل تھیں

 


تم واجب القتل تھیں
تم ایک خوب صورت لڑکی تھیں۔ ایک خوب صورت، سفید کھال والی لڑکی جس کی مانگ دنیا بھر میں اور بالخصوص ہمارے خطے میں بہت زیادہ ہے۔ تم اپنی خوب صورتی دنیا کو دکھا کر دنیا والوں کو اپنے گرد جمع کرسکتی تھیں۔ اور نئے دور میں ایسا ممکن ہے کہ اپنے اطراف مجمع اکٹھا کرلیا جائے مگر خود کو مجمع سے انٹرنیٹ کے ذریعے محفوظ فاصلے پہ رکھا جائے۔ تم نے ویڈیو بنائے۔ تمھاری باتیں سننے کے لیے، تمھارے نت نئے کپڑے، تمھاری ادائیں دیکھنے کے لیے لوگ جمع ہوگئے۔ اور اس بھیڑ سے فائدہ اٹھانے کے لیے اشتہارات پہنچے اور ذرا سی دیر میں تم پہ پیسوں کی بارش ہونے لگی۔ یہ ایک دم سے آنے والی شہرت اور دولت ایک خطرناک نشہ ہوتی ہے۔ یہ نشہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اور یہ نشہ تم پر بھی سر چڑھ کر بولا۔ تم یہ بھول گئیں کہ تمھارے ملک میں قانون صرف طاقتور کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تمھارے پاس جتنی رقم تھی ان پیسوں کی طاقت بہت کم تھی۔ ایک لاقانون معاشرے میں  تمھارا حسن، تمھارا زن ہونا تمھاری سب سے بڑی کمزوری تھی۔ 

تم نے نادانی میں اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے موت لکھ دی۔

Sana Yousaf
Valeria Márquez


Monday, May 05, 2025

 

پاکستان میں شراب نسبتا آسانی سے دستیاب ہے

 سوشل میڈیا پہ کسی نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں شراب اب آسانی سے دستیاب ہے اور مسلمان پی رہے ہیں۔ ہمارا جواب یہ ہے

جھوٹ بولنا، وقت کی پابندی نہ کرنا، پورا نہ تولنا، اپنے قدرتی ماحول کو تباہ کرنا، اپنے انفرادی فائدے کو اجتماعی فائدے پہ فوقیت دینا، شراب پینے سے ہزار گنا بڑی خرابیاں ہیں۔ پہلے ان پہ کام کریں۔

غیر ملکی سفارت خانوں کے باہر اپنے لوگوں کی قطاریں دیکھیں۔ لوگ وہاں جانے کے لیے بے تاب ہیں جہاں سچ بولا جاتا ہے، وقت کی پابندی کی جاتی ہے، پورا تولا جاتا ہے، قدرتی ماحول کا خیال کیا جاتا ہے، اور اجتماعی فائدے کو انفرادی فائدے پہ ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسی جگہ اگر لوگ شراب پی رہے ہیں تو اس سے ہمیں کیا نقصان ہے؟ 


Thursday, April 17, 2025

 

غزہ احتجاج: کیا نہ کریں۔ کیا کریں۔

 

غزہ احتجاج: کیا نہ کریں۔ کیا کریں۔ 

پاکستان کی اکثریت مسلمان ہے۔ یہاں اسرائیلی نہیں رہتے۔ یہاں کے لوگوں کا، کاروباری افراد کا اسرائیلیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں بین الاقوامی برانڈ کی مصنوعات بھی اپنے ہی لوگ بیچ رہے ہیں؛ بین الاقوامی برانڈ کے ریستوراں کے مالکان بھی اپنے ہی لوگ ہیں۔  برائے مہربانی غزہ احتجاج کے نام پہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔

 

یہ نہ کریں

سڑکیں بند نہ کریں

ٹریفک میں خلل نہ ڈالیں

کاروبار بند نہ کریں

ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ، پتھر بازی نہ کریں

کسی کاروبار کو نقصان نہ پہنچائیں

 

یہ مثبت کام کریں

بہت سے ممالک موجودہ جنگ میں اسرائیل کے حمایتی اور مددگار ہیں۔ ان میں سے اکثر ممالک کے سفارت خانے اور قونصل خانے پاکستان میں موجود ہیں۔ ان سفارت خانوں کے سامنے پرامن احتجاج کریں اور سفیروں کو اپنا احتجاج تحریری صورت میں پیش کریں۔

اگر آپ کا خیال ہے کہ کوئی بین الاقوامی کاروبار اسرائیل کا مددگار ہے تو اس کاروبار کا بائیکاٹ کریں۔ مگر توڑ پھوڑ، جلائو گھیرائو ہرگز نہ کریں۔

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ وقت جہاد آ پہنچا ہے تو اس سلسلے میں عملی قدم اٹھائیے۔


Saturday, April 05, 2025

 

جنت کی جنسی بے راہ روی

ہمیں مغرب کی جنسی بے راہ روی پہ یہ سوچ کر غصہ آتا ہے کہ جو کچھ مرنے کے بعد جنت میں ہونا تھا، وہ ابھی سے کیونکر شروع ہوگیا۔

 


Monday, October 07, 2024

 

بوڑھاپے کے نشے

 بوڑھاپے میں درد سے بے آرام لوگ کسی نہ کسی نشے کا سہارا لیتے ہیں۔ اکثریت مذہب کا انتخاب کرتی ہے۔


Saturday, September 14, 2024

 

ہمارے بزرگ اور ان کی دانائی

 

سیانے کہتے ہیں کہ لوگوں کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اسی لیے لوگ، بزرگوں کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور ان باتوں میں حکمت کے موتی تلاش کرتے ہیں۔ مگر ہمارے خاندان کے بزرگ، نصیحت کے میدان میں صرف ساٹھ سال سے پچھتر سال کی عمر تک کارآمد رہتے ہیں۔ اگر ہمارے بزرگ اس عمر سےآگے نکل جائیں تو دل پذیر لہجے میں عمر بھر کے قیمتی تجربات بیان کرنے کے بجائے گالم گلوچ پہ اتر آتے ہیں۔
چند دن پہلے ہم نے خاندان کے ایک پچاسی سالہ بزرگ سے درخواست کی کہ وہ ہمیں تین نصیحتیں کریں۔ انہوں نے فٹا فٹ تین موٹی موٹی گالیاں دے کر ہمیں رخصت کیا۔


Thursday, September 05, 2024

 

شادی کا کاروبار

شادی کا کاروبار

آپ کے کتنے بچے ہیں؟
جی، میرے تین مسئلے ہیں۔
کیا عمریں ہیں بچوں کی؟
بڑا مسئلہ چھبیس برس کا ہے۔ منجھلا انٹرمیں ہے۔ اور چھوٹی مسئلی دسویں پڑھ رہی ہے۔
آپ کی بیگم صاحبہ حیات ہیں؟
جی ہاں، ام المسائل بدستور اپنی جگہ موجود ہیں۔
بچے تو آپ کے بڑے ہیں۔ آپ کا بڑا لڑکا کہاں پہنچا؟
میرا بڑا لڑکا چاند پہ پہنچ گیا ہے۔ ابے سلفیٹ، پہنچنا کہاں ہے اسے؟ بی کام کیا تھا، نوکری ملتی ہے پھر ختم ہوجاتی ہے۔ اب کہتا ہے کہ ریٹائرمنٹ چاہتا ہوں، میری شادی کردیں۔
صاحبزادے کی شادی کے لیے کس طرح کا رشتہ درکار ہے؟
ہمیں ایک ایسی خوب صورت، حور، پری،  پڑھی لکھی لڑکی کی تلاش ہے جو گھر کا کام کاج کرنے کے علاوہ نوکری کر کے ہمارے پورے گھر کی پرورش کرے۔
ایک لڑکی میں اتنی مختلف اوصاف ملنا تو ممکن نہیں ہے۔
اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو دو شادیاں کر لے۔ ایک گھر کا انتظام سنبھالے اور دوسری نوکری کرے اور گھر کا خرچہ چلائے۔
دو شادیوں کا خرچہ کیسے برداشت کریں گے؟
بات تو صحیح ہے، رقم تو نہیں ہے اتنی، مگر بہرحال اللہ نے دماغ دیا ہے۔ پہلی شادی میں اچھے جہیز کی مانگ کریں گے۔ پھر پہلی شادی کا جہیز بیچ کر دوسری شادی کا خرچہ نکالیں گے۔ نوکری تو کرنہ پایا ہمارا لڑکا، اب شادی کا کاروبار ہی کرے۔


Tuesday, August 27, 2024

 

خوف کی تفریح

 خوف کی تفریح



رولر کوسٹر ایک  مزے کی سواری ہے۔ آپ ایک کھٹولے میں سوار ہوتے ہیں اور سواری کا مزا لوٹتے ہیں۔ کھٹولا کبھی اوپر جاتا ہے، کبھی نیچے، یا پھر تیزی سے دائیں یا بائیں مڑ جاتا ہے۔ کب کس موقع پہ کیا ہوگا، یہ آپ نہیں جانتے۔ اور پھر اچانک سواری کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
رولر کوسٹر میں سواری کے دو خراب راستے ہیں۔
اول خراب طریقہ رولر کوسٹر میں سواری سے حفاظت سے متعلق ہے۔ آپ کی حفاظت کے لیے آپ کی نشست پہ ایک پیٹی موجود ہے جسے سواری شروع ہونے سے پہلے باندھنا ہے۔ آپ یوں کرسکتے ہیں کہ سواری کے دوران مستقل اپنی حفاظت سے متعلق پریشان رہیں اور یہ یقین کرتے رہیں کہ آپ کی پیٹی اچھی طرح بندھی ہے، اور اسی پریشانی میں سواری کا وقت ختم ہوجائے۔ یہ یقیناً  رولر کوسٹر سے وابستہ تفریح کو خراب کرنے کا ایک  طریقہ ہے۔
تفریح سے منہ موڑنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس پس مردگی سے کھٹولے میں سوار ہوں کہ بس تھوڑی سی ہی دیر کی تو بات ہے، سواری کا وقت ختم ہوجائے گا اور سواری سے وابستہ مزا بھی ساتھ ختم ہوجائے گا۔ یہ یقیناً  رولر کوسٹر کی تفریح کو خراب کرنے کا دوسرا  طریقہ ہے۔
زندگی گزارنے کے دو خراب طریقے بھی اسی نوعیت کے ہیں۔




Wednesday, August 07, 2024

 

حال بے حال

 جنوبی ہند کے قصبے سری منڈل وینکٹ ناراسمہاراجوواریپیٹا میں ہونے والی عالمی متقین ادیان کانفرینس میں شریک مجوسی جوتشی، اکابرین عقائد ابراہیمی، ویدک واستو شاستری اور آزتیک زائچہ نویس صرف اس ایک بات پہ متفق ہوئے کہ انگریزی شمسی چکر کے تیسرے ماہ کا گیارہواں دن منحوس اور نجس ہے اور جس مقدر ممکن ہو اس دن کی نحوست اور شر سے بچنا چاہیے۔ بس اسی روز میرا اس دنیا میں ظہور ہوا تھا۔ میری پیدائش کے وقت ہی طبیبوں نے جواب دے دیا تھا۔ صاف کہہ دیا تھا کہ یہ سوکھا سڑا بچہ نہیں بچے گا۔ اور ڈاکٹروں کی بات سولہ آنے درست تھی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میرا بچنا ناممکن ہے۔ البتہ، وہ دن اور آج کا دن، بچتے بچاتے یہاں تک پہنچا ہوں۔
پیدائش کے فورا بعد میں خوش تھا کہ اب کشادہ جگہ آگیا تھا۔ نو مہینے ایک تنگ جھگی میں رہ کر دل اکتا گیا تھا۔ اس کھلی جگہ پہ میرے ٹھاٹ تھے۔ زیادہ تر سوتا رہتا تھا۔ بیدار ہوتا، تھوڑا سا دودھ پیتا اور پھر سو جاتا۔ کہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہیں لیٹے لیٹے بول و براز سے فارغ ہوجاتا۔ صفائی کی ضرورت ہو تو تھوڑا سا رو دیتا۔ صفائی کرنے والے فورا حاضر ہوجاتے اور میرے جسم کی صفائی کرنے کے بعد فضلہ اٹھا کر لے جاتے۔ ہر خواہش کا  اظہار گریا سے کرتا تھا۔ غصہ اس وقت آتا تھا جب لوگ سمجھ نہ پاتے تھے کہ میری خواہش کیا ہے۔ حالانکہ میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ بھوک کا رونا ایک طرح کا ہو، اور طلب صفائی کا دوسری طرح کا۔ اب میں بھوک کے لیے رو رہا ہوں اور لوگ میرا پوتڑا دیکھ رہے ہیں تو غصہ تو آئے گا۔
اس موقع پر خدام کی انتھک محنت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت ضروری ہے۔ پیدائش کے فورا بعد ایک عورت اور ایک مرد بہت زیادہ نظر آنے لگے۔ یہ دونوں مستقل میری چاپلوسی میں لگے رہتے تھے۔ جلد یہ عقدہ کھلا کہ یہی ماں باپ ہیں۔
لوگوں کو فخر ہوتا ہے کہ وہ اپنی عمر سے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ میری زندگی میں معاملہ الٹا رہا ہے۔ میں ہمیشہ اپنی عمر سے بڑا ہی نظر آیا اور دو چار سال نہیں بلکہ کئی دہائیوں بڑا۔ اس وقت میرا سن بمشکل پچاس برس ہے مگر کسی زاویے سے میں ستر اسی سے کم کا نظر نہیں آتا۔
مجھے یاد ہے کہ جب داخلے کے لیے اسکول لے جایا گیا تو میں بھاگ کر والدین سے پہلے پرنسپل کے کمرے میں پہنچ گیا۔ پرنسپل مجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئیں؛ مسکرا کر مجھے سلام کیا اور پوچھا، ' کیا بچے پیچھے آر ہے ہیں؟'
اسکول میں داخلے کے بعد بھی حالات بہتر نہ ہوئے۔ میرے ہم جماعت مجھے شک کی نظر سے دیکھتے تھے اور نئے اساتذہ مجھے جماعت میں بیٹھا دیکھ کر ٹھٹک جاتے تھے۔ ان کو خیال ہوتا تھا کہ شاید بورڈ سے کوئی شخص ان کی تدریسی صلاحیتیں جانچنے کے لیے آیا ہوا ہے۔
میری عمر بڑھتی رہی اور میں پیران سالی کی منازل جست لگا کر عبور کرتا رہا۔  پندرہ سال کی عمر میں سر کے بال جھڑ چکے تھے اور جب انیس سال کی عمر میں موتیا نکالا گیا تو باور کیا گیا کہ میں موتیا نکالے جانے والا دنیا کا سب سے کم سن بڈھا ہوں۔
جیسے تیسے تعلم مکمل کی تو نوکری کی تلاش اور بھی بڑا عذاب ثابت ہوئی۔ اکثر جگہ تو میری شکل دیکھ کر ہی مجھے واپس کردیا جاتا۔ کوئی نیک صفت مل جاتا تو مجھے بازو سے تھام کر مشورہ دیتا، " بڑے صاحب، یہ کوئی عمر ہے کام کرنے کی؟ آپ تو ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاریں، یعنی نماز، روزہ، اور فیس بک۔"
نوکری مل گئی تو گھر بسانے کا خیال آیا۔ یہ بہت دشوار مرحلہ تھا۔ جہاں جاتا یہی سوال ہوتا کہ "خاندان کے سارے بزرگ نظر آرہے ہیں، لڑکا نظر نہیں آرہا۔" جب گھر والوں نے کئی جگہ ایسے طعنے تشنے سننے کے بعد میری سگائی کی کوشش ترک کردی تو میں نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ جلدی سے ضرورت رشتہ کا اشتہار تیار کیا۔ ایک خوبرو، اعلی تعلیم یافتہ، ملازم پیشہ نوجوان کے لیے سولہ سے اٹھارہ سالہ لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ درج ذیل نمبر پہ فورا رابطہ کریں ورنہ رشتہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اشتہار کا متن لے کر اپنے محلے دار رفیع صاحب کے پاس پہنچا جو اخبار میں کام کرتے تھے۔ رفیع صاحب نے میری بات غور سے سنی، اشتہار کا متن میرے ہاتھ سے لے کر پڑھا اور اسے پڑھنے کے دوران نظریں اٹھا کر کئی بار مجھے دیکھا۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کر کاغذ ایک طرف رکھ دیا اور سمجھایا  کہ، ' یہ ارادہ دل سے نکال دیجیے، یہ تو آپ کے لیے اللہ اللہ کرنے کا وقت ہے۔'  پھر ساتھ ہی جنت کا پرفریب نقشہ کھینچا، حوروں کا لالچ دیا اور بتایا کہ بس یہ مال کچھ ہی دنوں میں میرا  ہونے والا ہے۔  بہت سی نیم برہنہ حوروں کا مجھ سے دودھ کی نہر کے قریب اٹھکیلیاں کرنے کا خیال مجھے بہت بھایا۔ رفیع صاحب کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے روانہ ہوگیا۔  مگر گھر آتے ہوئے ایک شک نے سر ابھارا کہ مرنے کے بعد نہ جانے جنت پہنچوں گا یا نہیں۔ سوچا کہ محلے کی مسجد کے امام، مولوی عبدالقدوس سے معلوم کرلوں کہ آیا میں جنت میں داخل کیا جائوں گا یا وہاں بھی اسی طرح کی بات سننے کو ملے گی کہ "بڑے میاں، یہاں آپ کا کیا کام؟ اندر والی فلم صرف مسٹنڈے بالغان کے لیے ہے۔" مولوی عبدلقدوس نے میری بات غور سے سنائی اور پھر استفسار کیا، "میں آپ کو ایک عرصے سے جانتا ہوں مگر میں آپ کی ذاتی زندگی سے نا واقف ہوں۔ کیا آپ سے کچھ گناہ بھی سرزد ہوئے ہیں؟" میں نے کہا، "مولوی صاحب، خطا کا پتلا ہوں۔ آپ پوچھتے ہیں تو بتاتا ہوں کہ کہاں چوک گیا تھا"، اور پھر میں نے اپنا  بیان عصیاں شروع کیا۔  مولوی صاحب کچھ دیر تو سر جھکائے خاموشی سے سنتے رہے، پھر سر اٹھا کر بولے، "صاحب اتنی تفصیل میں جا کر ڈینگیں مارنے کا کیا مقصد ہے؟ اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ میں نے ایک بے رنگ زندگی گزاری ہے تو آپ کو آپ کا ہدف حاصل ہوچکا ہے۔ نماز کا وقت ہورہا ہے۔ مجھے جانے دیجیے۔" میں کہاں آسانی سے ہار ماننے والے تھے۔ میں نے کہا، "مولوی صاحب، جاتے ہوئے یہ تو بتا دیجیے کہ آخرت میں میرا ٹھکانہ کہاں ہے۔" مولوی عبدالقدوس بولے، " آخرت میں آپ کا ٹھکانہ بالکل طے ہے۔ یعنی دوزخ۔" ایسا دو ٹوک جواب سن کر میں غصے میں آگیا۔ میں نے پوچھا، "اور جو چھ سال کی عمر سے نمازیں پڑھ رہا ہوں اس کا کیا بنے گا؟" مولوی صاحب نے جواب دیا، "آپ کے گناہ اس قدر بڑے اور وزنی ہیں کہ انہوں نے آپ کی تمام نمازوں کو روند ڈالا ہے۔"
"اور وہ جو بارہ سال کی عمر سے تیرہ سے پندرہ گھنٹے لمبے روزے رکھے ہیں، ان کا ثواب؟" میں نے پوچھا۔
"ان کا کیا ثواب ملنا ہے آپ کو؟ شاید دوزخ میں مارپیٹ کے دوران کبھی کبھار آپ کو روح افزا یا دودھ کی ٹھنڈی بوتل پینے کو مل جائے تو غنیمت جانیے گا۔ اور ہاں، حساب کتاب قبر سے شروع ہوجائے گا ۔ عربی پڑھ لیجیےکیونکہ قبر میں تمام سوالات عربی میں پوچھے جائیں گے۔" یہ کہہ کر مولوی عبدالقدوس چلتے بنے۔
میں نے اسی وقت تہیہ کیا اب منو اور نکے کے ہاتھ نہیں آنا۔ منکر نکیر نامی فرشتوں کو میں پیار سے یوں ہی بلاتا ہوں۔ میں نے گھر پہنچتے ہی وصیت لکھی کہ میرے مرنے کے بعد میری چتا جلائی جائے۔ نہ قبر میں پہنچوں کا اور نہ ان دونوں چغل خوروں کے ہاتھ لگوں گا۔ وصیت میں یہ بھی لکھ دیا کہ میری چتا سے جو راکھ برآمد ہو اسے مولوی عبدالقدوس کے گھر پہ چھڑک دیا جائے۔


This page is powered by Blogger. Isn't yours?