Thursday, December 04, 2025

 

طاقت ایمانی

 طاقت ایمانی

ہمارے بزرگوں کی کرامات معجزے؛ دوسرے گروہوں کے بزرگوں کی کرامات کالا جادو

 


Monday, December 01, 2025

 

ستائیسویں ترمیم

 ستائیسویں ترمیم کی پارلیمان سے منظوری جان کر نہ جانے کیوں جبری نکاح کا خیال آیا۔


Thursday, November 27, 2025

 

تھینکس گونگ بمقابلہ دس محرم

 

 تھینکس گونگ [شکرانے کا دن] دس محرم سے سراسر مختلف تہوار ہے۔ دس محرم غم و غصے کا تہوار ہے۔ ہائے ہائے یہ کیا ہوگیا۔ ہم تباہ ہوگئے، برباد ہوگئے۔ اس کے مقابلے میں تھینکس گونگ کا پیغام یہ ہے کہ جو ہوا اچھا ہوا۔ ہم آج زندہ ہیں اور کھانا کھا رہے ہیں، اس پہ جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔



Wednesday, November 26, 2025

 

موت کے بعد انسان کی روح کہاں جاتی ہے؟

 اب تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ انسان کی موت کے بعد اس کی روح اوپر آسمان کی طرف چلی جاتی ہے۔ کیونکہ اکثر لوگ لیٹے لیٹے مرتے ہیں اس لیے ان کی روح بھی لیٹی لیٹی آسمان کی طرف جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان بھاگتے ہوئے مرے تو اس کی روح دوڑتے ہوئے آسمان کی طرف جائے گی۔ آسمان میں جیسے جیسے اوپر جائیں آکسیجن کی کمی ہوتی جاتی ہے۔ اسی لیے بعض سمجھدار روحیں اوپر جانے سے پہلے آکسیجن کے سیلنڈر خرید لیتی ہیں۔ 

انسانی جسم کی موت کے بعد ہر روح اوپر یعنی مریخ کی طرف نہیں جاتی۔ بہت سی روحیں اوپر کی طرف جاتے جاتے راستہ بھول جاتی ہیں اور پھر دنیا میں بھٹکتی رہتی ہیں۔ یہ بھٹکتی روحیں کراچی میں تین ہٹی کے اسٹاپ کے علاوہ مختف چوراہوں پہ نظر آئیں گی۔ کئی روحیں چوراہے پہ شلوار کے ناڑے بیچتی ہیں کیونکہ بعض ڈرائیور حضرات انجانے میں ایسی شلوار پہنے ہوتے ہیں جس کا ازار بند بہت پہلے نکالا جا چکا ہوتا ہے۔  


Tuesday, November 25, 2025

 

آخری دن کا حال

 

آخری دن کا حال

اور پھر آخری دن آگیا، بغیر کسی اعلان کے۔ اور یہ یوں ہی ہوتا ہے۔ آخری دن کی کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی۔ بس اچانک آخری دن آ جاتا ہے۔ اب جب کہ اس آخری دن کو گزرے کچھ عرصہ گزر چکا ہے، آخری دن کا مفصل حال لکھنا ضروری ہے۔ مگر آخری دن کا حال اس سے پیشتر دن کے حال سے جڑا ہے۔ تیرہ اکتوبر کی رات اپنے کمرے میں جانے سے پہلے میں ابا کے کمرے میں گیا تھا۔ ابا بستر پہ لیٹے چھت تک رہے تھے۔ ایک عرصے سے ایک جوان مرد ناظم ابا کے ساتھ ان کے کمرے میں چوبیس گھنٹے موجود ہوتا تھا۔ وہ ابا کے سارے کام کرتا تھا۔ میں نے کا رندے سے ابا کی خوراک کے بارے میں پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ کچھ دیر پہلے ابا کو انشیور کے علاوہ ایک کیلا اور تھوڑا دہی کھلا کر فارغ ہوا تھا۔ یہ جان کر مجھے اطمینان ہوا کیونکہ ابا کو کھانا کھلانے کی کوشش صبح سے اس وقت تک ناکام رہی تھی۔

اور پھر رات گزری اور سورج نے سر ابھارا۔ حسب عادت صبح اٹھ کر میں نے پھل اور سبزی کا مشروب تیار کیا۔ ابا ایک عرصے تک یہ مخلوط بہت شوق سے پیتے رہے تھے مگر مہینے بھر سے یہ حالت تھی کہ مشروب پینے سے ان کا پیٹ خراب ہوجاتا چنانچہ ہر روز صبح تیار کیا جانے والا یہ مشروب اب انہیں نہیں دیا جا رہا تھا۔ مشروب ختم کرنے کے بعد میں ابا کے کمرے میں گیا تو ابا کو سوتا پایا۔ اس وقت غالبا دس بجے تھے۔ ساڑھے دس بجے کے قریب جب میں دوبارہ ابا کے کمرے میں گیا تو ابا جاگ چکے تھے مگر بستر پہ تھے اور گم سم نظر آتے تھے۔ ناظم نے نے تجویز پیش کی کہ ابا کو نہلایا جائے۔ میں نے اس خیال کی یہ سوچ کر تائید کہ ابا کو نہائے چند دن ہو چکے تھے اور میرا خیال تھا کہ دن میں ابا کو دیکھنے کچھ احباب آئیں گے؛ ابا نہا دھو کر نئے کپڑے پہن لیں تو اچھا ہوگا۔ ابا خاموش تماشائی بنے یہ گفتگو سن رہے تھے۔

میں پچھلے سال دسمبر میں یہاں ابا کے پاس پہنچا تھا۔ میرے پہنچنے سے پہلے کئی بار ابا کی طبیعت بہت بگڑی تھی اور قریبی لوگ ان کی طبیعت سے متعلق سخت تشویش میں تھے۔ میرے پہنچنے پہ ابا اکثر گری گری طبیعت کی شکایت کرتے تھے مگر زندگی کی گاڑی رواں تھی۔ وہ وہیل چئیر پہ بیٹھ کر زمینی منزل پہ جاتے اور سرد دنوں میں دھوپ سینکتے۔ وہ اپنے فون پہ بھیجے گئے ویڈیو دیکھتے اور گھنٹوں ٹی وی پہ مبصرین کے گفتگو سنتے۔ ان تمام معمولات کے باوجود ان کی صحت کی جستہ جستہ تنزلی دیکھی جا سکتی تھی۔ ان کی صحت میں بتدریج گراوٹ کے ساتھ بعض دن ایسے آتے کہ گراف تیزی سے نیچے آتا اور اندیشہ ہوتا کہ یہ گراف اب صفر پہ پہنچ کر ہی دم لے گا مگر پھر ان کی طبیعت سنبھل جاتی؛ ان کی زندگی کی گاڑی گزرے کل کے مقابلے میں ایک نچلی سطح پہ چلنا شروع ہو جاتی۔

پھر ستمبر آیا اور ابا صاحب فراش ہوگئے۔ ستمبر کے وسط سے انہوں نے اخبار پڑھنا بھی چھوڑ دیا۔ اب وہ بہت کم بات کرتے تھے۔ بہت زور دینے پہ کوئی ایک مختصر جملہ یا کبھی صرف ایک لفظ کہہ دیتے۔ یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ ان کا دل زندگی سے اچاٹ ہو گیا تھا۔ وہ چلتے چلتے ایک ایسی جگہ آگئے تھے جو نہ صرف یہ کہ غیر مانوس تھی بلکہ بے آب و گیاہ تھی۔ ایک ایسی جگہ جس کے بارے میں شاید انہوں نے کتابوں میں تو پڑھا تھا مگر یہ تصورنہیں کیا تھا کہ خود وہاں پہنچنے پہ وہ کیسا محسوس کریں گے۔ وہ اس جغرافیہ میں بالکل بے بس تھے، ہر کام کے لیے دوسروں کی مدد کے محتاج تھے۔ ایک ایسے خود دار شخص کے لیے جو ساری زندگی دوسروں کے کام آیا ہو، یہ ایک تکلیف دہ امر تھا۔

تاریخ ستمبر اٹھائیس تھی۔ میرا بلاوا آیا۔ میں ابا کے پاس پہنچا تو انہوں نے ہاتھ سے روانگی کا اشارہ کیا۔ میں نے معصومیت سے پوچھا کہ وہ کہاں جانے کی بات کر رہے تھے۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے دنیا سے جانے کا کہا۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ کچھ ہی دنوں میں انہیں اپنے ڈاکٹر کو دکھانا تھا؛ بہتر ہو گا کہ وہ اس طرح کی باتیں اپنے ڈاکٹر سے کریں۔ یہ کہہ کر میں وہاں سے روانہ ہوگیا مگر مجھے خیال ہوا کہ ہمارا کھلاڑی اب کھیلتے کھیلتے تھک چکا تھا اور کھیل ختم کرنے کے درپے تھا۔

میں اپنے باپ کی پرانی تصویریں دیکھوں تو نہ جانے کیوں مجھے خیال ہوتا ہے کہ جیسے ان کے چہرے کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ چالیس سال کی عمر سے لے کے پچپن سال تک ان کا ایک طرح کا چہرہ تھا، پھر تقریبا ستر سال کی عمر تک وہ تصویروں میں ایک طرح کے نظر آتے ہیں، اور پھر وہاں سے پچاسی کا سن پار کرنے تک ایک اور طرح کا چہرہ تھا۔ پچاسی سال گزرنے کے بعد اب یہ چہرہ تقریبا ہر روز ہی بدل رہا تھا اور اخری دن وہ چہرہ ایک ایسے شخص کا تھا جو مکمل طور پہ تھک کر چور ہو گیا تھا۔

تو اس آخری دن ابا کی رائے جانے بغیر انہیں نہلانے کی تیاری ہو رہی تھی۔ اتنی دیر میں ابا کا ڈرائیور بھی کمرے میں آگیا۔ طے یہ پایا کہ ابا کو وہیل چئیر پہ بٹھا کر غسل خانے لے جایا جائے گا۔ ابا وہیل چئیر میں بیٹھ کر نہائیں گے اور پھر نہلانے کے بعد انہیں ان کے بستر تک وہیل چئیر پہ لایا جائے گا اور بستر پہ منتقل کرنے کے بعد انہیں نئے کپڑے پہنائے جائیں گے۔ ناظم کی مدد سے میں نے ابا کو بستر سے اٹھا کر وہیل چئیر پہ بٹھایا۔ میں نے ان کی قمیض اتارنے کے بعد بغلوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں تھوڑا سا اٹھایا تو کارندے نے زیریں لباس اتار دیا۔ ناظم نے مجھے اطمینان دلایا کہ وہ ڈرائیور کی مدد سے باقی کام مکمل کرلے گا۔ میں ابا کو ان دونوں کے حوالے کر کے وہاں سے روانہ ہوگیا۔ ابا کے کمرے کے باہر بیٹھک میں میری ملاقات اس ڈاکٹر سے ہوئی جو ہر دوسرے دن آتا تھا اور ابا کوہاتھوں پیروں کی ورزش کرواتا تھا۔ وہ اپنے وقت سے پہلے آگیا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ابا کو نہلانے کی تیاری ہورہی تھی اس لیے اسے انتظر کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب کو بیٹھک میں چھوڑ کر میں اپنے کمرے میں آگیا۔

میں غسلخانے میں تھا کہ مجھے خیال ہوا کہ میرے کمرے کے دروازے پہ ہلکی سی دستک ہوئی ہے۔ میں دوسری دستک کے انتظار میں کان لگائے رہا مگر ایسی کوئی آواز نہ آئی۔ میں معمولات نمٹانے کے بعد کمرے میں تھا کہ ایک بار پھر دستک ہوئی۔ میں کمرے سے باہر آیا تو ابا کے کمرے کا دروازہ کھلا پایا۔ ناظم تشویش میں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ نہلانے کے دوران ابا کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی۔ اس نے ابا کو جلدی سے نہلانے کے بعد بستر پہ لٹایا اور آکسیجن لگا دی۔ بستر کا سرہانہ اونچا کردیا گیا تھا۔ ابا کی آنکھیں بند تھیں۔ ڈاکٹر ابا کے ہاتھوں کی مالش کررہا تھا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ نہلانے کے دوران ابا کو آکسیجن نہ ملنے پہ ان کی حالت غیر ہوگئی تھی مگر اب آکسیجن لگنے کہ بعد ابا کی طبیعت بحال ہورہی تھی۔ طے پایا کہ آئندہ نہانے کے دوران بھی ابا مستقل آکسیجن پہ رہیں گے۔

ناظم نے بتایا کہ نہلانے کے دوران ابا کی حالت خراب دیکھنے پہ اس نے ڈرائیور کو مجھے بلانے کو کہا تھا۔ یہ وہی ہلکی دستک تھی جو مجھے غسلخانے میں سنائی دی تھی۔ مگر اب حالات اس قدر خراب نظر نہ آتے تھے۔ ابا کی آنکھیں بند تھیں مگر سانس بالکل ٹھیک چل رہی تھی۔ ڈاکٹر اپنے طور پہ ابا کی ورزش کروا کر روانہ ہوگیا۔

وقت آگے بڑھا۔ میں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ابا کے کمرے میں گیا تو ابا ہنوز بستر میں تھے۔ ان کی انکھیں بند تھیں۔ میں نے ناظم سے ابا کی خوراک کے بارے میں پوچھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ابا آنکھیں نہیں کھول رہے تھے اور انہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ میں نے ابا کو آواز دی اور انہیں جگانے کی کوشش کی مگر وہ گہری نیند میں نظر آتے تھے۔ یہ پونے چار بجے کا وقت تھا۔ میں نے کمرے میں پہنچ کر بہن بھائی اور عم زاد بہنوں کو پیغام بھیجا کہ 'ابا کو صبح تقریبا گیارہ بجے نہلایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ مستقل نیند میں ہیں اور انہوں نے کچھ نہیں کھایا۔ امید ہے کہ نہانے کی تھکن اتر گئی تو طبیعت سنبھل جائے گی۔' اس پیغام کا آخری حصہ امید پہ اس لیے ختم کیا گیا تھا کیونکہ ایسا پہلے بھی ہو چکا تھا کہ ابا کی طبیعت دن بھر خراب رہی مگر پھر وہ سنبھل گئے۔ خیال تھا کہ اس دفعہ بھی وہ اپنے آپ کو سنبھالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کچھ ہی دیر میں بھائی گھر پہنچ گئے۔ وہ جج ہیں اور میرا پیغام پڑھنے پہ عدالت سے سیدھا یہاں آئے تھے۔ ہم دونوں بھائی ابا کے کمرے میں پہنچے۔ ناظم نے بتایا کہ ابا کی آنکھیں بند ہیں مگر وہ ابا کو انشیور پلانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ یہ ایک اچھی خبر تھی۔ گلاس میں کچھ انشیور ابھی بھی موجود تھا۔ میں نے گلاس ابا کے ہونٹوں سے لگایا اور ان کو آواز دے کر انشور پلانے لگا۔ وہ ڈھیلے منہ کے ساتھ انشیور پی رہے تھے۔ منہ میں گھونٹ بھرتے تو تین چوتھائی حلق سے نیچے جاتا، بقیہ منہ کے کناروں سے بہنے لگتا۔ میں مستقل رومال سے ان کا منہ پونچھ رہا تھا۔ گلاس میں انشیور ختم ہوا تو میں نے سکون کا سانس لیا۔ مجھے اطمینان ہوا کہ بات سنبھل گئی تھی۔

بھائی کیونکہ دفتر سے یہاں آئے تھے اس لیے گھر جا کر کپڑے بدلنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کپڑے بدل کر واپس آئیں گے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے بھائی کے ساتھ جانا چاہیے۔ جتنی دیر میں وہ کپڑے بدلیں گے میں اماں سے مل لوں گا۔ قریباً پونے پانچ بجے ہم گھر سے روانہ ہوگئے۔ اب گھر میں ابا کے ساتھ صرف ناظم تھا۔ بھائی کے گھر پہنچ کر میں والدہ سے ملا اور کچھ ہی دیر میں ہم لوگ واپس ہولیے۔ سارے کام جلدی نمٹانے کے باوجود ہم قریباً ایک گھنٹہ گھر سے باہر رہے تھے اور اسی ایک گھنٹے میں سب کچھ بدل چکا تھا۔ کا رندے کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کے گھر سے نکلتے ساتھ ہی ابا کی سانس بند ہوگئی تھی؛ اس نے مجھے فون کرنے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہیں ہوا۔ میں نے جلدی سے ابا کی ناک کے ساتھ کان لگایا تو سانس چلنے کی آواز آئی۔ 'سانس تو چل رہی ہے'، میں نے کا رندے سے کہا۔ کارندے نے کہا کہ ایسا نہیں تھا، مجھے نلکی سے نکلنے والی آکسیجن کی آواز آ رہی تھی۔ اس نے ابا کی ناک سے نلکی نکالی۔ واقعی سانس بند تھی۔ میں نے ابا کی نبض ٹٹولی مگر کچھ نہ پایا۔ میں نے اپنا کان ان کے سینے پہ لگایا۔ دل کی دھڑکن سنائی نہیں دی۔ بھائی نے اسی وقت فون کے ذریعے ایمبولینس طلب کرلی۔ کارندے کو ڈرائیور کے ساتھ روانہ کیا گیا کہ وہ آس پاس جو بھی ڈاکٹر ملے اسے لے کر فورا گھر آئے۔ میں نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے بہن اور قریبی عم زاد بہنوں کو نازک صورتحال کا پیغام روانہ کردیا۔ ایمبولینس کے پہنچنے سے بہت پہلے بہن، بہنوئی، اور عم زاد گھر پہنچ چکے تھے۔ اس وقت تک کوئی ڈاکٹر ہمارے پاس موجود نہیں تھا۔ ایک عم زاد بہن کے مشورے پہ عمل کرتا ہوا میں ڈاکٹر کی تلاش میں نیچے استقبالیہ پہ گیا۔ معلوم ہوا کہ ہاں ٹاور دو میں ایک ڈاکٹر رہتا ہے۔ اس ڈاکٹر کو فون ملایا گیا اور اس سے درخواست کی گئی کہ وہ فورا آکر ابا کو دیکھے۔ میں زمینی منزل پہ ٹاور دو والے ڈاکٹر کا انتظار کر رہا تھا کہ میری نظر ایک خاتون پہ پڑی جو اپنے بچوں کے ساتھ وہاں موجود تھیں۔ مجھے خیال ہوا کہ بہت پہلے میرا ان سے تعارف ہوا تھا۔ میرے پوچھنے پہ انہوں نے تصدیق کی کہ وہ ڈاکٹر ہیں۔ میں نے ان سے صورتحال بیان کی تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر آ گئیں۔ انہوں نے ابا کی نبض دیکھی اور کہا کہ نبض نہیں چل رہی۔ اتنی دیر میں ٹاور دو والا ڈاکٹر گھر پہنچ گیا۔ اس نے ابا کی نبض ٹٹولی اور کہا کہ نبض بہت آہستہ چل رہی تھی۔ اس نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم ابا کو اسپتال لے جائیں۔ ہم نے ڈاکٹر کو بتایا کہ ایمبولینس کا انتظار ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر کا ہاتھ اب تک ابا کی نبض پہ تھا۔ اس نے کہا کہ اب آہستہ چلنے والی نبض بھی بند ہو گئی تھی۔ اس وقت چھ بج کر اٹھارہ منٹ ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نے سی پی آر کے ذریعے دل کو دوبارہ چالو کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ وہ زور زور سے سینے کو دبائِے گے اور جب وہ کہے تو مجھے ابا کے منہ میں زور سے ہوا مارنی ہے۔ ڈاکٹر نے دونوں ہاتھوں کو ابا کے سینے پہ رکھ کر ابا کے سینے کو دبانے کا کام شروع کیا۔ ڈاکٹر کے اشارے پہ میں نے ابا کے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ رکھ کر زور کی سانس ان کے منہ میں ڈالی۔ یہ سلسلہ کچھ دیر چلا پھر ڈاکٹر نے کہا کہ اب سینے کو دبانے کے ساتھ وہ مریض کو سانس بھی دے گا۔ ڈاکٹر جوان تھا اور جاندار تھا۔ وہ تن دہی سے کام کرتا رہا مگر پھر تھک گیا۔ اسے سی پی آر کرتے بیس منٹ ہوچکے تھے؛ وہ دل کی دھڑکن بحال کرنے میں ناکام رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ایمبولینس آ گئی۔ ایمبولینس کے ساتھ آنے والی دو خواتین ابا کے کمرے میں آئیں۔ انہوں نے ابا کا معائنہ کرنے کے بعد فیصلہ سنایا کہ اب ابا کو اسپتال لے جانا بے سود تھا۔ موت کی تصدیق ہو چکی تھی۔ اب آنسو تھے اور سرگوشیوں کے درمیان دبی دبی سسکیاں تھیں۔ گھر پہ موجود تمام قریبی لوگوں کے باہمی فیصلے سے طے پایا کہ میت کو غسل دے کر، کفن پہنا کر رات بھر کے لیے سردخانے میں رکھا جائے اور اگلے روز ظہر کی نماز کے بعد تدفین ہو۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ذہن میں دھندلا سا محفوظ ہے۔ میں چھیپا کی ایمبولینس میں ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھا تھا۔ ابا کو جناح اسپتال لے جایا گیا جہاں ایک بار پھر معائنہ ہوا اور توثیق مرگ نامہ جاری کردیا گیا۔ چھیپا کے سرد خانے سے ملحق کشادہ غسلخانے میں میت کو غسل دیا گیا، کفن پہنایا گیا، اور پھر سردخانے میں رکھ دیا گیا۔ میت کو سردخانے میں رکھوا کر میں عمارت سے باہر نکلا تو رات گہری ہو چکی تھی مگر رات بڑھنے کے باوجود کڑی دھوپ پڑ رہی تھی اور دور دور تک سائے کا کوئی نشان نہ ملتا تھا۔




Saturday, October 18, 2025

 

شمال سے آنے والے حملہ آوروں کا خون

جتنے غزنوی شمالی ہند کے مسلمان ہیں، اتنے ہی غزنوی اس خطے کے ہندو، سکھ، اور عیسائی بھی ہیں۔
 


 

جسم اور روح

 اگر یہ مانا جائے کہ ہر انسان کی روح ہوتی ہے تو یہ بھی 

ماننا ہوگا کہ ہر کمپیوٹر کی بھی ایک روح ہوتی ہے جو بجلی کا بٹن بند کرنے پہ قفس عنصری سے پرواز کرجاتی ہے۔

Friday, September 26, 2025

 

نئے دور کی خیرات

 



نئے دور کی خیرات
 یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر اس وقت اس کو ڈھونڈ نہیں پا رہا کہ ہر دور میں خیرات نکالنے کا طریقہ الگ ہوتا ہے۔ 
کسی بھی دور میں خیرات اس شے کی نکالی جاتی ہے جس کی لوگوں کو طلب ہو، ضرورت ہو، مانگ ہو، اور جس چیز سے آپ خود استفادہ کرتے ہوں یا آپ اس سے کبھی مستفید ہوئے ہوں۔
جس دور میں ہم زندہ ہیں اس دور میں ہم سب سے زیادہ استفادہ جس چیز سے اٹھاتے ہیں وہ انٹرنیٹ ہے۔ وہ سارا مواد جو ہم انٹرنیٹ سے حاصل کرتے ہیں کسی نہ کسی نے، کبھی نہ کبھی محنت سے انٹرنیٹ پہ ڈالا ہوتا ہے۔ نئے دور کی خیرات یہ ہے کہ ہم انٹرنیٹ کے خزانے میں اپنا حصہ شامل کریں تاکہ دوسرے اس سے استفادہ کر سکیں۔
 


Thursday, September 25, 2025

 

کیا آپ چاہیں گے کہ اپ کے کسی عمل سے دوسروں کو تکلیف پہنچے؟

 


 



کیا آپ چاہیں گے کہ اپ کے کسی عمل سے دوسروں کو تکلیف پہنچے؟ سمجھدار لوگوں کی اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔ کوئی بھی بااخلاق شخص ہرگز یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے کسی عمل سے دوسرے تکلیف میں مبتلا ہوں۔ اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو کیا آپ جانتے ہیں کہ اپ کے ایک روزمرہ عمل سے دوسروں کو سخت تکلیف پہنچتی ہے؟ اور ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ کے اس عمل سے کوئی سخت بیمار پڑ جاتا ہو یا کسی کی جان چلی جاتی ہو۔ آپ کا وہ عمل ہے اپنے باورچی خانے کے کوڑے کو باہر پھینک دینا۔ اس سے قطع نظر کہ آپ اپنا گیلا گھوڑا خود اپنے ہاتھوں سے باہر پھینکتے ہیں یا آپ کے گھر سے کوئی جمعدار کوئی کوڑا اٹھانے والی گاڑی اسے لے جاتی ہے۔ شہر کراچی میں کوڑا اٹھانے کا نظام انتہائی ناقص ہے اور آپ کے گھر سے اٹھایا جانے والا کوڑا بھی کہیں بہت دور نہیں جاتا۔ اس کوڑے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا بلکہ وہ کوڑا کسی ویران جگہ پہ ڈھیر کر دیا جاتا ہے۔ اپ کے گھر یا دفتر سے نکلنے والے کوڑے میں گیلا کوڑا سب سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اس گیلے کوڑے پہ مکھِیاں مچھر سمیت طرح طرح کے جراثیم پلتے ہیں۔ آوارہ کتے اور چیلیں کوڑے کے ڈھیر میں اپنی خوراک تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کوڑے پہ پلنے والے جراثیم بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ اس کوڑے پہ پلنے والے کتے راہگیروں کو، چھوٹے بچوں کو کاٹ لیتے ہیں۔ اور اس کوڑے پہ پلنے والی چیلیں کسی ہوائی جہاز سے ٹکرا کر بہت سے لوگوں کی موت کا سبب بن سکتی ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپ کے اس روز مرہ کے عمل سے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچے تو آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے گیلے کوڑے کو اپنے گھر یا دفتر میں ہی دفن کر دیں۔ اگر آپ کے پاس کچی زمین ہے تو آپ کچی زمین میں گڑھا کھود کر کوڑے کو دفن کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کچی زمین نہیں ہے تو آپ بڑے گملوں میں یہ کام کر سکتے ہیں۔ طریقہ بہت اسان ہے۔ تین یا زائد بڑے گملوں کا انتظام کیجیے۔ باورچی خانے کا گیلا کوڑا سارا دن ایک الگ برتن میں جمع کیجئے۔ دن کے اختتام پہ اس گیلے کوڑے کو خالی گملے میں انڈیل دیجیے اور کوڑے پہ مٹی کی ایک موٹی تہہ ڈال دیجئے تاکہ کوڑے پہ مکھیاں نہ آئیں۔ اگلے دن پھر یہی کام کیجیے اور پھر کوڑے کو مٹی کی موٹی تہہ سے چھپا دیجیے۔ ایسا کرتے جائیے حتی کہ پہلا گملہ بھر جائے۔ پھر یہی کام دوسرے گملے میں شروع کیجئے اور دوسرا گملہ بھرنے کے بعد تیسرے گملے میں۔ کراچی کی آب و ہوا ایسی ہے کہ گملہ بھرنے کے بعد 30 سے 40 دن میں سارا گیلا کوڑا گل سڑ کر کھاد بن جائے گا اور پھر آپ اس کھاد کو اس گملے سے نکال کر اس عمل کو دوبارہ سے پہلے گملے سے شروع کر سکتے ہیں۔

 

 

 

 


Friday, August 22, 2025

 

کراچی میں سڑکوں پہ بانی کا بارش کیوں کھڑا ہوجاتا ہے؟


 

مکالمہ

کراچی میں سڑکوں پہ بانی کا بارش کیوں کھڑا ہوجاتا ہے؟ ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
کراچی میں سڑکوں پہ بارش کا پانی اس لیے کھڑا ہوجاتا ہے کیونکہ اس شہر میں سڑکوں کے ساتھ برساتی نالے نہیں بنے ہیں۔


برساتی نالوں کی کیا ضرورت ہے؟ بارش کا پانی گٹر لائن سے کیوں نہیں نکالا جاسکتا؟
برساتی نالوں کا مقصد بارش کے پانی کی نکاسی ہے جب کہ سیاہ پانی کی نکاسی کے لیے گٹر لائن استعمال کی جاتی ہے۔ بارش کا پانی براہ راست جھیل، دریا، یا سمندر میں ڈالا جاسکتا ہے۔ گٹر کے پانی کے ساتھ ایسا نہیں کیا جاتا۔ آبی حیات کے تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے گٹر کے پانی کو چھاننے اور اس کی تیزابیت کو معتدل بنانے کے بعد اس پانی کو جھیل، دریا، یا سمندر میں ڈالا جاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے برساتی نالوں کو گٹر لائن سے الگ رکھنا ضروری ہے۔


کراچی میں سڑکوں کے ساتھ برساتی نالے کیوں نہیں بنائے جاتے؟
کراچی میں برساتی نالے بنانے کے تجربات مستقل ناکام ہوئے ہیں۔ عام دنوں میں برساتی نالے خشک پڑے ہوتے ہیں۔ جہاں کہیں سڑک کے ساتھ برساتی نالے بنائے گئے، لوگون نے عام دنوں میں ان نالوں کو خشک دیکھ کر ان میں کوڑا پھینکنا شروع کردیا اور یوں بارش کے موسم سے بہت پہلے یہ برساتی نالے کوڑے سے بھر گئے۔ پھر بارش ہوئی تو کوڑے سے بھرے برساتی نالوں کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔


لوگ برساتی نالوں میں کوڑا کیوں پھینکتے ہیں؟
اول یہ کہ اس شہر کی اکثریت جاہل ہے۔ یہ لوگ جدید دنیا کے نظام کو نہ تو سمجھتے ہیں اور نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں۔ دوئم یہ کہ ان لوگوں کی دنیا کے کاموں میں دلچسپی واجبی ہے؛ ان کی زیادہ دلچسپی جنت میں دودھ اور شہد کی نہروں کے سنگم پہ بیس مرلے کا گھر بنانے میں ہے۔
 


Monday, July 21, 2025

 

کراچی، کوڑے کا ڈھیر

 



 دوزخ میں سخت گرمی ہوگی اور جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر ہوں گے۔

کراچی کے رہائشی دوزخ پہنچ کر اپنائیت محسوس کریں گے۔

کوڑے کی شکایت سب کرتے ہیں مگر کچرے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہ کام بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں جو ان کے اختیار میں ہیں۔

آپ کراچی میں کتنے لوگوں کو جانتے ہیں جو گھر سے اپنے تھیلے لے کر خریداری کے لیے نکلیں؟

آپ کتنے لوگوں کو جانتے ہیں جو اپنا گیلا کوڑا زمین میں گاڑتے ہوں اور اسے باہر نہ پھینکتے ہوں؟
 

پلاسٹک کی تھیلیوں سے متعلق ایک لطیفہ ہے جو میں اپنی حماقت کی سند کے طور پہ پیش کرتا ہوں۔
میں کچھ عرصہ کراچی سے باہر رہنے کے بعد واپس وطن پہنچا تو بہت کچھ تبدیل ہوچکا تھا۔ ملک کے مختلف علاقوں سے کروڑ کے لگ بھگ اور لوگ کراچی میں آ بسے تھے۔ کوڑے کے ڈھیروں میں اضافہ ہوا تھا، ٹریفک بے ہنگم تر ہوگئی تھی اور زبان بھی بدل گئی تھی۔ ایک روز مجھے خیال آیا کہ گرم موسم کی مناسبت سے ایک آدھی آستین والی سفید قمیض خریدنا چاہیے۔ اس خریداری کی نیت سے صدر پہنچا۔ کپڑوں کی دکانوں کی طرف جاتے ہوئے پھلوں کا ایک ٹھیلا نظر آیا۔ اس سے کچھ پھل خریدے۔ اپنے ساتھ اپنا تھیلا لے جانا بھول گیا تھا اس لیے ناگواری کے احساس کے ساتھ اس کا پلاسٹک کا تھیلا قبول کیا۔ کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچ گیا جہاں قطار سے کپڑوں کی دکانیں تھیں۔ ایک دکان میں داخل ہونے لگا تو اندر سے آواز آئی، 'شاپر باہر، شاپر باہر۔' میں ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا۔ سمجھ نہ آیا کہ دکان کے اندر جائے بغیر قمیض کیسے پسند کروں گا۔  باہر کھڑے کھڑے جھانک تانک کرتا رہا اور پھر آواز لگائی، وہ سامنے جو نیلے رنگ کی قمیض ٹنگی ہے، اس میں سفید رنگ دکھائیں۔ دکاندار نے مجھے تعجب سے دیکھا اور کہا، 'آپ اندر آئیں۔' میں نے اس سے زیادہ تعجب سے پوچھا، 'اندر آئیں؟ اپ نے تو کہا تھا کہ شاپر باہر۔'  
'آپ کو نہیں کہا۔ آپ کے ہاتھ میں جو شاپر ہے اسے باہر رکھنے کو کہا ہے۔' اس نے جواب دیا۔
مجھے فورا اپنی بے وقوفی کا احساس ہوا اور معلوم ہوا کہ میری غیر موجودگی میں کراچی کی انگریزی بہت آگے نکل گئی ہے اور میں بہت پیچھے رہ گیا ہوں۔


This page is powered by Blogger. Isn't yours?